کورونا وائرس: ترقی پذیر ممالک کے ویکسین تیار کرنے میں امیر ممالک ’رکاوٹ‘
بی بی سی کے شو نیوز نائٹ کو موصول ہونے والے دستاویزات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت بڑھانے کے منصوبے برطانیہ سمیت کچھ امیر ممالک کی وجہ سے رکاوٹ کا شکار ہوئے ہیں۔
عالمی وبا کے دوران کئی ترقی پذیر ممالک نے عالمی ادارۂ صحت سے مدد کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن امیر ممالک بین الاقوامی قوانین میں تجدید کو مؤخر کر رہے ہیں جس سے یہ منصوبے رُکے ہوئے ہیں۔
یہ بات عالمی ادارۂ صحت کی قرارداد میں ظاہر ہوئی ہے جس کی کاپی لیک ہوئی تھی۔
ادویات کی دستیابی کے لیے قائم تنظیم جسٹ ٹریٹمنٹ کے ڈیئرمیڈ میکڈونلڈ کہتے ہیں کہ ’(قراردار میں) ایسی زبان استعمال کی جانی چاہیے تھی تاکہ ان ملکوں کی مدد کی جاسکے کہ وہ ویکسین یا ادویات اپنے ملکوں میں بنا سکیں۔ اس طرح ان کی مالی مدد ہوسکتی ہے یا انھیں سہولیات مل سکتی ہیں۔
’برطانیہ اس بحث میں دوسری جانب ہے جو متن سے ایسی کسی ترقی پسند تجویز کو حذف کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
برطانوی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ’عالمی سطح پر حل سے ہی عالمی وبا کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور برطانیہ اس جنگ میں صف اول پر ہے جس میں وہ دنیا بھر میں کووڈ 19 کی ویکسینز اور علاج کی سہولیات پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ترجمان کا کہنا ہے کہ برطانیہ بین الاقوامی کوششوں میں سب سے بڑے ڈونرز میں سے ایک ہے جن میں رواں سال ویکسینز کی ایک ارب خوراکیں ترقی پذیر ممالک تک پہنچائی جا رہی ہیں۔‘
سستی ادویات کی ترسیل میں حکومتوں کو کب اور کیسے مداخلت کرنی چاہیے، یہ ایک پُرانا مسئلہ رہا ہے۔ لیکن عالمی وبا کے دوران یہ بات نمایاں ہوئی ہے کہ مختلف ممالک کس حد تک ویکسینز اور ادویات بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ متاثرین اور اموات کم کرنے کے لیے ویکسین تک برابر رسائی اور عالمی سطح پر تمام لوگوں میں مدافعتی قوت پیدا کرنا بہت اہم ہے۔
ادویات کی پالیسی کی ماہر ایلن ٹی ہوئن کا کہنا ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر ویکسینز کی تیاری کے لیے موجودہ ضرورت کے تحت تین گنا زیادہ صلاحیت درکار ہے۔
’کچھ ویکسینز امیر ممالک میں بنائی جا رہی ہیں اور عام طور پر انھیں ان امیر ملکوں تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔‘
’ترقی پذیر ممالک کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بھی اس میں سے کچھ حصہ درکار ہے۔ یہاں بات صرف ویکسینز کے کچھ حصے کی نہیں بلکہ ان کی تیاری کا حق رکھنے کی بھی ہے۔‘
ویکسین بنانے کے لیے آپ کو ویکسین اس کا اصل مادہ تیار کرنا ہوتا ہے لیکن اس کی تیاری کا حق صرف اس کمپنی کے پاس ہوتا ہے جس کے پاس اس کا پیٹنٹ ہو۔
اس کے ساتھ آپ کو ویکسین تیار کرنے کا علم بھی درکار ہوتا ہے اور اس کے لیے موزوں ٹیکنالوجی ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ سب کافی پیچیدہ ہوسکتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے پاس یہ حق نہیں کہ وہ پیٹنٹ کو ختم کردے لیکن یہ کوشاں ہے کہ کسی طریقے سے ملکوں کو ساتھ ملایا جاسکے تاکہ ویکسین کی زیادہ سے زیادہ سپلائز تیار ہوں۔
اس بحث کا حصہ وہ بین الاقوامی قانون بھی ہے جس کی مدد سے پیٹنٹ کو نظر انداز کر کے بعض ملکوں کو اس کی تیاری کے لیے تکنیکی صلاحیت دی جاسکے۔
لیکن ادویات کی صنعت کا کہنا ہے کہ پیٹنٹ ختم ہونے سے کووڈ 19 یا مستقبل کی بیماریوں کے علاج کے سلسلے میں سرمایہ کاری متاثر ہوگی۔
رواں ماہ کے اوائل میں ادویات کے صنعت کے کچھ نمائندوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کو ایک خط میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔
اس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’ان اصولوں کو ختم کرنے سے عالمی وبا کے خاتمے کے لیے عالمی کوششیں مانند پڑ جائیں گی۔‘ یہاں اسی وائرس کی نئی اقسام کی بھی بات کی گئی تھی۔
نمائندوں نے کہا تھا کہ اس سے اضطراب بڑھے گا جو حفاظتی ویکسین پر عوامی اعتماد میں کمی کا باعث بنے گا اور معلومات کی ترسیل میں رکاوٹ کی شکل میں بن کر ابھرے گا۔
’سب سے اہم بات یہ کہ ان اصولوں کو ختم کرنے سے پیداوار نہیں بڑھے گی۔‘
کئی لوگ اس بات سے متفق بھی ہیں۔ ویکسین کی تیاری کی ماہر این مور کہتی ہیں کہ پیٹنٹ ختم ہونے سے مستقبل کی تحقیق متاثر ہوگی۔
’وقت کے ساتھ بہت کم تنظیمیں اور کمرشل کمپنیاں ویکسین بنانے کے شعبے میں داخل ہو رہی ہیں کیونکہ اس میں بہت کم منافع ہے۔‘
دوا ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے بھی ملکوں کی مالی معاونت کی ہے اور عالمی وبا کے دوران ادویات مفت فراہم کی ہیں۔
لیکن ان کمپنیوں کی مخالفت کرنے والے کہتے ہیں کہ کووڈ 19 کے علاج اور ویکسین بنانے میں قومی خزانوں میں سے 90 ارب پاؤنڈز خرچ ہوئے ہیں، اس لیے اس سے عوام کی ہی بھلائی ہونی چاہیے۔ عالمی وبا ختم ہونے کے بعد اس سے کافی منافع بھی ہوسکتا ہے۔
ایلن ٹی ہوئن کہتی ہیں کہ ’طویل مدتی منصوبے میں عالمی وبا کا مشکل دور ختم ہونے کے بعد ویکسین کی قیمت کافی زیادہ بڑھے گی۔
’اس لیے ترقی پذیر ممالک کہہ رہے ہیں کہ ہمیں خود ویکسین بنانے کی صلاحیت دی جائے۔‘
Comments are closed.