بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

روس یوکرین تنازعہ اور چین کا مؤقف: اپنی’ دقیانوسی سرد جنگ ذہنیت‘ چھوڑ دیں

روس یوکرین تنازعہ اور چین کا مؤقف: اپنی’ دقیانوسی سرد جنگ ذہنیت‘ چھوڑ دیں

فوجی

،تصویر کا ذریعہYURIY DYACHYSHYN/AFP VIA GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

جنگی مشقوں میں تربیت حاصل کرتا یوکرین کا فوجی

دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد نیٹو کو ’سرد جنگ ذہنیت‘ اور ’نظریاتی تعصبات‘ چھوڑ کر امن اور استحکام کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا ہے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاؤ کا جو یوکرین تنازعے پر امریکی ڈپٹی سیکریٹری خارجہ کے حالیہ بیان پر ردعمل دے رہے تھے۔

واضح رہے کہ امریکی ڈپٹی سیکریٹری خارجہ وینڈی شرمین نے روس کی جانب سے یورپ میں نیٹو کے پھیلاو پر قدغن لگانے کی درخواست کر رد کر دیا تھا۔

ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے تنبیہہ کی ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو وہ روسی صدر ولادمیر پوتن کے خلاف ذاتی پابندیاں لگانے پر غور کریں گے۔

تصادم سے گریز کریں

روس کا الزام ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں کیونکہ روس نے یوکرین کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کی مبینہ منصوبہ بندی کے دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔ تاہم یوکرین کے ساتھ سرحد پر روس نے ایک لاکھ کے قریب فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاؤ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کے جائز سیکیورٹی خدشات پر مکمل غور کریں۔

انھوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دشمنی اور تصادم سے گریز کیا جائے اور باہمی احترام کی بنیاد پر مشاورت کے ذریعے اختلافات اور تنازعات کو مناسب طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

روس جواب دینے پر مجبور ہو جائے گا

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک مضمون میں نامعلوم ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور اس کے حامیوں کی جانب سے لڑائی شروع ہونے کا امکان زیادہ ہے جس کا روس جواب دینے پر مجبور ہو جائے گا۔

اخبار کے انگریزی زبان میں 24 جنوری کو شائع ہونے والے مضمون کے مطابق یہ صورتحال ویسی ہی ہے جیسی 2008 کے بیجنگ اولمپکس کے دوران جارجیا میں تھی۔

مضمون میں ایک ماہر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘آنے والے دنوں میں اس بات کا امکان نہیں ہے کہ روس اشتعال انگیز کارروائی کرے گا۔ روس نے بیجنگ سرمائی اولمپک کھیلوں کے دوران اقوام متحدہ کی جانب سے اختیار کیے گئے امن معاہدے کو قبول کر لیا ہے جبکہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے کچھ ممالک نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔’

اخبار کے سابق ایڈیٹر انچیف ہو جیجن 8 نے ٹوئٹر پر اس بات کا ذکر کیا ہے کہ یوکرین پر حملہ نہ کرنے کے اعلان کے بارے میں روس کا موقف ‘تبدیل نہیں ہوا۔’

ہو جیجن نے روس کو بطور جارح پیش کرنے کی مغربی کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے روس ایک ‘تحفظ کرنے والا ملک یا ‘ڈیفینڈر’ رہا ہے۔

ہو نے 24 جنوری کو ایک ویڈیو میں انتباہ کیا کہ ’مغربی ممالک کو روس پر اتنا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کہ وہ اپنے تحفظ میں حملہ کرنے پر مجبور ہو جائے۔’

گلوبل ٹائمز نے 24 جنوری کو چین کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ اس بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں بلومبرگ کی رپورٹ کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

پیوتن

،تصویر کا ذریعہMikhail Svetlov

،تصویر کا کیپشن

’یوکرین پر حملہ نہ کرنے کے اعلان کے بارے میں روس کا موقف ‘تبدیل نہیں ہوا’

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوتن سے کہا ہے کہ وہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کے دوران یوکرین پرحملہ نہ کریں۔

اخبار نے نامعلوم تجزیہ کاروں کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ مغربی طاقتیں یوکرین کے بحران کے بارے میں گمراہ کن معلومات کو استعمال کرتے ہوئے چین اور روس کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

یوکرین کے بارے میں امریکہ اور یورپی یونین متفق نہیں ہیں

چین کے سرکاری اداروں نے اپنی خبروں کے ذریعے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں اور نیٹو کے رکن ممالک کے درمیان مختلف آراء کو اجاگر کیا ہے۔

24 جنوری کو گلوبل ٹائمز کے چینی زبان کے ایڈیشن میں ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کے باوجود امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان ‘اپنی سٹریٹجک ضروریات کے حوالے سے بنیادی اختلافات ہیں۔’

اس مضمون میں یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے برائے خارجہ اور سلامتی امور، جوزف بوریل کے ایک انتباہ کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں انھوں نے امریکہ اور روس کے نئے یالٹا معاہدے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ بوریل نے اس معاہدے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا کہ یورپی یونین کے مستقبل کا فیصلہ دونوں طاقتیں اکیلے کریں گی۔

فوجی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

روس اور یوکرین دونوں کی سرحد پر فوجیوں کی تعیناتی بڑھ گئی ہے۔

اس مضمون میں یورپ کے لیے اپنی سٹریٹجک آزادی کے فروغ کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے اور اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ آیا امریکہ اسے ایسا کرنے کی اجازت دے گا۔

مضمون میں کہا گیا ہے کہ ‘اگرچہ امریکہ نازک لمحات میں یورپ کو خود مختار ہونے کی اجازت دیتا ہے، تب بھی یورپ کو امریکہ کی عالمی حکمت عملی میں ہمیشہ ایک پیادہ ہی تصور کیا جائے گا۔’

انگریزی زبان کے نشریاتی ادارے چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک (سی جی ٹی این) نے بھی اپنی رپورٹ میں نیٹو کی اندرونی لڑائی کو اجاگر کیا ہے۔ سی جی ٹی این نے روس کے ساتھ یورپی یونین کے علیحدہ مذاکرات کے لیے فرانس کی اپیل کا معاملہ اٹھایا جو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے ‘مشترکہ ردعمل’ کے برعکس ہے۔

سی جی ٹی این نے جرمنی اور امریکہ کی انتظامیہ کے درمیان اختلافات کو بھی اجاگر کیا جس کی وجہ سے وال سٹریٹ جرنل کے مبصر نے یہ سوال کیا کہ کیا جرمنی امریکہ کا قابل اعتماد اتحادی ہے۔

سی جی ٹی این نے یہ بھی کہا کہ کچھ عرصے سے مغربی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی بڑھ رہی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ‘مغرب کے اتحادیوں کے درمیان یہ دراڑ یوکرین کے بحران کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اس بحران نے ان کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑوں کو اور واضح کر دیا ہے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.