کیا دنیا کا سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک انڈونیشیا بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے؟
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنک نے رواں ماہ انڈونیشیا کا دورہ کیا
یہ بات منظرِ عام پر آ گئی ہے کہ گذشتہ ہفتے انڈونیشیا کے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے اپنے میزبان انڈونیشیا سے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرے۔
انڈونیشیا کی وزارت خارجہ نے خبر رساں ادارے ایشیا نکی اخبار کو تصدیق کی ہے کہ یہ معاملہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اٹھایا گیا تھا۔
انڈونیشیا دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہے اور فلسطین کی حمایت کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ اس کے کوئی سرکاری سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔
انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان تیکو فیضاسیہ نے ایشیا نکی کو بتایا کہ بلنکن اور انڈونیشیا کے وزیر خارجہ ریٹنو مرسودی کے درمیان اس معاملے پر بات چیت ہوئی۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینتھونی بلنکن اور انڈونیشیا کے وزیر خارجہ ریٹنو مرسودی
اینتھونی بلنکن کی اس کوشش کی خبر کو سب سے پہلے کچھ امریکی نیوز ویب سائٹس نے شائع کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ٹرمپ دور کے ‘ابراہم ایکارڈز‘ کو وسعت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
وہ مشرق وسطیٰ سے باہر بڑے ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔
صدر ٹرمپ کے دور صدارت میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، بحرین اور امریکہ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا، جس میں امن کی بحالی اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کو ‘ابراہیم ایکارڈز’ کہا جاتا ہے۔
انڈونیشیا نے کیا جواب دیا؟
انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان تیکو فیضاسیہ نے ملاقات کے بارے میں کہا کہ ان کے وزیر خارجہ مرسودی نے امریکی وزیر خارجہ کو دو ٹوک جواب دیا ہے۔
تیکو فیضاسیہ نے کہا کہ مرسودی نے ‘فلسطین اور اس کے لوگوں کی انصاف اور آزادی کی لڑائی کے بارے میں انڈونیشیا کے مضبوط موقف کو دہرایا۔ فلسطین کے معاملے پر اسرائیل کے حوالے سے ہماری پالیسی تبدیل نہیں ہو گی۔‘
امریکی نیوز ویب سائٹس کا کہنا ہے کہ امریکی اور اسرائیلی حکام نے حالیہ مہینوں میں ابراہم اہکارڈز کو وسعت دینے پر بات چیت کی ہے اور اس بحث کے دوران انڈونیشیا کا نام سامنے آیا۔
رپورٹس میں سینئر امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ ابراہم معاہدے کو وسعت دینے کے لیے ‘خاموشی سے لیکن تیزی سے‘ کام کر رہی ہے تاہم اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ‘ہم چیزوں کو معمول پر لانے کے لیے اضافی مواقعوں کی تلاش میں ہیں، لیکن ہم مناسب وقت آنے تک اس بحث کو بند دروازوں کے پیچھے رکھیں گے۔‘
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے مبینہ طور پر انڈونیشیا اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی۔
یو ایس انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشن کے سی ای او ایڈم بولر نے گذشتہ سال دسمبر میں بلومبرگ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر انڈونیشیا اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرتا ہے تو امریکہ انڈونیشیا میں مزید سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔
انڈونیشیا کے لوگ فلسطین کے بارے میں پرجوش ہیں؟
مئی میں انڈونیشیا میں بہت سے لوگ فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے
انڈونیشیا میں فلسطین کا معاملہ ایک جذباتی موضوع ہے۔ مئی میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کے دوران انڈونیشیا میں بہت سے لوگ فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
انڈونیشیا کے وزیر دفاع پراباوو سوبیانتو کو رواں برس نومبر میں بحرین میں مناما ڈائیلاگ کانفرنس کے دوران اسرائیلی سفارت کار کے ساتھ تصویر میں دیکھا گیا تھا جس کے بعد ان کے ترجمان کو وضاحت جاری کرنی پڑی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر دفاع مسئلہ فلسطین کے لیے پرعزم ہیں۔ تاہم، اسرائیلی نیوز ویب سائٹ والا نے کہا ہے کہ اسی کانفرنس کے دوران اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر ایال ہلتا نے انڈونیشیا کے وزیر دفاع کے ساتھ ایک مختصر ملاقات کی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے بزنس کارڈ بھی دیے تھے۔
‘دی ٹائمز آف اسرائیل’ اخبار امریکی حکام کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس سال کی ابتدا میں اسرائیل اور متعدد مسلم ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں کامیاب ہو گئی تھی لیکن انتظامیہ کی مدت کے ختم ہو جانے کی وجہ سے وہ دیگر کئی ممالک کے ساتھ ایسا نہیں کر سکی۔
انڈونیشیا کے وزیر دفاع پراباو سوبیانتو بحرین میں اسرائیلی سفارت کار کے ساتھ
حکام کے مطابق ان ممالک میں انڈونیشیا اور افریقی ملک موریطانیہ شامل تھے اور اگر ٹرمپ اگلے ایک سے دو ماہ تک اپنے عہدے پر رہتے تو انڈونیشیا کے ساتھ ڈیل ہو سکتی تھی۔
انڈونیشیا کی آبادی 270 ملین ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ یہ معاہدہ کرتی تو یہ اس کی بڑی فتح ہوتی۔
تاہم ان قیاس آرائیوں کو انڈونیشیا کے صدر نے خود ہی روک دیا اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے کہا کہ ان کا ملک اس وقت تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لائے گا جب تک فلسطینی اتھارٹی ایک ریاست نہیں بن جاتی۔
یہ بھی پڑھیے
ابراہم معاہدے اور امریکہ
نیتن یاہو، ٹرمپ، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے ستمبر 2020 میں واشنگٹن میں ابراہم معاہدے پر دستخط کیے تھے
ٹرمپ انتظامیہ نے خلیجی ممالک پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ اور اس کے نتائج بھی سامنے آئے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔ اس کے بعد سوڈان اور مراکش نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوڈان اور مراکش بھی مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔
ایسا ہی دباؤ سعودی عرب پر بھی تھا۔ لیکن سعودی عرب نے ایسا نہیں کیا اور کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک رسمی تعلقات قائم نہیں کرے گا جب تک فلسطین 1967 کی سرحد کے تحت ایک آزاد ملک نہیں بن جاتا۔
سعودی عرب کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بنایا جائے۔
ترکی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر متحدہ عرب امارات اور بحرین کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ یہ اس وقت ہے جب ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔
ترکی اور اسرائیل کے درمیان 1949 سے سفارتی تعلقات ہیں۔ ترکی پہلا مسلم اکثریتی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔
اگر انڈونیشیا جیسا دنیا کا سب سے بڑا مسلم اکثریتی ملک اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کر لیتا تو ایک طرح سے یہ اسرائیل کی بڑی فتح ہوتی۔
Comments are closed.