جمعرات 11؍ربیع الاول 1445ھ28؍ستمبر 2023ء

آئی پی پیز معاہدے سابقہ حکومتوں کی بدنیتی، بیشتر مالکان کا تعلق حکمراں جماعتوں سے ہے، سراج الحق

problems

لاہور: امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ آئی پی پیز معاہدے سابقہ حکومتوں کی بدنیتی تھی اور ان کے بیشتر مالکان کا تعلق حکمراں جماعتوں سے ہے۔

منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے فرانزک آڈٹ اور ذمے داران کے کڑے احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 88کمپنیوں،جن میں سے بیشتر کے مالکان پاکستانی ہیں اور تعلق حکمران پارٹیوں سے ہے، کو مہنگی ترین بجلی پیدا کرنے اور اضافی پیداوار کی مد میں اب تک ساڑھے 8 ٹریلین ادا کیے جا چکے ہیں،ایسا ظلم ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں بھی نہ تھا۔

سراج الحق نے کہا کہ آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی کی جائے، معاملات ملکی سطح پر طے نہیں ہوتے تو عالمی عدالت سے رجوع کیا جائے۔ چیف جسٹس سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کم از کم آئی پی پیز معاہدوں پر ایکشن لے کر قوم کو انصاف دلائیں۔ ملک میں جتنے بحران پیدا ہوتے ہیں ان کے پیچھے مافیازاور حکومتوں میں شامل کرپٹ سرمایہ داروں اور ظالم جاگیرداروں کا گٹھ جوڑ اور منصوبہ بندی شامل ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بحرانوں سے یہی طبقات فوائد سمیٹتے ہیں۔ سو فیصد نقصان عوام کے حصے میں آتا ہے۔ مافیاز حکمراں جماعتوں پر سرمایہ کاری اور ان کے اقتدارمیں آنے پر کئی گنا وصول کرتے ہیں۔ عوام ہر ماہ بجلی بلوں کی مد میں حکومت کو48فیصد غنڈہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ صارف پر چوری شدہ بجلی، لائن لاسز اور حکمران اشرافیہ کی جانب سے استعمال کی گئی اربوں کی مفت بجلی کا بوجھ بھی ڈالا جاتا ہے۔

امیر جماعت کا کہنا تھا کہ کروڑوں، اربوں کے نادہندگان کو کوئی نہیں پوچھتا۔ 2 ہزار کی ادائیگی میں دیر ہوجائے تو غریب کا میٹر اکھاڑ لیا جاتا ہے جو کہ صارف کی ذاتی خرید ہے۔

سیکرٹری جنرل امیر العظیم، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، نائب امیر لاہور ذکراللہ مجاہد اور انجینئر اخلاق احمد بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس موقع پر بجلی بحران سے متعلق وائٹ پیپر بھی جاری کیا گیا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ حکمرانوں کو ہمیشہ سے آشوب چشم کی بیماری ہے،جس سے انہیں اپنے مفادات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ اندھے، بہرے اور گونگے ہیں اور انہوں نے مل کر قوم کو ہر مصیبت میں مبتلا کررکھا ہے۔ پی ڈی ایم، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی ملک کے مسائل میں برابر کی شریک ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ اسمگلنگ حکومت کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اسمگلنگ سے طاقتور افراد کو فائدہ،عوام کو نقصان ہوتا ہے۔ ایران سرحد سے اسمگلنگ کے بجائے اشیا کو قانونی طریقے سے درآمد کیا جا سکتا ہے۔ ایران پاکستان کو سستی بجلی اور گیس دینے کو تیار ہے، مگر امریکی دباؤ آڑے آتا ہے۔ حکومت اگر امریکی دباؤ برداشت نہیں کر سکتی تو دباؤ ڈالنے والوں سے سستی بجلی اور تیل لیا جائے وگرنہ ایران سے تجارت کی جائے۔

سراج الحق نے کہا کہ نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تجویز دی ہے، جس سے فی یونٹ قیمت 75روپے تک چلی جائے گی اور اگر سلسلہ نہ رکا تو 100روپے فی یونٹ ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت اور مہنگائی کی مجموعی صورت حال جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ 80ء کی دہائی تک ہائیڈل کے مقابلے میں تھرمل 30گنا زیادہ مہنگی تھی۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ملک میں پن بجلی اور سولر سے لاکھوں میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی تھی لیکن 1994ء میں تھرمل آئی پی پیز کے معاہدے ہوئے، مقامی کوئلہ وافر مقدار میں ہونے کے باوجود درآمد ی کوئلے کے کارخانے ساحل سمندر سے سیکڑوں میل دورلگائے گئے، مقصد صرف اور صرف سیاسی مفادات کا حصول اور مافیاز کو نوازنا تھا۔ معاہدوں کے ذمے داران اور فوائد اٹھانے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔

انہوں نے کہا کہ قوم بجلی چوری، لائن لاسز اورسرکاری اشرافیہ کے مفت استعمال کی مد میں 1200ارب سے زیادہ جرمانہ ادا کرتی ہے۔ بجلی بلوں میں 15اقسام کے ٹیکسز شامل ہیں، عوام بجلی کی اصل قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں، لیکن ان پر اضافی بوجھ ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے محکمے کی تقسیم در تقسیم کی گئی،انہیں یکجا کیا جائے۔ کروڑوں روپے سرکاری و غیر سرکاری نادہندگان سے وصولیاں کی جائیں۔

سراج الحق کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کی تحریک کے نتیجے میں حکومت نے ہلچل شروع کی ہے اور بلوں کے بڑے نادہندگان سے ایک ہفتے میں 6 ارب وصولی ممکن ہوئی ہے۔ ہم نے مہنگی بجلی اور مہنگائی کی مجموعی صورت حال کے خلاف پشاور، لاہور اور کوئٹہ کے گورنر ہاؤسز کے سامنے دھرنے دیے ہیں۔ رحیم یار خان، مظفرگڑھ، لیہ، فیصل آباد، راولپنڈی میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ آنے والے دنوں میں گورنر ہاؤس کراچی کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ عوام کو حقوق دلانے تک تحریک جاری رہے گی۔

You might also like

Comments are closed.