california hookup bar asian girls hookup sites like craigslist hookup hotshot mature hookup bbw com

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

برطانیہ میں ایک شادی سے 24 گھنٹے کے اندر افغانستان میں امداد کے لیے پہنچنا

برطانیہ میں ایک شادی سے 24 گھنٹے کے اندر افغانستان میں امداد کے لیے پہنچنا

لوسی اپنی یونٹ میں واحد خاتون تھیں

،تصویر کا ذریعہBRITISH ARMY

،تصویر کا کیپشن

لوسی اپنی یونٹ میں واحد خاتون تھیں

لوسی چیٹن رواں سال موسم گرما میں برطانیہ میں ایک دوست کی شادی میں تھیں جب انھیں ایک ٹیکسٹ پیغام موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اگلے دن فلائٹ پر جانے کی تیاری کریں۔ 24 گھنٹے سے بھی کم وقت کے بعد 24 سالہ لانس کارپورل کابل میں تھیں اور طالبان کی آمد کی وجہ سے کابل سے راہ فرار اختیار کرنے والے ہزاروں لوگوں کی مدد کر رہی تھیں۔

طالبان نے 20 سالہ امریکی موجودگی کے بعد بین الاقوامی افواج کے ملک سے انخلا شروع کرتے ہی تیزی کے ساتھ فوری طور پر افغانستان کا کنٹرول واپس لے لیا تھا۔

اس سے ہوائی اڈوں پر افراتفری پھیل گئی کیوں کہ لوگوں نے بڑی تعداد میں باہر نکلنے کی کوشش کرنی شروع کردی، اور لوسی ان 750 برطانوی فوجیوں میں سے ایک تھیں جنھیں اگست میں ملک میں مدد کے لیے بھیجا گیا تھا۔

وہ فوج میں پانچ سال سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انھوں نے اس بلاوے کو ‘پرجوش لیکن اعصاب شکن’ قرار دیا۔

یہ پہلی بار تھا کہ وہ اور پیراشوٹ رجمنٹ کے بہت سے دوسرے لوگوں کو بیرون ملک آپریشن پر تعینات کیا گیا تھا۔

انھوں نے ریڈیو 1 نیوز بیٹ کو بتایا کہ ‘شادی ایک دوسرے فوجی کی تھی اس لیے ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اگلے دن بیس پر واپس آنے کے لیے ٹیکسٹ پیغام ملا – لیکن خوش قسمتی سے اس میں دولھا شامل نہیں تھا۔’

ڈھائی ہفتوں کے دوران برطانوی فوجی افغانستان میں رہے اور اس دوران تقریبا 15000 افراد کو وہاں سے نکال لیا گیا جن میں دو ہزار سے زائد بچے بھی شامل تھے۔

اس کے بعد سے بھوک، غذائی قلت اور افغانستان میں رہ جانے والی خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کے بارے میں بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تشویش پائی جاتی ہے۔

افغانستان

،تصویر کا ذریعہBRITISH ARMY

،تصویر کا کیپشن

برطانیہ سے 750 فوجی بھیجے گئے تھے

‘میں نے خواتین کو پرسکون رہنے میں مدد کی’

لوسی اپنی یونٹ میں تعینات ہونے والی واحد خاتون تھیں اس لیے لوگوں کی پراسیسنگ کرنے اور تلاشی لینے میں ان کا کردار واقعی اہم تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ثقافتی طور پر مردوں کو عورتوں کو تلاش کرنے یا چھونے کی اجازت نہیں تھی، لہذا یہ میرے کام کا ایک بڑا حصہ تھا۔

‘میرے خیال سے خواتین کے لیے ایک اور خاتون کے چہرے کو دیکھنا بڑے فرق کا موجب تھا۔۔۔ اس سے انھیں پرسکون کرنے میں مدد ملی ہوگی۔’

وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ ان کے اہل خانہ ان کے بارے میں فکر مند تھے لیکن ان کے دوست سب سے زیادہ فکر مند تھے۔

‘ہم لڑکیوں کے دوستوں کا ایک بڑا گروپ ہے اور جب میں نے انھیں یہ کہنے کے لیے واٹس ایپ کیا کہ میں جا رہی ہوں، تو وہ یقین نہیں کر سکے کہ یہ سب اتنی جلدی کیونکر ہو رہا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

یہ پرائیویٹ لیون سٹرانگ کا بھی بیرون ملک آپریشن پر کام کرنے کا پہلا موقع تھا۔

اس 21 سالہ نوجوان کا بنیادی طور پر تلاشی اور ہجوم کو پرسکون رکھنے میں مدد کرنے کا کام تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس آپریشن نے پیرا شوٹ رجمنٹ کو بہت مختلف پہلو دکھایا۔

انھوں نے کہا: ‘آپ عام طور پر پارس کو لڑائی میں لڑنے کے بارے میں دیکھتے ہیں، لیکن یہ ایک انسانی بحران کے لیے کام کرنا تھا۔’

‘اسی لیے ہم نے سائن اپ کیا’

لوسی کی طرح لیون کو بھی اس وقت بلاوا آيا جب وہ گرمیوں کی چھٹیوں پر تھے۔

وہ کہتے ہیں: ‘یہ اتوار کی شب تھی اور میں دوبارہ سونے کی کوشش کر رہا تھا لیکن میرا فون بند ہو رہا تھا۔’

جب لیون نے اپنے فون پر نظر ڈالی تو وہ اس قدر پرجوش ہو گئے کہ وہ صبح 5 بجے ہی واپس اڈے پہنچ گئے۔

اب واپس ان حالت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ چند ہفتے مشکل تھے لیکن اس میں شامل ہونے پر وہ ‘بے حد فخر’ محسوس کرتے ہیں۔

سارجنٹ روب تین بار افغانستان جا چکے ہیں

،تصویر کا ذریعہBRITISH ARMY

،تصویر کا کیپشن

سارجنٹ روب تین بار افغانستان جا چکے ہیں

‘اسے والد کی آنکھوں سے دیکھنا’

سارجنٹ روب رینولڈز 15 سال سے فوج میں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ موسم گرما افغانستان میں ان کا تیسرا دورہ تھا۔ لیکن یہ ان کے لیے پچھلے دوروں سے بہت مختلف تجربہ تھا۔

انھوں نے کہا کہ ‘ہم نوٹس ملنے کے 10 گھنٹے کے اندر جانے کے لیے تیار تھے- آپ کو عام طور پر کم از کم 24 ملتے ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘جس لمحے ہم نکلے ہم بہت تیز رفتار تھے، بہت کم آرام کے باوجود اس طرح کام کرنا۔ میں لڑکوں کے عزم سے بہت متاثر ہوا۔

‘ہم نے تمام مختلف قومیت کے تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو پراسیس کیا اور ہمارے پاس جو وقت تھا اس میں یہ ایک حیرت انگیز کامیابی تھی۔’

تاہم، روب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کچھ لوگ لامحالہ پیچھے رہ گئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر ہمارے پاس زیادہ وقت ہوتا تو ہم اور بھی کر سکتے تھے۔’

طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے چار ماہ بعد بھی صورتحال غیر مستحکم ہے، اس بارے میں شدید خدشات ہیں کہ سردیوں میں کتنے لوگ زندہ بچیں گے۔

بتایا جا رہا ہے کہ اب بھی کچھ لوگ ملک سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

برطانوی مسلح افواج کی اب وہاں موجودگی نہیں ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کا واپسی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

روب کا کہنا ہے کہ جب وہ ستمبر میں انخلا سے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو عین اس وقت ان کی بیوی نے اپنے چوتھے بچے کو جنم دیا۔

‘ایک باپ کے طور پر میں افغان قوم کی جدوجہد کو سمجھ سکتا ہوں جو اپنے بچوں کی حفاظت اور انھیں محفوظ مقام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

‘اگر انھیں کل ہمیں واپس جانے کی ضرورت ہوتی تو ہم واپس جانے کے لیے تیار ہیں۔ ہم ہیں اور ضرورت پڑنے پر کسی بھی چیز کے لیے تیار ہیں۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.