نیوی سیلنگ کلب گرانے اور سابق نیول چیف ظفر محمود عباسی کے خلاف فوجداری کارروائی کا عدالتی فیصلہ چیلنج کردیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کی۔
سابق نیول چیف ایڈمرل (ر) ظفر محمود عباسی کی جانب سے اشتر اوصاف ایڈووکیٹ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
انٹرا کورٹ اپیل میں نیوی سیلنگ کلب گرانے اور سابق نیول چیف کےخلاف کارروائی کا فیصلہ کالعدم کرنے استدعا کی گئی۔
اپیل میں استدعا کی گئی کہ سنگل بینچ کا 7 جنوری کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ جس درخواست پر فیصلہ سنایا گیا وہ قابل سماعت ہی نہیں تھی۔
اپیل کنندہ نے عدالت کے روبرو مزید کہا کہ عدالت نے درخواست گزار کو وہ ریلیف دیا جو اُس نے پٹیشن میں مانگا ہی نہیں تھا، اپیل کنندہ کے خلاف پٹیشن میں فوجداری کارروائی کی استدعا ہی نہیں کی گئی تھی۔
اپیل کنندہ کا کہنا تھا کہ 45 سال پاکستان نیوی میں افسر رہا اور 2017 تا 2020ء تک نیوی کو کمانڈ بھی کیا۔
اشتر اوصاف نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ سابق نیول چیف نے غیر قانونی عمارت کا افتتاح کیا اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔
انٹرا کورٹ اپیل میں کہا گیا کہ وزیراعطم نے 23 اگست 1991ء کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس کے تحت نیول چیف کو پاکستان بھر میں واٹر اسپورٹس کا پیٹرن انچیف بنایا گیا۔
اشتر اوصاف نے مزید کہا کہ نیول فارمز والی زمین خریدی گئی تھی، استدعا ہے کہ پرسوں تک سی ڈی اے عدالتی فیصلے پر ایکشن نہ لے۔
اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسا کیا کہ آپ کو لگتا ہے کہ ظفر محمود عباسی کو گرفتار کرلیا جائے؟
عدالت نے مزید کہا کہ نیول فارمز کے لیے زمین کس نے خریدی اور زمین خریدنے کا مقصد کیا تھا؟ درخواست گزار کے وکیل کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ متعلقہ ریکارڈ پیش کریں۔
اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہر چیز سرکار کی ہوتی ہے جس کا استعمال متعلقہ ڈپارٹمنٹ کرتا ہے، عدالتوں کی متعلقہ منسٹری وزارت قانون ہے، وہی عدالتوں کے لیے بلڈنگ لیتے ہیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ آرمڈ فورسز کی متعلقہ منسٹری وزارت دفاع بنتی ہے، نیول فارمز کے لیے زمین کس نے خریدی؟ اور انتقال کس کے نام ہوا؟ نیول فارمز کی زمین خریدنے کا مقصد کیا تھا؟
عدالت نے کارروائی کے دوران کہا گیا کہ سنگل بینچ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سیکریٹری کابینہ عدالتی فیصلے کی کاپی کابینہ کے سامنے رکھیں، پوچھ کر بتائیں عدالتی حکم پر عمل درآمد کیا گیا یا نہیں؟
عدالت نے معاملے کی سماعت 19 جنوری بروز بدھ تک کے لیے ملتوی کردی۔
Comments are closed.