بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

وہ ملکہ جنھیں ان کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے ’مادام خسارہ‘ کا نام دیا گیا

میری انتونیت: فرانس کی وہ ملکہ جنھیں ان کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے ’مادام خسارہ‘ کا نام دیا گیا

  • وقار مصطفیٰ
  • صحافی، محقق

میری انتونیت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ملکہ بننے سے پہلے فرانس میں اپنے ابتدائی برسوں میں میری انتونیت نے فرانسیسی عوام کو مسحور کر دیا تھا

’غریب لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تو وہ کیک کھا لیں۔۔۔‘ یہ اساطیری جملہ فرانس کی ایک ملکہ سے منسوب ہے جن کا نام میری انتونیت تھا۔

یہ غیر حساس جملہ میری انتونیت نے کہا یا نہیں، یہ جاننے سے پہلے ان کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں جو عجائب سے بھرپور ہے۔

رومن شہنشاہ فرانسس اول اور طاقتور ملکہ ماریا تریسا کی سب سے چھوٹی بیٹی میری انتونیت سنہ 1755 میں آسٹریا کے شہر ویانا میں پیدا ہوئیں۔

وہ چودہ سال کی تھیں جب دیرینہ دشمن فرانس کے ساتھ نئے اتحاد کو مستحکم کرنے کے لیے آسٹریا کے شاہی جوڑے نے ان کا ہاتھ فرانسیسی تخت کے پندرہ برس کے وارث ڈافن لوئی آگسٹ کو پیش کیا۔ ان کی سات بہنیں بھی کسی نہ کسی سیاسی وجہ سے بیاہی گئی تھیں۔

رائن دریا کے بیچ ایک جزیرے پر حوالگی کے بعد ایک بڑے جلوس میں انھیں ورسائے محل لے جایا گیا اور اگلے روز یعنی 16 مئی سنہ 1770 کو محل میں شادی کی شاندار تقریب سجی۔

سیاست نے دو اجنبی افراد کو ملا تو دیا مگر ان کے درمیان ازدواجی تعلقات اگلے سات برس تک قائم نہ ہو پائے۔

1770 کی دہائی میں لوئی سولھویں بادشاہ بن چکے تھے۔ ان کی بے اولادی سے حریفوں، جن میں بادشاہ کے اپنے بھائی بھی شامل تھے اور جو وارث پیدا نہ ہونے کی صورت میں تخت کے وارث بن جاتے، کو شہہ ملی کہ میری انتونیت کے خلاف مبینہ غیر ازدواجی تعلقات کا بہتان تراشا جائے۔

آخرکار 1777 میں میری انتونیت کی والدہ ملکہ ماریا تریسا نے اپنے بیٹے شہنشاہ جوزف دوم کو ورسائے بھیجا تو یہ مسئلہ حل ہوا۔

لوئی جراحی کے کسی عمل سے گزرے یا شہنشاہ کے بقول اس جوڑے کا طریقہ زوجیت ہی غلط تھا، جسے ٹھیک کیا گیا۔ یوں ایک سال کے اندر اندر ان کے چار بچوں میں سے پہلے یعنی بیٹی کا جنم ہوا۔

تاہم بہتان کا یہ سلسلہ نہ رک سکا اور الزامات کی یہ مہم ہیرے کے ہار کے سکینڈل (1785) پر منتج ہوئی۔ اس میں ملکہ پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے ایک کارڈینل کے ساتھ غیر اخلاقی تعلقات قائم کیے۔ اس سکینڈل میں شامل افراد کو سزا تو ملی مگر اس سے بادشاہت بدنام ہوئی اور امرا کو ان تمام مالی اصلاحات کی بھرپور مخالفت کرنے کی ترغیب ملی جن کی وکالت بادشاہ کے وزرا کرتے تھے۔

یہ واقعہ ملکہ کی ساکھ کے لیے زیادہ برا تھا کیونکہ دسمبر 1778 میں اپنی بیٹی میری تھیرسے شارلٹ اور اکتوبر 1781 میں ڈافن لوئی کی پیدائش کے بعد سے وہ ایک پرسکون اور زیادہ روایتی زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کا دوسرا بیٹا، مستقبل کا سترھواں لوئی چارلس مارچ 1785 میں پیدا ہوا جبکہ آخری اولاد شہزادی صوفی تھی۔

میری انتونیت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بچوں میں سے صرف پہلی بیٹی ہی بلوغت کی عمرکو پہنچی۔ لوئی چارلس سمیت باقی سب کا انتقال چھوٹی عمر ہی میں ہوا۔ تھیرسے شارلٹ قیدیوں کے ایک تبادلے کے نتیجے میں آسٹریا بھیج دی گئیں جہاں شادی کے بعد وہ بے اولاد رہیں اور 72 سال کی عمرمیں وفات پائیں۔

ملکہ بننے سے پہلے فرانس میں اپنے ابتدائی برسوں میں میری انتونیت نے فرانسیسی عوام کو مسحور کر دیا تھا۔ جب یہ نوعمر ی میں فرانس کے دارالحکومت میں پہلی بار عوام کے سامنے آئیں تو پیرس کے 50 ہزار افراد کا ہجوم اتنا بے قابو ہو گیا کہ کم از کم 30 افراد کچلے گئے۔

فرانس کی تاریخ پر کام کرنے والے امریکی لکھاری ول بشر نے اپنی نئی کتاب ’میری انتونیت کا سر‘ میں لکھا ہے کہ ’شاہی مشاط (بال سنوارنے والا) لیونارڈ اوٹیے ملکہ کے معتمد خاص تھے۔ وہ ملکہ کے بال ایسے بناتے کہ ان کا جوڑا تقریباً چارفٹ بلند رہتا اور نہ گرتا۔اوٹیے ان کے بالوں کو پروں اور سنہری سوئیوں سے حیرت انگیز طور پر سجاتے۔

تاہم آسٹریا سے تعلق کا ’دھبا‘ زندگی بھر ان کے ساتھ رہا۔ ان کی بدقسمتی تھی کہ ڈرپوک اور غیر متاثر کن شوہر کی توجہ بھی نہ ملی۔ انھوں نے رقص اور جوئے کی محفلوں کے ذریعے فرار کی کوشش کی۔ 21 سال کی ملکہ نے اکتوبر 1777 میں اپنے ایک معتبر مشیر کے سامنے اعتراف کیا کہ ’میں بور ہونے سے خوفزدہ ہوں۔‘

بعض مورخین کے مطابق وہ سویڈش فوج کے کاؤنٹ ایکسل فرسن سے پیار کرتی تھیں۔

1930 کی دہائی میں سوانح نگار سٹیفن زوئگ نے لکھا کہ ’میری انتونیت ایک سماجی اور سیاسی سمندری طوفان میں دھکیل دی گئی تھیں۔‘

سولھویں لوئی کے تخت نشین ہونے اور انقلاب کے آغاز کے درمیان انھوں نے فرانس کی داخلی اور خارجہ پالیسی میں جو کردار ادا کیا وہ شاید بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔

خارجہ پالیسی میں انھیں آسٹریا کے مفادات کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں سولھویں لوئی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور یہ یقینی ہے کہ ان کے بھائی شہنشاہ جوزف دوم ان کے کامیاب نہ ہونے پر شدید مایوس تھے۔

میری انتونیت کی اس وقت سیاست میں دلچسپی اپنے دوستوں کے لیے فوائد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھی۔ ان افراد کے مسلسل مطالبات پورے کرنے سے خزانے پر بڑا اثر نہیں پڑا تاہم ان کے دیگر درباری اخراجات نے اگرچہ 1770 اور 80 کی دہائی میں فرانسیسی ریاست پر قرض کے بھاری بوجھ میں معمولی حصہ ڈالا۔ ان کا نام اینسین دور کے اختتامی برسوں میں فرانسیسی بادشاہت کے اخلاقی اختیار میں کمی سے جوڑا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

میری انتونیت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

عدالت نے سابق ملکہ پر بغاوت، جنسی بے راہ روی اور اپنے بیٹے لوئی چارلس کے ساتھ تعلقات جیسے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا

فرانس بھر کے دیہات میں جہاں کسان بھوکوں مر رہے تھے، وہیں میری اینتونیت نے ورسائے محل کے میدانوں میں ایک مثالی گاوں ’پیٹیٹ ہیمو‘ تعمیر کروایا۔

کہانیوں کا یہ گاوں جھیلوں، باغات، جھونپڑیوں، پن چکیوں اور ایک فارم ہاؤس پرمشتمل تھا۔ اس دیہی آرام گاہ میں ملکہ اور ان کی خواص کسانوں کے لباس میں ملبوس ہوتیں اور یوں ظاہر کرتیں جیسے وہ دودھ دوہنے اور جانور چرانے والی ہوں۔ میری انتونیت کی پیٹیٹ ہیمو جیسی شہ خرچیوں نے انقلابیوں کو مشتعل کر دیا اور انھیں ’مادام خسارہ‘ کا نام دیا گیا۔

مگر مورخین کہتے ہیں کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ ملکہ نے یہ بتائے جانے پر کہ فرانس میں کسانوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں مبینہ طور پر بے رحمی سے کبھی یہ کہا ہو کہ ’وہ کیک کھا لیں۔۔۔‘

حکمران طبقے کی عوام اور ان کے مسائل سے لاتعلقی ظاہر کرتا یہ جملہ میری انتونیت کے فرانس آنے سے بھی برسوں پہلے ماری تریسے کے بیان میں پہلی بار سامنے آیا تھا۔ ماری تریسے سپین کی شہزادی تھیں جنھوں نے چودھویں لوئی بادشاہ سے 1660 میں شادی کی تھی۔ میری انتونیت سے منسوب کیے جانے سے پہلے یہ تبصرہ چودھویں لوئی کی دوخالاوں سے بھی جوڑا گیا۔

بحرانوں کے دوران وہ اپنے شوہر سے زیادہ مضبوط اور فیصلہ ساز ثابت ہوئیں۔ 14 جولائی 1789 کو ایک ہجوم کے باسٹل پر دھاوا بولنے کے بعد ملکہ، لوئی کو میٹز میں اپنی فوج کے ساتھ پناہ لینے پر قائل کرنے میں ناکام رہیں تاہم اگست ستمبر میں انھوں نے کامیابی کے ساتھ انھیں جاگیرداری کے خاتمے اور شاہی استحقاق کو محدود کرنے کی انقلابی قومی اسمبلی کی کوششوں کی مزاحمت کرنے پر اکسایا۔

ان کی جانب سے اصلاحات کو مسترد کرنے سے بدامنی پھیل گئی اور انقلاب فرانس کی پیشرفت کے خلاف محلاتی مزاحمت کی۔ ان کی پالیسی ستمبر 1792 میں ہزار سالہ بادشاہت کے خاتمے کا باعث بنی۔

سابق بادشاہ سولھویں لوئی (1774-93) کو موت کے گھاٹ اتارنے کے نو ماہ بعد ایک انقلابی عدالت نے سابق ملکہ پر بغاوت، جنسی بے راہ روی اور اپنے بیٹے لوئی چارلس کے ساتھ تعلقات جیسے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا۔

میری انتونیت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جب میری انتونیت کا سر قلم کیا گیا تو ہزاروں تماشائی خوشی سے جھوم اٹھے

ملکہ کے بیٹے کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی والدہ کی جانب سے ان پر جنسی حملے کا بیان دے۔ شہزادی ڈی لامبل، جو پورے انقلاب کے دوران ملکہ کی وفادار رہی، ان کے ساتھ قید تھی۔ لامبل نے بادشاہت کے خلاف حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔ 3 ستمبر 1792 کو انھیں پیرس کے ایک ہجوم کے حوالہ کر دیا گیا۔ انھوں نے ان کا سر کاٹ دیا اور اسے سابق ملکہ کی کھڑکیوں کے باہر نیزے پر لٹکا دیا۔

اس دو روزہ مقدمہ میں سابق ملکہ کو تمام الزامات میں مجرم قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی گئی۔

سابق ملکہ نے اپنی بھابھی کو آخری خط لکھا جس میں ان سے درخواست کی گئی کہ وہ نوجوان لوئی کو الزامات کے لیے معاف کر دیں اور انھیں قائل کریں کہ وہ اپنے والدین کی موت کا بدلہ لینے کی کوشش نہ کریں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں پرسکون ہوں کیونکہ میرا ضمیر صاف ہے۔‘

اگلی صبح 16 اکتوبر 1793 کو جلاد نے ان کے بال کاٹ دیے اور ہاتھ پیچھے باندھ دیے۔ ایک پادری نے انھیں جب ہمت کی صلاح دی تو انھوں نے جواباً کہا کہ ’وہ لمحہ جب میری خرابیاں ختم ہونے والی ہیں وہ لمحہ نہیں جب ہمت مجھے ناکام کرے۔‘

38ویں سالگرہ سے دو ہفتے پہلے جب 12 بج کر 15 منٹ پر ان کا سر قلم کیا گیا تو ہزاروں تماشائی خوشی سے جھوم اٹھے۔

سابق ملکہ کو مارنے کے بعد ان کے تابوت کو میڈیلین چرچ کے پیچھے ایک بے نام اجتماعی قبر میں پھینک دیا گیا۔

سنہ 1815 میں بوربن بحالی کے نتیجے میں اٹھارویں لوئی بادشاہ کو نپولین کی جلاوطنی کے بعد تخت واپس ملا۔ ان کے حکم کے مطابق ان کے بڑے بھائی سولھویں لوئی اور میری انتونیت کی قبر کشائی کر کے ان کی ازسرنو فرانس کے شاہی خاندان کے دیگرافراد کے ساتھ سینٹ ڈینس کے باسیلیکا کیتھیڈرل کے اندر تدفین کی گئی۔

قبروں کے پاس ہی شاہی جوڑے کے پتھر کے مجسمے اب عبادت کی حالت میں جھکے نظر آتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.