برطانیہ میں منشیات سمگلنگ میں گرفتار پاکستانی نژاد آصف حفیظ عرف ’سلطان‘ جن کی امریکہ حوالگی میں چھ سال لگے
- مصنف, ساجد اقبال
- عہدہ, بی بی سی نیوز، لندن
انسداد منشیات کا امریکی ادارہ ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی آخر کار اپنے دیرینہ ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ لاہور کے رہنے والے محمد آصف حفیظ، جنھیں عدالتی کاغذات میں ’سلطان‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی امریکہ حوالگی سے متعلق تقریباً چھ سال پر محیط عدالتی جنگ کا بھی اختتام ہوا جو انھوں نے اپنی امریکہ حوالگی کے خلاف برطانوی اور یورپی عدالتوں میں لڑی۔
محمد آصف حفیظ کو 25 اگست 2017 کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے مرکزی لندن میں واقع ان کے ملکیتی فلیٹ سے گرفتار کیا تھا۔ ان کی گرفتاری ایک امریکی درخواست پر عمل میں آئی تھی۔
امریکی حکومت نے آصف حفیظ پر امریکہ میں ہیروئین، میتھ اور حشیش کی سمگلنگ کی منصوبہ بندی کے الزامات پر امریکہ کے حوالے کرنے کی درخواست کی تھی۔
ان پر ہیروئین کی پیداوار میں یہ جانتے بوجھتے مدد فراہم کرنے کا بھی الزام ہے کہ اسے امریکہ میں سمگل کیا جائے گا۔
یورپی کورٹ فیصلہ
آصف حفیظ کی اپنی امریکہ حوالگی کے خلاف عدالتی جنگ کا اختتام گذشتہ ماہ انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں ہوا جہاں سات ججوں پر مشتمل بینچ نے متفقہ فیصلے کے ذریعے ان کی اپیل کو مسترد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی حکومت کی طرف سے انھیں امریکہ کے حوالے کرنے کے خلاف آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی۔
اپنی اپیل میں آصف حفیظ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کی امریکہ حوالگی سے انھیں عالمی کنونشن کے تحت حاصل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی کیونکہ انھیں امریکی جیلوں میں غیر انسانی اور تحقیر آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا اور انھیں جس طرح کے الزامات کا سامنا ہے امریکی عدالتوں میں انھیں عمر قید جیسی نوعیت کی سزا سنائی جا سکتی ہے اور جس میں پیرول پر رہائی کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔
تاہم جج گیبرئیلا ککسکو شٹاڈلمائر کی سربراہی میں قائم انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے سات رکنی بینچ نے ان کی اپیل کو مسترد کر دیا۔
اٹھارہ صفحات پر محیط اپنے فیصلے میں سات یورپی ججوں نے آصف حفیظ کے وکلا کی طرف سے پیش کیے گئے تمام دلائل پر تفصیل سے بحث کی تاہم انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے اس بینچ نے ان کے استدلال سے اتفاق نہیں کیا۔
ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ میں کارروائی
اس سے پہلے سنہ 2018 کے وسط میں آصف حفیظ کی امریکہ حوالگی کی درخواست کی سماعت ہوئی تھی۔ اس موقع پر انھوں نے امریکہ میں اپنے ممکنہ ٹرائل سے پہلے اور دوران اپنے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
اس موقع پر انھوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انھیں اپنے ساتھی قیدیوں کی طرف سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑے گا اور انھیں ایک مخبر کے طور پر دیکھا جائے گا۔
اس سلسلے میں ان کے وکلا نے مختلف حکومتی اداروں سے ان کے روابط کے ثبوت پیش کیے جن میں انھوں نے ان اداروں کو ایسی خفیہ معلومات فراہم کی تھیں جن کی بنیاد پر بھاری مقدار میں منشیات کو قبضے میں لیا گیا۔
سماعت کے دوران امریکی اٹارنی مسٹر ایم کے نے ان کے حق میں گواہی دی۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل سے پہلے آصف حفیظ کو مین ہیٹن میں واقع میٹروپولیٹن کوریکشن سنٹر یا بروکلین کے میٹروپولیٹن حراستی مرکز میں رکھا جائے گا جہاں ان کے لیے متعدد مشکلات ہو سکتی ہیں۔
ایک اور امریکی اٹارنی مس ڈی سی نے بھی آصف حفیظ کے حق میں گواہی دی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں جس نوعیت کے الزامات کا سامنا ہے ان میں سے ہر ایک کے لیے انھیں ممکنہ طور پر دس سال قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ان کے لیے یہ خطرہ موجود ہے کہ ان کی مجموعی سزا عمر قید ہو۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکی فیڈرل سسٹم کے تحت پیرول پر رہائی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
اپنے فیصلے میں برطانوی ڈسٹرکٹ جج جان ذانی نے ان دلائل کو مسترد کر دیا تھا اور قرار دیا تھا کہ انھیں چاہے مین ہیٹن کی جیل میں رکھا جائے یا بروکلین کے حراستی مرکز میں دونوں صورتوں میں حالات اس حد سے اوپر نہیں جاتے کہ انھیں انسانی حقوق کے کنونشن کے آرٹیکل تین کے تحت حاصل حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جا سکے۔
ڈسٹرکٹ جج نے آصف حفیظ کے وکلا کے اس مؤقف کو بھی رد کر دیا تھا کہ انھیں دیگر قیدیوں کی طرف سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ آصف حفیظ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے روابط کسی طرح سے اعلیٰ اخلاقی وجوہات کے سبب قائم کر رکھے تھے۔
انھوں نے کہا کہ حفیظ نے ان لوگوں کے بارے خفیہ معلومات قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کیں جو جرائم کی دنیا میں ان کے وسیع کاروبار میں ان کے مخالفین میں سے تھے۔
جج جان ذانی نے امریکہ حوالگی کی صورت میں آصف حفیظ کی صحت پر ہونے والے ممکنہ اثرات کے بارے میں دئیے گئے دلائل بھی مسترد کر دیے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی جیل حکام کو آصف حفیظ کی صحت کو درپیش مسائل کے بارے میں خبردار کر دیا گیا ہے اور انھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی علاج معالجے کی ضروریات کو اچھے طریقے سے پورا کیا جائے گا۔
ڈسٹرکٹ جج نے 11 جنوری 2019 کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ان کی رائے میں آصف حفیظ کی امریکہ حوالگی کے سلسلے میں تمام تقاضے پورے ہو رہے ہیں اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اپنی ان آرا کے ساتھ انھوں نے معاملہ سیکریٹری آف سٹیٹ برائے داخلہ کو بھیج دیا جنھوں نے پانچ مارچ 2019 کو آصف حفیظ کی امریکہ حوالگی کا حکم دے دیا۔
لندن ہائی کورٹ نے کیا فیصلہ دیا
اس سے پہلے کہ سیکریٹری آف سٹیٹ برائے داخلہ کے حکم پر عمل درآمد ہوتا، آصف حفیظ نے لندن ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا اور سیکریٹری آف سٹیٹ برائے داخلہ کے حکم کے خلاف اپیل کی اجازت مانگی۔
ان کی درخواست پر ابتدائی سماعت 27 ستمبر 2019 کو ہوئی۔ بعد میں اس سلسلے میں باقاعدہ سماعت دسمبر 2019 میں ہوئی۔ سماعت کے دوران درخواست دہندہ نے حراست کے دوران سہولتوں کی عدم دستیابی اور دیگر معاملات سے متعلق نئے شواہد عدالت کے سامنے پیش کرنے کی استدعا کی جسے مسترد کر دیا گیا۔
آصف حفیظ کے مخبر ہونے کے دعوے پر عدالت نے کہا کہ امریکی حکومت انھیں ایک مخبر نہیں سمجھتی اور اس بنیاد پر وہ اس ’اسٹیٹس کا فائدہ حاصل نہیں کر سکتے جو انھیں حاصل ہی نہیں ہے۔‘
کیس کے دیگر پہلوؤں سے متعلق پیش کیے گئے دلائل بھی عدالت کو اس امر پر مطمئن نہ کر سکے کہ آصف حفیظ کو باقاعدہ اپیل کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ لندن ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ 31 جنوری 2020 کو جاری کیا۔
اس کے بعد آصف حفیظ نے انسانی حقوق کی یورپی عدالت سے رجوع کیا جس نے 24 مارچ 2020 کو ایک عبوری حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ان کی امریکہ حوالگی کی کارروائی کو روک دیا تھا۔
آصف حفیظ کے خلاف کیا الزام ہے؟
جیسا کہ عام طور پر حوالگی کے معاملات میں ہوتا ہے، ابھی تک کسی بھی عدالت میں کیس کے میرٹ پر بحث نہیں کی گئی تاہم، اگست 2017 میں ان کی گرفتاری کے موقع پر ایک چارج شیٹ جاری کی گئی تھی جس میں آصف حفیظ کو 2013 سے جنوری 2017 کے دوران کینیا میں ہونے والے منشیات سے متعلق واقعات میں مرکزی ملزم قرار دیا گیا تھا۔
اس کیس میں کینیا سے تعلق رکھنے والے دو سگے بھائیوں بکتاش عکاشہ اور ابراہیم عبداللہ عکاشہ، بالی وڈ اداکارہ ممتا کلکرنی کے مبینہ ساتھی اور انڈین شہری وکی گوسوامی اور ایک پاکستانی شخص غلام حسین کو شریک ملزم قرار دیا گیا تھا۔
چارج شیٹ کے مطابق 28 مارچ 2014 کو کینیا کے شہر ممباسا میں بکتاش عکاشہ کی دو اشخاص سے ملاقات ہوئی تھی جنھوں نے اپنا تعارف کولمبیا کے ایک ڈرگ سمگلنگ گروپ کے نمائندوں کے طور پر کرایا تھا لیکن دراصل دونوں انڈر کور ایجنٹس تھے جو انسداد منشیات کے امریکہ ادارہ ڈی ای اے کے لیے کام کر رہے تھے۔
ملاقات کے دوران انھوں نے بکتاش عکاشہ کو بتایا کہ کولمبیئن آرگنائزیشن امریکہ سمگلنگ کے لیے اعلیٰ کوالٹی کی ہیروئین خریدنا چاہتی ہے۔ اس پر بکتاش عکاشہ نے انھیں بتایا کہ وہ انھیں ایک سو فیصد ’وائٹ کرسٹل‘ یا ملاوٹ سے پاک ہیروئین سپلائی کر سکتا ہے۔
19 ستمبر 2014 کو بکتاش عکاشہ، ابراہیم عبداللہ عکاشہ، غلام حسین، وکی گوسوامی اور ایک پانچویں شریک ملزم (جس کا نام نہیں بتایا گیا) کے درمیان ملاقات ہوئی جس کے دوران بتایا گیا کہ ہیروئین سپلائر ’سلطان‘ نے پانچویں شخص کو اپنے نمائندے کے طور پر بھیجا ہے۔ ملاقات کے دوران وکی گوسوامی نے نمائندے کو ہیروئین کا ایک کلو گرام سیمپل مہیا کرنے کو کہا۔
23 ستمبر 2014 کو آصف حفیظ نے وکی گوسوامی اور کینیا میں موجود اپنے نمائندے سے ہیروئین کے سودے کے بارے میں فون پر بات کی۔ 14 اکتوبر 2014 کو ابراہیم عکاشہ نے کولمبیا ڈرگ مافیا کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے ایجنٹ سے نیروبی میں ملاقات کی اور اسے تقریباً ایک کلو گرام ہیروئین مہیا کی۔
سات نومبر 2014 کر ابراہیم عکاشہ اور ’سلطان‘ کا نمائندہ ہونے کے دعویدار شریک ملزم نے کولمبیا سے تعلق کا دعویٰ کرنے والے دو انڈر کور ایجنٹوں سے ملاقات کی اور انھیں 98 کلو گرام ہیروئین فراہم کی۔
چارج شیٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ 2015 میں آصف حفیظ نے وکی گوسوامی کے ساتھ مل کے افریقی ملک موزمبیق کے شہر مپوٹو کے مضافات میں میتھ تیار کرنے والی ایک فیکٹری لگانے کا منصوبہ بنایا تاکہ اسے امریکہ سمیت دیگر مملک میں سمگل کیا جا سکے۔
اس سلسلے میں اپریل 2016 کو ایک شریک ملزم کو افریقہ سے انڈیا بھیجا گیا تاکہ مپوٹو کے مضافات میں قائم ہونے والی فیکٹری میں استعمال کے لیے ایفیڈرین کی ایک ملٹی ٹن کھیپ کی روانگی کا بندوبست کیا جا سکے۔ بعد میں انڈین حکام نے سولاپور میں ایک فیکٹری پر چھاپہ مار کر 18 ٹن ایفیڈرین قبضے میں لے لی تھی۔
Comments are closed.