کلائمیٹ چینج: 2021 میں شدید قدرتی آفات سے ہونے والا مالی نقصان
- میک گرا
- اینوائرنمنٹ کورسپانڈنٹ
اگست میں آسٹریا میں شدید سیلاب کے نتیجے میں ملبہ بہہ کر ٹرین سٹیشن میں آ گیا تھا
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سنہ 2021 میں کلائمیٹ چینج یعنی آب ہوا میں تبدیلی کے نتیجے میں رونما ہونے والے موسمی واقعات (سیلاب اور طوفان) دنیا بھر میں لاکھوں افراد کے لیے تباہی لائے۔
کرسچیئن ایڈ نامی فلاحی ادارے کی شائع کردہ تحقیق میں ایسے 10 شدید واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے نتیجے میں ہر ایک واقعے میں 1.5 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔
مالی اعتبار سے سب سے زیادہ نقصان ہریکین آئڈا سے ہوا جو اگست میں امریکہ میں آیا تھا اور اس کے بعد جولائی میں یورپ میں آنے والے سیلاب نے سب سے زیادہ ملی نقصان کیا۔
بہت سے غریب خطوں میں آنے والے سیلابوں اور طوفانوں کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد بے گھر ہوئی اور انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ہر موسمی واقعہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پیش نہیں آتا، اگرچہ سائنسدان اب دونوں کے درمیان ربط ڈھونڈنے میں زیادہ دلیری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ایک سرکردہ محقق، ڈاکٹر فریڈرِک اوٹو، نے اس سال کے شروع میں اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ اب دنیا میں آنے والی گرمی کی ہر لہر انسانی سرگرمیوں سے پیدا کردہ کلائمیٹ چینج کے سبب ’زیادہ متواتر اور زیادہ شدید‘ ہو گئی ہے۔
جہاں تک طوفانوں اور ہریکین کی بات ہے تو اس کے بارے میں ایسے شواہد میں اضافہ ہو رہا ہے جن سے پتا چلتا ہے کہ کلائمیٹ چینج ان واقعات پر اثر انداز ہوتی ہے۔
مزید پڑھیے:
اگست میں انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) نے چھٹی اسسمنٹ رپورٹ کا پہلا حصہ شائع کیا تھا۔
اس رپورٹ میں سائنسدانوں نے کہا تھا کہ ہریکین اور ٹروپیکل سائکلون کے بارے میں وہ ’زیادہ اعتماد‘ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں انسانی عمل دخل کے شواہد ٹھوس ہو گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’شدید ٹروپیکل سائکلونوں کا تناسب، اوسط بلند سائکلون میں ہوا کی رفتار اور شدید سائکلونوں میں ہوا کی رفتار دنیا بھر میں عالمی حدت میں اضافے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔‘
اس رپورٹ کی اشاعت کے چند ہفتے بعد ہی امریکہ میں ہریکین آئڈا آ گیا۔
نیو جرسی میں ہریکین آئڈا کے نتیجے میں آنے والا سیلاب
کرسچیئن ایڈ کے مطابق یہ مالی اعتبار سے اس سال آنے والا سب سے زیادہ نقصاندہ سمندری طوفان تھا۔
اس کی وجہ سے ریاست لوئزیانا کے ہزاروں شہریوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر اس کے راستے سے پرے ہٹنا پڑا۔
اس طوفان کی وجہ سے کئی ریاستوں اور شہروں کے اندر شدید بارشیں ہوئیں، یہاں تک کہ نیو یارک کو پہلی مرتبہ اچانک سیلاب کی ایمرجنسی وارننگ جاری کرنا پڑی۔
اس کی وجہ 95 افراد ہلاک اور 65 بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔
مالی لحاظ سے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ نقصاندہ جولائی میں جرمنی، فرانس اور دوسرے یورپی ممالک کے اندر آنے والے سیلاب تھے۔
حفاظتی پشتے سیلابی ریلوں کی شدت اور رفتار کا مقابلہ نہ کر سکے اور 240 افراد ہلاک ہوگئے اور مالی نقصان کا تخمینہ 43 ارب ڈالر لگایا گیا۔
مذکورہ تحقیق میں شامل فہرست کے مطابق ان موسمی واقعات کی اکثریت ترقی یافتہ ملکوں میں وقوع پذیر ہوئی۔
اگست میں آسٹریا میں شدید سیلاب کے نتیجے میں ملبہ بہہ کر ٹرین سٹیشن میں آ گیا تھا
ایسا اس لیے ہے کہ مالی نقصان کا اندازہ انشورنس کلیم سے لگانا آسان ہے اور زیادہ تر انشورنس امیر ملکوں میں ہی دستیاب ہے جہاں لوگ اپنے گھروں اور بزنس کا بیمہ کروانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
انشورنس کمپنی اےآن کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں 2021 چوتھا سال ہوگا جس کے دوران دنیا بھر میں قدرتی آفات کی وجہ سے مجموعی طور پر 100 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔
رپورٹ میں بعض دوسرے ایسے واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں جن سے پہنچنے والے مالی نقصان کا اندازہ لگانا دشوار ہے، تاہم لوگ بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔
ساؤتھ سوڈان میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے 8 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے، جبکہ مئی میں انڈیا، سری لنکا اور مالدیپ میں آنے والے ’سائکلون تؤتے‘ کی وجہ سے 2 لاکھ سے زیادہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا پڑا۔
کرسچیئن ایڈ سے وابستہ اور رپورٹ کے مصنف ڈاکٹر کیٹ کریمر کا کہنا ہے کہ ’یہ انسانوں پر پڑنے والا بہت بڑا اثر ہے۔
’ظاہر ہے کہ گھر اور روزگار سے محرومی اور ایسی بے سر و سامانی کہ دوبارہ گھر بنانے کے لیے آپ کے پاس کچھ بھی نہ ہو انتہائی بے بسی کی بات ہے۔ جبکہ اگر آپ نے بیمہ کروایا ہو تو آپ پھر سے گھر بنانے کا کچھ سامان کر سکیں گے۔‘
رپورٹ میں ایسے اقدامات پر زور دیا گیا ہے جن سے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں کمی لائی جا سکے تاکہ مستقبل میں آنے والے قدرتی آفات کے اثر کو کم کیا جا سکے۔ اس میں کلائمیٹ سے متعلق عالمی حکام سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غریب ملکوں میں آنے والی قدرتی آفات سے ہونے والے مالی نقصان کے ازالے کے لیے اقدامات کریں۔
گلاسگو میں منعقدہ سی او پی 26 مذاکرات کے دوران کلائمیٹ سے متعلق واقعات کی وجہ سے ہونے والے مالی نقصان کے مسئلہ پر ملکوں کے درمیان زبردست اختلافات سامنے آئے تھے۔ غریب ملک نقد رقم کا مطالبہ کر رہے تھے، جبکہ امیر ملک اس مسئلہ پر مزید باتچیت چاہتے تھے۔
ساؤتھ سوڈان میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے
بنگلہ دیش میں کرسچیئن ایڈ کی جسٹس ایڈوائزر نُشرت چودھری کہتی ہیں،’یہ اچھی بات ہے کہ سی او پی 26 کے دوران بربادی اور مالی نقصان کا مسئلہ ایک بڑے موضوع کے طور پر ابھر کر سامنے آیا، مگر اس بارے میں کلائمیٹ چینج کی وجہ سے مستقل بنیادوں پر متاثر ہونے والے افراد کی مالی مدد کے لیے کسی فنڈ کا قائم نہ ہونا نہایت مایوس کن ہے۔
’ایسے فنڈ کا قیام 2022 میں عالمی ترجیح ہونا چاہیے۔‘
Comments are closed.