بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

مصر میں لڑکیوں کے ختنے: کیا نئی قانون سازی مسئلے کا حل ہے؟

مصر میں لڑکیوں کے ختنے: کیا نئی قانون سازی مسئلے کا حل ہے؟

مصر

اگرچہ ختنے کے اس واقعے کو قریب 20 سال گزر چکے ہیں، امینہ نے بی بی سی عربی کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جب وہ کوئی جسمانی ورزش جیسا عمل سر انجام دیتی ہیں تو انھیں آج بھی تکلیف ہوتی ہے۔

سرکاری اور بین الاقوامی اطلاعات کے مطابق مصر میں بہت ساری خواتین کو اس طرح کے بھیانک عمل کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کی موت واقع ہوئی ہے، جبکہ دیگر واقعات نے خواتین کی جانوں اور جسموں پر گہرے نشانات چھوڑے ہیں۔

امنیہ نے ہمیں بتایا کہ مصری پارلیمنٹ نئی قانون سازی کرنے کے عمل میں ہے جس میں ایف جی ایم / سی انجام دینے والوں اور لڑکیوں کے لیے اس عمل کی حمایت کرنے والوں کے لیے جرمانے میں اضافہ ہو گا۔

امنیہ کہتی ہیں ’میں کسی بھی خاتون کو اس خوفناک صورتحال میں نہیں دیکھنا چاہتی ہوں جس کا مجھے سامنا کرنا پڑا۔‘

مصر

نئی پابندیاں کیا ہیں؟

مصری حکومت نے اس قانون میں ترامیم کی منظوری دی ہے جس سے لڑکیوں کے ختنے کروانے پر جرمانے میں اضافہ ہوتا ہے اور اس بل کو ایوان نمائندگان کے حوالے کیا گیا ہے، جو ان کی حتمی منظوری سے قبل ان پر بحث کرے گا۔

مجوزہ ترامیم میں پانچ سے 20 سال تک قید جیسی سزاؤں کا تعین کیا گیا ہے اور ایوان نمائندگان کی منظوری کے بعد یہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران ختنہ کرنے پر سخت سزاوں کے سلسلے میں دوسری قانونی ترمیم ہوگی۔

اور لڑکیوں کے ختنہ کرنے والے کو، خواہ وہ ڈاکٹر ہو یا نرس، نقصان کے مطابق سزا ہوتی ہے جو اس نے کسی لڑکی کا کیا ہے، جو کبھی کبھی موت کے منھ تک پہنچ جاتی ہے۔

یہ ترمیم موجودہ قانون میں موجود اس آرٹیکل کو منسوخ کرتی ہے جس کے مطابق کسی طبی ضرورت کے طور پر ختنہ کرنے کا جواز پیش کیا جاتا ہے، کیونکہ ختنہ کرنے کے معاملات میں ملزم ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر اپنا دفاع کیا ہے کہ وہ اہم آپریشن ہیں، چاہے وہ کسی مسئلے کا علاج کے لیے کیے جائیں یا سرجری کے لیے۔ اور ان کا مقصد ختنہ نہیں ہے۔

خواتین کی قومی کونسل (ایک سرکاری ادارہ جو مصر میں خواتین کے امور سے متعلق ہے) کی چیئرپرسن مایا مرسی نے مجوزہ ترامیم کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے جو لڑکیوں کو ایف جی ایم جیسے جرائم سے زیادہ تحفظ کی ضمانت دے گی۔

خواتین کی قومی کونسل کی سربراہ کا مزید کہنا ہے کہ نئی سخت سزاؤں سے خواتین کے ختنے کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے، کیونکہ وہ اس پر عمل کرنے والوں کے لیے عبرت کا کام کریں گے۔

اس سے قبل مصری پبلک پراسیکیوشن نے قانون سازوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ختنہ کرنے کے جرم کے مرتکب شخص کے لیے مقرر کردہ جرمانے پر دوبارہ غور کرے۔

مصر

خواتین کے حقوق کے لیے مصری سینٹر کے ڈائریکٹر ، نہاد ابو الکسمان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایف جی ایم کا مقابلہ کرنے کے لیے قانون میں یہ ترامیم ایک بڑا قدم بن جائیں گی کیونکہ وہ اس کو انجام دینے والوں کے فرار کے لیے کسی بھی ممکنہ خلا کو پُر کریں گے، خاص طور پر اس شق کا خاتمہ جو ’طبی ضرورت‘ کی چھتری کے تحت ختنہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

ابو القسمان نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ اس کی حمایت کرنے والے ڈاکٹروں کا سہارا لیتے ہیں کہ وہ ان کی لڑکیوں کے لیے یہ آپریشن کریں تاکہ پیچیدگیوں میں اضافہ نہ ہو، لیکن اب ایسے لوگوں کو بے نقاب کر کے متعلقہ حکام کے حوالے کیا جائے گا اور ایسا کرنے والے ڈاکٹروں کی روک تھام کی جائے گی۔ مسئلے کو کم کرنے میں بہت تعاون کی ضرورت ہے۔

قانون سے زیادہ مضبوط روایات

تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایسے قوانین نافذ کیے گئے ہیں جو ایف جی ایم / سی کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دیتے ہیں اور اس سلسلے میں اکثر عدالت کا سامنا کرتے ہیں۔

خواتین کے ختنوں کی مجرمانہ کارروائی کا باضابطہ آغاز سنہ 2008 میں ہوا جب مصری عوامی اسمبلی (اب ایوان نمائندگان) نے ایسی خواتین کو بھی تین ماہ سے دو سال تک کے جرمانے اور قید کی سزا دینے کا قانون منظور کیا جو لڑکیوں کے ختنے کروانے میں شامل ہوں۔

یہ اس معاشرتی بیداری کے نتیجے میں ہوا جب بالائی مصر کے مینیا گورنریٹ کے ایک گاؤں میں ’بدور‘ نامی لڑکی کی ایک خاتون ڈاکٹر سے ختنہ کروانے کے بعد موت ہو گئی۔

سنہ 2016 میں اس قانون میں ترمیم کی گئی اور جرمانے میں دوبارہ اضافہ کیا گیا، ڈاکٹروں کے لیے پانچ سے سات سال قید اور ایک لڑکی کی ختنہ کی درخواست کرنے والوں کے لیے ایک سے تین سال کے درمیان سزا رکھی گئی، لیکن طبی جواز اس قانون کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور ختنوں کی اجازت دیتا ہے۔

بیشتر افراد کے مطابق مجوزہ ترامیم زیادہ طاقتور ہوں گی لیکن سماجیات کے پروفیسر امل ردوان کا خیال ہے کہ مصر میں رواج اور روایات قانون سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔

رڈوان نے بی بی سی کو اس بات کی تصدیق کی کہ خواتین کا ختنہ مشرقی معاشروں میں خواتین کے خلاف تشدد کی ایک قسم ہے اور یہ لوگوں کے ذہنوں میں خوبی، عزت اور اچھے اخلاق سے وابستہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’رسم و رواج ایک بڑی چٹان ہے اور ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہے لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔‘

ردوان نے دیہی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ بیداری پھیلانے اور اسلامی مذہب کے ترجمانوں کے ذریعہ ختنے کی درخواست کرنے کے لیے غلط مذہبی معلومات کو پھیلانے والے مجرموں کی نشاندہی کرنے پر زور دیا ہے، عالمی اعدادوشمار یہ ثابت کرتے ہیں کہ ختنہ ایک معاشرتی معاملہ ہے جس کا زیادہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے ممالک سے کوئی تعلق نہیں۔

اگرچہ مصر کی دارالفتح اور الازہر فاؤنڈیشن نے اسلام میں خواتین کے ختنے سے منع کرنے کے اپنے حکم کو واضح کر دیا ہے، لیکن بہت سے افراد اس کے قائل نہیں ہیں۔

مصر

مسئلہ کتنا سنگین ہے؟

مصری وزارت صحت کے ذریعے آخری صحت سروے سنہ 2014 میں ہوا تھا جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 17 سے 49 سال تک کی عمر کے گروپوں میں 92 فیصد لڑکیوں کا ختنہ کیا گیا تھا ، جبکہ 17 سال سے 19 سال کی عمر کے گروپوں میں یہ شرح کم ہو کر 61 فیصد رہی۔ ریاست نے اس کمی کی وجہ بیداری مہموں کو قرار دیا۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) کی سنہ 2015 کی تحقیق کے مطابق، 15 سے 49 سال کی عمر کے درمیان مصری خواتین اور لڑکیوں میں سے تقریباً 87 فیصد کا ختنہ کیا گیا تھا۔

یہ تنظیم اقوام متحدہ کے ساتھ مصر میں بھی کام کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ہر سال فروری میں عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔

چونکہ ایف جی ایم کا وسیع پیمانے پر پھیلاؤ جاری ہے، حکومت نے سول سوسائٹی کی تنظیموں سے تعاون اور بیداری کی بڑی مہموں کے لیے مدد لی ہے۔

نیشنل کونسل فار چلڈوڈ اینڈ مادرھوڈ (ایک سرکاری ایجنسی جو بچوں کے معاملات سے متعلق ہے) میں چلڈرن ہیلپ لائن کے ڈائریکٹر صابری عثمین کا کہنا ہے کہ خاص طور پر ہر نئی آگہی کے بعد مہم کے بعد خواتین کے ختنہ کے بارے میں ان کو زیادہ تر کالز مشورے کے مقصد سے آتی ہیں۔

چائلڈ ہیلپ لائن کے ڈائریکٹر نے بی بی سی کو مزید بتایا کہ لڑکیاں بعض اوقات اپنے والدین کے ختنہ کروانے کے ارادے سے آگاہ کرنے کے لیے خود فون کرتی ہیں، پھر خواتین کی قومی کونسل کسی کو بات کرنے کے لیے بھیجتی ہے اور ان کے والدین کو اس خطرے سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

اور جب چائلڈ ہیلپ لائن کو لڑکیوں کے ختنہ کرنے کے بارے میں کوئی اطلاع موصول ہوتی ہے تو وہ قانونی کارروائی کے لیے مصری پبلک پراسیکیوشن سے رجوع کرتا ہے۔

سنہ 2019 میں مصری حکومت نے خواتین اور بچوں کی قومی کونسل کی شریک صدارت میں ’خواتین کے ختنے کے خاتمے کے لیے قومی کمیٹی‘ تشکیل دی اور اس میں ختنہ سے متعلق وزارتوں کے ممبران، مجاز عدالتی حکام کو شامل کیا۔ اس میں الازہر فاؤنڈیشن ، مصر کے تین گرجا گھر اور سول سوسائٹی کی مشہور تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

مصر

جرم پر پردہ نہ ڈالیں

ایک سے زیادہ مرتبہ مصر میں خواتین کے ختنے کے مشہور واقعات سامنے آنے کے بعد استغاثہ نے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا اور معاملے کو جرائم کے استغاثہ کی طرف بھیج دیا، خاص طور پر ان واقعات میں جن کی وجہ سے لڑکیوں کی موت واقع ہوئی۔

اس کے ساتھ ہی پبلک پراسیکیوشن نے معاشرے کے سپیکٹرم سے ختنہ کے جرائم پر پردہ نہ ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’مجرموں اور متلاشیوں کی اطلاع دیں، تاکہ ہر مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملے۔‘

سنہ 2008 میں ختنے پر سرکاری طور پر جرمانے سے پہلے، دیہی مصر کے بہت سے خاندان اپنی بیٹیوں کے ختنہ کرنے کے فنکشن منعقد کرنے جس میں خیر خواہ افراد شرکت کرتے لیکن قانونی احتساب کے خوف سے یہ سب ختم ہو گیا۔

میرے لیے ایسے مشکل تجربے اور جسمانی اور نفسیاتی نقصان سے گزرنے والی کسی ایسی خاتون کو ڈھونڈنا آسان نہیں تھا جو بات کرنے پر راضی ہوتیں، خاص طور پر جب انٹرویو لینے والا مرد ہوتا۔۔ معاشرتی رسومات کی وجہ سے خواتین کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لہذا میں نے اپنی ایک ساتھی کے سامنے انٹرویو کے سوالات پیش کیے اور اس نے میری طرف سے انٹرویو لیا۔

اس سے کچھ ہی دیر قبل میں نے تین لڑکیوں کی والدہ حنان سے ان کے تجربے کے بارے میں پوچھا تھا، اور وہ بات کرتے ہوئے شرمندہ ہو رہی تھیں۔

حنان نے میرے دو منٹ کے رابطے میں اس مجوزہ قانونی ترمیم کی تعریف کی، اور کہا کہ وہ کبھی بھی اپنی بچیوں کے ختنہ نہیں کرنے دیں گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.