بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

‘اپنے دفاع کے لیے تیار ہیں مگر اشتعال انگیزی کا جواب نہیں دیں گے‘: یوکرین

یوکرین بحران: یقین ہے کہ پوتن نے حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، بائیڈن

President Joe Biden

،تصویر کا ذریعہReuters

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ’آنے والے دنوں‘ میں حملہ ہو سکتا ہے۔

بائیڈن نے کہا کہ وہ یہ بات امریکی انٹیلی جنس کی معلومات کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں، جس کا ماننا ہے کہ دارالحکومت کیئو کو نشانہ بنایا جائے گا۔

روس اس کی تردید کرتا ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ روس یوکرین کے الگ ہونے والے مشرقی علاقوں میں ایک بحران کی صورتحال بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اسے جارحانہ کارروائی شروع کرنے کا جواز مل سکے۔

امریکہ کا اندازہ ہے کہ 169000 سے 190000 روسی اہلکار یوکرین کے اندر اور اس کی سرحد کے قریبی علاقوں میں موجود ہیں، اس تعداد میں مشرقی یوکرین میں ڈونیٹسک اور لوہانسک کی خود ساختہ جمہوریہ میں روسی حمایت یافتہ جنگجو بھی شامل ہیں۔

وائٹ ہاؤس سے ٹیلیویژن خطاب میں صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ کے پاس ’یہ یقین کرنے کی وجہ‘ ہے کہ روسی افواج ’آنے والے ہفتے، آنے والے دنوں میں یوکرین پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی اور ارادہ کر رہی ہیں۔‘

انھوں نے صدر پیوتن کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’اب مجھے یقین ہے کہ انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے‘۔

اس سے قبل امریکی صدر اور اعلیٰ حکام کہہ چکے ہیں کہ یوکرین پر حملے کے بارے میں وہ حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔

تاہم بائیڈن کا کہنا ہے، روس ’اب بھی سفارت کاری کا انتخاب کر سکتا ہے‘ اور یہ کہ ’کشیدگی کم کرنے اور مذاکرات کی میز پر واپس آنے میں اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی‘۔

اس سے قبل جمعے کو بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ایک اور اشارہ تب ملا جب دو علیحدگی پسند علاقوں کے رہنماؤں نے رہائشیوں کے انخلا کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین نے گولہ باری تیز کر دی ہے اور وہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

یوکرین نے بارہا کہا ہے کہ وہ کسی حملے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا ہے، اور وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے اسے’روسی ڈس انفارمیشن رپورٹس‘ کہتے ہوئے مسترد کر دیا۔

Map of eastern Ukraine

اس خطے میں لاکھوں لوگ آباد ہیں اور اس طرح کا انخلا ایک بہت بڑا اقدام ہو گا۔ آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر انخلا کا کوئی اشارہ نہیں ملا تاہم روس کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ مقامی باشندوں کو لے کر کئی بسیں روس کی طرف روانہ ہو چکی ہیں۔

ڈونیسٹک پیپلز ریپبلک کے سربراہ ڈینس پوشیلین نے انخلا کا اعلان جمعے کے روز فلمائی جانے والی ایک ویڈیو میں کیا۔ تاہم بی بی سی کے میٹا ڈیٹا کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ اسے دو دن پہلے ریکارڈ کیا گیا تھا۔

کریملن کے مطابق صدر پوتن نے حکم دیا ہے کہ سرحد کے قریب پناہ گزین کیمپ قائم کیے جائیں اور علیحدگی پسند علاقوں سے آنے والے لوگوں کی ’ہنگامی‘ طور پر مدد کی جائے۔

روس سنہ 2014 سے یوکرین کے مشرقی دونباس علاقے میں مسلح بغاوت کی حمایت کر رہا ہے۔ لڑائی میں تقریباً 14000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بہت سے شہری بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کا کہنا ہے کہ گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران ہونے والے واقعات، روس کی جانب سے ’اشتعال انگریزی پیدا کرنے کی کوششوں‘ کا حصہ ہیں تاکہ ’جارحیت‘ کا جواز پیش کیا جا سکے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے بعد میں انخلا کے اعلان کو ’ماسکو کی چالاکی‘ قرار دیا، جس کا مقصد دنیا کی توجہ اس حقیقت سے ہٹانا ہے کہ روس یوکرین پر حملے کے لیے اپنی افواج تیار کر رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا کہ انخلا اس بات کی ایک مثال ہے کہ ماسکو جنگ کے لیے بہانے کے طور پر غلط معلومات استعمال کر رہا ہے۔

جمعے کی رات، یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس سروس نے کہا کہ اسے اطلاع ملی تھی کہ ڈونیٹسک میں فالس فلیگ آپریشن کے ارادے سے تنصیبات پر دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد یہ تھا کہ مخالف پر حملے کا الزام لگایا جا سکے۔

A car blown up on a parking lot outside a government building in central Donetsk.

،تصویر کا ذریعہTass via Getty Images

اس سے قبل علیحدگی پسند حکام نے کہا تھا کہ ڈونیٹسک میں ایک سرکاری عمارت کے قریب کھڑی جیپ کو دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ امریکی اور یوکرینی حکام کا کہا ہے اس اقدام کا مقصد کشیدگی کو ہوا دینا تھا۔

روس سنہ 2014 سے یوکرین کے مشرقی دونباس علاقے میں مسلح بغاوت کی حمایت کر رہا ہے۔ لڑائی میں تقریباً 14000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بہت سے شہری بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب پوتن نے کہا ہے کہ مشرقی یوکرین میں حالات خراب ہو رہے ہیں۔

ایک نیوز کانفرنس میں انھوں نے ’انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر منظم خلاف ورزیوں‘ اور یوکرین میں ’روسی بولنے والی آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک‘ کے غیر مصدقہ الزامات عائد کیے۔

انھوں نے کہا کہ وہ مغربی رہنماؤں کے ساتھ بحران پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن انھوں نے روس کے سکیورٹی خدشات کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا اور متنبہ کیا کہ کسی بھی معاہدے میں قانونی طور یہ شامل ہونا چاہیے کہ نیٹو سکیورٹی اتحاد اپنی مشرق کی جانب توسیع کو روک دے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.