بحیرہ جنوبی چین میں امریکی آبدوز کسی نامعلوم شے سے ٹکرا گئی
امریکی آبدوز ‘کنیکٹیکٹ’ کی ایک بندرگاہ سے روانہ ہوتے ہوئے سنہ 2018 کی ایک تصویر۔
امریکی حکام نے کہا ہے کہ امریکہ کی ایک جوہری آبدوز اُس وقت کسی نامعلوم شے سے ٹکرا گئی جب وہ بحرالکاہل کے ایشیائی حصے میں میں زیرِ آب سفر کر رہی تھی۔
سنیچر تک حکام یہ نہ جان سکے تھے کہ آبدوز سے کیا شے ٹکرائی تھی۔ تاہم انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ آبدوز معمول کی صلاحیت کے مطابق مکمل طور پر کام کر رہی ہے۔
امریکی حکومت کے ذرائع جن کے نام نہیں ظاہر کیے گئے انھوں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ یہ ٹکراؤں بحیرہِ جنوبی چین کے بین الاقوامی پانیوں میں پیش آیا ہے۔ انہی حکام کے مطابق اس حادثے میں امریکی نیوی کے 11 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
یہ واقعہ ایسے حالات میں پیش آیا ہے جب امریکہ اور چین کے درمیان اس خطّے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
امریکی بحریہ کے مطابق فی الحال اس آبدوز کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگایا جا رہا ہے تاہم اس کو چلانے والے جوہری پلانٹ اور اُس جگہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
تاہم امریکی بحریہ کے اس بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ واقعہ بحیرہ جنوبی چین میں کس جگہ پیش آیا ہے۔ زخمی ہونے والوں کے زخموں کے بارے میں بھی صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ یہ ‘جان لیوا’ نوعیت کے نہیں ہیں۔
لیکن امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے دو افسران کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ 11 اہلکار جو زخمی ہوئے ہیں ان میں سے دو کو ایسے زخم لگے ہیں جنہیں ‘درمیانی’ نوعیت کا کہہ کر بیان کیا گیا ہے۔ ان سب کا علاج اسی آبدوز میں ہی کیا گیا۔
ان عہدیداروں نے بتایا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب یہ آبدوز معمول کی کارروائیوں میں مصروف تھی اور یہ کہ امریکی بحریہ نے ان کارروائیوں کے تحفظ کے لیے جمعرات تک اس خبر کو افشا نہیں کیا تھا۔
اے پی کے مطابق ان حکام نے کہا کہ جس شے سے امریکی آبدوز یو ایس ایس کنیکٹیکٹ ٹکرائی وہ کوئی اور آبدوز نہیں تھی۔ ایجنسی نے ان میں سے ایک افسر کے حوالے سے بتایا کہ یہ ایک کوئی پہلے سے ڈوبا ہوا جہاز یا کنٹینر، یا کوئی اور نامعلوم شے ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سنگاپور سے تعلق رکھنے والے دفاعی اور سیکورٹی کے ماہر الیگزینڈر نیل نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تصادم کے نتیجے میں ہونے والے زخمیوں کی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ آبدوز شاید ’کسی بڑی شے سے ٹکرائی‘ ہو اور یہ ’واقعی تیز رفتار سے سفر کر رہی تھی۔‘
اُنھوں نے کہا کہ یہ واقعہ ‘غیر معمولی ضرور تھا لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے نہ ہوا ہو’ اور اس واقعے نے اس حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ اس علاقے میں کتنی زیادہ فوجی نوعیت کی سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔
نیل نے کہا کہ ‘بحیرہ جنوبی چین میں مختلف ممالک کی بحریہ کے کئی جہاز موجود ہیں۔ اگرچہ سمندر کی سطح پر بحری جہازوں کے ذریعہ بہت زیادہ طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، تاہم آپ کو سمندر کی سطح کے نیچے کی سرگرمیاں نظر نہیں آتی ہیں۔’
چین کے سرکاری روزنامے گلوبل ٹائمز کی رپورٹ کے ایک تبصرے میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ چین اس واقعے کے بارے میں ‘شدید تشویش’ کا شکار ہے۔ اُنھوں نے امریکہ سے مشن کے مقصد سمیت مزید تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
بعد میں بتایا گیا کہ آبدوز امریکی علاقے گوام کی طرف روانہ ہو چکی ہے۔
امریکہ بحریہ کی خبروں میں مہارت رکھنے والی سائٹ یو ایس این آئی نیوز نے کہا کہ آخری معلوم واقعہ جہاں ایک زیر آب امریکی آبدوز کسی اور زیر آب شے سے ٹکرائی ہو، سنہ 2005 میں پیش آیا تھا جب تیز رفتاری سے سفر کرتی ہوئی ایک امریکی آبدوز یو ایس ایس سان فرانسسکو گوام کے قریب ایک زیرِ آب پہاڑ سے ٹکرائی تھی۔ اس واقعے میں امریکی بحریہ کا ایک اہلکار ہلاک ہوا تھا۔
بدلتی دنیا میں کیا چین سپر پاور بننا چاہے گا
بحیرہ جنوبی چین اتنا متنازعہ کیوں ہے؟
امریکی آبدوز یو ایس ایس کنیکٹیکٹ اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ متنازعہ علاقوں میں سرگرم ہے۔ چین اس سمندر کے اکثریتی حصے پر کنٹرول کا دعویٰ کرتا ہے لیکن امریکہ اور اس خطے کے دیگر ممالک چینی دعوے سے اتفاق نہیں کرتے۔
فلپائن، برونائی، ملائیشیا، تائیوان اور ویت نام سبھی کئی دہائیوں سے تقریباً تمام بحیرہ جنوبی چین پر کنٹرول کے چین کے دعوے سے اختلاف کر رہے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان اختلافات پر کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
اس علاقائی تنازعے میں امریکہ چین کے مخالف بہت سے ممالک کی پشت پناہی کرتا ہے۔
یہ واقعہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے ایشیا پیسیفک میں ایک تاریخی سکیورٹی معاہدے ’آکس‘ کے چند ہفتوں کے بعد پیش آیا ہے جسے چین کا مقابلہ کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
دریں اثنا امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تائیوان اور چین کے درمیان کے سمندری حصے آبنائے تائیوان میں امن کو نقصان پہنچانے والے اقدامات پر ‘شدید تشویش’ رکھتے ہیں۔
وہ تائیوان کے ایئر ڈیفنس زون میں چین کی جانب سے ریکارڈ تعداد میں فوجی طیارے بھیجے جانے کے چار روز بعد اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بات کر رہے تھے۔
Comments are closed.