برطانیہ میں استعمال شدہ کرسمس ٹری سے بجلی پیدا کرنے کا اعلان
کرسمس ٹری کو گھروں کے اندر اور باہر خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے
برطانیہ میں برمنگھم سٹی کونسل (بلدیہ برمنگھم) نے کرسمس ٹریز کو استعمال کے بعد ٹھکانے لگانے کے لیے مفت سروس اور ان سے بجلی پیدا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ خدمت کرسمس کے دوسرے روز سے جنوری کے آخر تک فراہم کی جائے گی۔
مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس طرح اکٹھے کیے جانے والے درختوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے انھیں بایوماس (زندہ اجسام سے حاصل کردہ ایندھن) میں بدل دیا جائے گا اور پھر اس سے بجلی پیدا کی جائے گی۔
برطانیہ میں کرسمس کے لیے خاص طور سے درختوں کی کاشت کی جاتی ہے اور برٹش کرسمس ٹری گرؤر ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں ہر سال 8 سے 10 ملین درخت فروخت کیے جاتے ہیں۔
کرسمس درختوں کی اتنی بڑی تعداد کے سامنے برمنگھم کونسل کی یہ کاوش چھوٹی نظر آتی ہے۔
مگر کونسلر جان اوشیا کہتے ہیں کہ ’ہمیں خوشی ہے کہ ہم کرسمس کے بعد بے کار درختوں کو ذمہ داری سے ٹھکانے لگانے کے لیے مفت سروس مہیا کر رہے ہیں۔‘
کرسمس ٹری کو ٹھکانے لگانے کے لیے مختلف مقامات مقرر کیے گئے ہیں
کرسمس ٹری کی روایت
لیکن چیڑ یا صنوبر کے درخت کو گھروں میں لا کر انھیں سجانے کی روایت کب اور کہاں سے شروع ہوئی؟
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ برطانیہ میں اس کی روایت ملکہ وکٹوریا کے زمانے (1837 سے 1901) میں پڑی۔
ملکہ وکٹوریا اور ان کے شوہر پرنس البرٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کرسمس کے بڑے مداح تھے مگر دراصل یہ روایت اس سے کہیں زیادہ قدیم ہے۔
برطانیہ میں یہ رواج شاہ جارج سوئم کے دور میں جرمنی سے آیا۔
ملکہ وکٹوریا کے شوہر پرنس البرٹ جرمنی میں پیدا ہوئے تھے
شاہ جارج کی ایک جرمن بیوی تھیں جن کا نام شارلوٹ تھا، جو 1790 کی دہائی میں اپنے کنبے کے لیے کرسمس ٹری سجاتی تھیں۔
تاہم ملکہ وکٹوریا اور پرنس البرٹ نے اس رواج کو نہایت مقبول بنا دیا اور یہ ہی سبب ہے کہ بہت لوگ یہ سمجھنے لگے کہ برطانیہ کے اندر یہ روایت انھوں نے شروع کی تھی۔
پہلے پہل لوگ صنوبر کے چھوٹے چھوٹے پودے کاٹ کر میزوں پر رکھ کر سجا لیا کرتے تھے مگر جب ناروے سے صنوبر کے بڑے بڑے درختوں کو کاٹ کر برطانیہ لانا ممکن ہو گیا تو پھر وہ قدرے بڑے درخت لا کر گھر کے فرش پر سجانے لگے اور ان کے نیچے کرسمس کے تحائف بھی جمع کرنے لگے۔
کرسمس ٹری کے لیے صنوبر یا چیڑ کے درخت کا انتخاب کیا جاتا ہے
اس مقصد کے لیے صنوبر کے درخت استعمال کرنے کا سبب یہ ہے کہ یہ سدا بہار یعنی سارا سال ہرے بھرے رہتے ہیں اور کٹنے کے بعد بھی ان کی سوئی نما پتیاں بہت عرصے تک ہری رہتی ہیں۔
ناروے سے کرسمس ٹری لانے کا آغاز سنہ 1947 میں اس وقت ہوا جب ناروے نے دوسری جنگ عظیم میں مدد کرنے پر برطانیہ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ایک درخت تحفے میں بھیجا۔ یہ درخت مرکزی لندن کے ٹرفالگر سکوائر میں رکھا گیا تھا۔
اس کے بعد سے ہر سال ناورے کے ایک جنگل میں نومبر کے مہینے میں کرسمس کے لیے ایک درخت کاٹنے کی ایک خصوصی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ پھر اس درخت کو سمندری راستے سے برطانیہ اور پھر ٹرک میں لندن لایا جاتا ہے۔
برطانیہ میں کرسمس ٹری کو سجانے کی روایت جرمی سے آئی
کرسمس تحائف
کرسمس کے موقع پر ایک اور روایت ایک دوسرے کو اور خصوصاً بچوں کو تحائف دینے کی بھی ہے۔
مگر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ محض تحفہ برائے تحفہ عقلمندی کی بات نہیں کیونکہ اس طرح لوگوں کے پاس بہت سے ایسے تحائف جمع ہو جاتے ہیں جو ان کے کسی کام کے نہیں ہوتے اور دینے والے کی رقم بھی ضائع ہو جاتی ہے۔
بہت سے لوگ ان تحائف کو بلاوجہ گھر میں جمع کرنے یا کوڑے میں پھینکنے کی بجائے فلاحی تنظیموں کو عطیہ کر دیتے ہیں تاکہ ضرورت مند ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔
یہ بھی پڑھیے
ایسی ہی ایک تنظیم برسٹل ویسٹ کا کہنا ہے کہ کرسمس کے موقع پر فالتو تحائف کے کُوڑے میں 20 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس تنظیم نے اس طرح کے فاضل تحائف کو جمع کرنے اور پھر سستے داموں فروخت کرنے کے لیے ایک نئی دکان کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ برسٹل ویسٹ پہلے ہی اس طرح کی دو دکانیں چلا رہی ہے۔
ان ہی میں سے ایک دکان پر بطور رضاکار کام کرنے والی باربرا بلومفیلڈ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے تمام تحائف اسی دکان سے نہایت سستے داموں خریدے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہر کرسمس پر ہم لاکھوں پاؤنڈ ایسے تحائف پر برباد کر دیتے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ میں جانتی ہوں کہ بعض لوگ اپنے بچوں کو نئی چیزیں دینا چاہتے ہیں مگر آپ لوگوں کے لیے خود سے کچھ بنائیں تو لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کرسمس ٹری کے لیے وہ جنگل سے کاٹے گئے درخت کی بجائے ایک گملے میں لگا درخت دس سال سے استعمال کر رہی ہیں اور اس سے انھیں کافی بچت بھی ہوئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کو چاہیے کہ کرسمس مناتے وقت ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور اسراف سے بچیں۔
Comments are closed.