صحارا کے مخصوص ’نیلے‘ روایتی لباس جن کی اہمیت بدلتے دور کے باوجود قائم و دائم ہے
- جوان مارٹینز
- بی بی سی ٹریول
صحارا درا، یا بوبو کے نام سے معروف ایک لمبا اور کھلا چغہ ہوتا ہے اور چہرہ ڈھانپنے والے ایک نقاب ’ٹیگلمسٹ‘ کے ساتھ یہ صحارا کے علاقے میں رہنے والے خانہ بدوش مردوں کا روایتی لباس سمجھا جاتا ہے۔
’سخت حالات کا لباس‘
شمالی افریقہ کے اس لباس کی شروعات کے اشارے کئی سو سال قبل، ساتویں اور آٹھویں صدی میں ملتے ہیں جب صحارا کے خطے میں شمالی افریقہ اور صحارا کے علاقوں میں تجارت کا آغاز ہوا تھا۔
چند مقامی افراد کہتے ہیں کہ یہ لباس شرمیلے پن اور لوگوں کی سادگی کی نشانی ہے، اکثریت اس بات پر متفق ہیں کہ اس لباس کا سب سے اہم کام سورج سے اور اس خطے میں کثرت سے آنے والے ریت کے طوفان سے تحفظ دینا ہے۔
ماریطنیا کے ایک مقامی گائیڈ ذاہد جدیدو کہتے ہیں کہ ‘درا کا سٹائل ایسا ہے کہ وہ نہ صرف ان مشکل ماحول میں بھی ہوا کے بہاؤ کو جاری رکھتا ہے بلکہ صحارا کے مردوں کو جسم میں نمی کو محفوظ رکھنے میں مدد دیتا ہے جب وہ صحرا کے بیچ میں ہوتے ہیں
موریطانیہ کے ایک مقامی گائیڈ داہد جدیدو کہتے ہیں کہ ’درا کا سٹائل ایسا ہے کہ وہ نہ صرف ان مشکل ماحول میں بھی ہوا کے بہاؤ کو جاری رکھتا ہے بلکہ صحارا کے مردوں کو جسم میں نمی کو محفوظ رکھنے میں مدد دیتا ہے جب وہ صحرا کے بیچ میں ہوتے ہیں۔‘
آج جب لوگوں کی اکثریت شہروں میں منتقل ہو رہی ہے اور ملبوسات کا رحجان مغربی طرز کے کپڑوں کی جانب بڑھتا جا رہا ہے، صحارا کے مرد جو لباس زیب تن کرتے تھے اُسے اب ایک گزرے ہوئے وقت کی نشانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جسے پہن کر وہ صحرا عبور کرتے تھے۔
لیکن موریطانیہ ایک ایسا ملک بن کر ابھرا ہے جہاں ابھی بھی مردوں کی اکثریت انتہائی دلکش نیلے رنگ کے درا اور نقاب پہنتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہاں اس لباس کی روایات نہ صرف زندہ ہیں بلکہ آنے والے وقتوں میں بھی یہ جاری رہے گی۔
وہ فیشن جس کی وجہ تجارت بنا
صدیوں قبل صحارا کے علاقوں میں تجارت کے دوران اس صحرا کے اطراف میں نئے تجارتی مراکز کا آغاز ہو رہا تھا جہاں مختلف نسلی گروپ شمالی افریقہ میں ملنے والی مختلف اشیا جیسے مسالہ جات، معدنیات، کپڑے وغیرہ کی تجارت کیا کرتے تھے۔
صدیوں پر محیط اس تجارت کے دوران کئی تجارتی گروپ موریطانیہ پہنچے جن میں شمال مشرق سے ٹواریگ، جنوب مشرق سے ہراتین، اور جنوب سے حالپولار گروپ۔
موریطانیہ کی مقامی آبادی جو بربر تھی، وہاں پر تیسری صدی سے رہائش پذیر تھی اور باہر سے نقل مکانی کر کے آنے والے گروہوں نے ان کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ ان تمام لوگوں کی موجودگی میں وہاں پر اسلام پھیلنا شروع ہوا اور عرب زبان کا استعمال عام ہو گیا اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں پر نئی ثقافتی روایات قائم ہونا شروع ہوئیں۔
عمارتوں کے ڈیزائن میں بھی تبدیلیاں ہونا شروع ہوئیں، صحارا کے پاس علاقوں میں لکھی گئی کتابیں مقامی کتب خانے میں رکھی جانے لگیں اور شمالی افریقہ میں فیشن کے نت نئے انداز مقامی روایت کے ساتھ مل گئے اور ایک نیا فیشن ابھر کر سامنے آیا جس میں ایک کھلا سا چغہ سب سے زیادہ معروف ہوا۔
صحارا میں مختلف روایات کا مرکز
مختلف ممالک میں لمبے اور کھلے انداز کے لباس جیسے جاپان میں کیمونو یا میسوپوٹمیا کے کافتان کی طرز پر درا نے بھی فیشن کی تاریخ میں اپنا ایک مقام بنا لیا۔
اس چغے کی سب سے پہلی شکل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حالپولار گروپ کی جانب سے متعارف کرائی گئی تھی جو کہ دریائے سینیگال (جدید سینیگال اور موریطانیہ) کے نزدیک رہائش پذیر تھے۔
گو کہ معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد درا پہنتے لیکن اس لباس کا رنگ ان کے سماجی رتبے کے مطابق ہوتا۔
امیر تاجر سفید رنگ کے درا اور ٹیگلمسٹ زیب تن کرتے کیونکہ گندا ہونے کی صورت میں وہ اسے دھلوا سکتے تھے۔
جبکہ وہ افراد جو غلام تھے، عام طور پر سیاہ رنگ کا لباس پہنتے کیونکہ انھیں بار بار وہی پہننا ہوتا تھا اور ان کے پاس اسے دھلوانے کی اہلیت نہیں تھی۔
لیکن اس علاقے میں کپڑوں کو رنگنے کے اجزا میں کمی کے باعث اس زمانے میں موجود درا کالے یا سفید ہوتے تھے لیکن جب حالپولار کے تاجروں نے رنگوں کی تجارت شروع کی اور مقامی طور پر رنگ بنانے کا کام شروع کیا تو اس کے بعد سے درا مختلف رنگوں میں دستیاب ہونا شروع ہوا۔
گہرے نیلے رنگ کے یہ درا ان افراد کے لیے بالکل مناسب تھے جو سفید رنگ کے درا خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے لیکن ساتھ ساتھ وہ سیاہ رنگ کا لباس پہننا نہیں چاہتے تھے۔
صحارا کے ’نیلے انسان‘
یہ کہنا درست ہے کہ حالپولار نے نیلے رنگ کے چغے کو متعارف کرایا لیکن ان کو مقبولیت بخشنے کا سہرا ٹواریگ گروپ کے لوگوں کو جاتا ہے جنھوں نے اس فیشن کو مشہور کیا اور اسی کے باعث ’صحارا کے نیلے انسان‘ کے طور پر مشہور ہوئے۔
یہ نام دینے کی وجہ یہ تھی کہ شدید گرمی اور تپتے سورج کے نیچے کام کرنے کے باعث ان کے لباس ان کے جسم سے ایسے چپک جاتے جیسے ان کی جلد کا ہی حصہ ہوں۔
آسٹریا کی یونیورسٹی آف ویانا سے منسلک ڈاکٹر آنجا فشر کہتی ہیں کہ ٹواریگ گروپ کے لوگ حالپولار گروہ سے متاثر ہوئے تھے۔
’ٹواریگ پہلے چمڑے سے بنے لباس پہنا کرتے تھے لیکن پھر بعد میں کسی وقت انھوں نے وہ چھوڑ کر نیلے رنگ کے کپڑے کو اپنا لیا جو آج مشہور ہے۔‘
ٹواریگ گروہ بربر نسل سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے منسلک لوگ شمالی افریقہ کے ایک وسیع حصے میں رہائش پذیر ہیں جو کہ الجیریا سے لے کر لیبیا، نائجر، مالی اور برکینا فاسو میں پائے جاتے ہیں اور وہ صحارا میں خانہ بدوشوں کی سب سے بڑی آبادی میں سے ایک ہیں اور افریقہ میں اسلام پھیلانے میں ان کا بہت اہم کردار رہا ہے۔
یہ گروہ صحارا کے خطے بھر میں مشہور تھا اور اسی وجہ سے موریطانیہ میں ان کا اپنایا ہوا فیشن پورے شمالی افریقہ میں مشہور ہوا اور اس کے بعد دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر لی۔ ان کا فیشن خانہ بدشوں کی ثقافت اور روایات کی عکاسی کرتا ہے۔
’نیلے‘ رنگ کا ایک نیا معیار
حالیہ دہائیوں میں جب ایشیا اور یورپ سے کیمیکل رنگ آنا شروع ہوا اور اس کے علاوہ کم لاگت پر رنگ کرنے کی تکنیک مقبول ہونا شروع ہوئی تو نیلے رنگ کے مختلف شیڈز بنانا ممکن ہوا جیسے گہرا نیلا رنگ، آسمانی نیلا وغیرہ۔
اس کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے موریطانیہ میں متوسط طبقے میں اضافہ ہوتا گیا، وہاں کے رہائشیوں نے ہلکے نیلے رنگ کے درا ملبوس کرنا شروع کیا اور اس کی بھی وہی وجہ تھی جو ماضی میں سفید درا پہننے والوں کی تھی: معاشرے میں اونچے طبقے سے تعلق ہونا۔
داہد جدیدو نے بتایا کہ ’ہلکا نیلے رنگ کا درا سفید درا جیسا ہی لگتا ہے لیکن اس کی ہر تین سے چار روز میں صفائی کرنا ہوتی تھی۔‘
نیلے رنگ میں رنگی دنیا
موریطانیہ کے دارالحکومت ناؤکچوٹ کے مرکزی بازار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ صرف نیلے رنگ کی ایک دنیا ہے۔
وہاں موجود دکاندار صرف نیلے رنگ کے ملبوسات فروخت کرتے ہیں اور ہر چار میں سے کم از کم ایک شخص نیلے رنگ کا درا پہنا نظر آیا۔
لیکن موریطانیہ میں تو نیلا رنگ صرف لباس میں ہی نہیں بلکہ لحاف، چھتریوں، دراوزے، چھت اور باڑوں پر نظر آتا ہے۔
مسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن میں نیلے رنگ کو آسمان اور الوہیت کی نشاندہی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن موریطانیہ کے افراد کے لیے اس کا استعمال ایک عملی وجوہ پر ہے: یہ رنگ انھیں سورج کی تپش سے محفوظ رکھنے کے لیے سب سے کارآمد ہے۔
مسحور کن اور دلکش لباس
سب سے پہلے متعارف کرائے جانے والے درے ریشم کے بنائے ہوئے تھے لیکن اس کپڑے کو بعد میں اسلام میں حرام قرار دیا گیا تھا۔
آج ناؤکچوٹ کے بازاروں میں مختلف اجزا سے بنے چغے بہت عام ہیں جیسے پولیسٹر، اون، وغیرہ جبکہ غیر مسلموں کے لیے ریشم سے بنے چغے بھی دستیاب ہیں۔
موریطانیہ میں بنے ہوئے ان دروں پر سونے کا بھی کام کیا جاتا ہے اور سفید رنگ کی کڑھائی بھی کی جاتی ہے جبکہ کچھ پر سامنے اور اندر جیب بھی ڈالی جاتی ہے۔ قدیم چغوں میں ایسا نہیں ہوتا تھا لیکن آج کل کے عملی زمانے میں یہ بہت کارآمد ہیں۔
موریطانیہ میں مغربی لباس کو متعارف کرانے کی کئی کوششیں ہوئی ہیں لیکن وہ ناکام رہی ہیں۔
زؤرات کے قصبے سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی گائیڈ ہادمنے احمدو کا کہنا ہے کہ اساتذہ کو حکم دیا گیا کہ وہ پڑھاتے ہوئے درہ نہ پہنیں اور اس کے بجائے امریکی یا یورپی انداز کی قمیض پتلون پہنیں۔
لیکن موریطانیہ کے شہریوں کے لیے یہ ناقابل قبول تھا اور انھوں نے اپنے روایتی لباس کو پہننا نہیں چھوڑا اور اپنی ثقافتی روایات سے جڑے رہے۔
اپنی خانہ بدوش ثقافت پر فخر
صحارا خطے کے کئی بڑے شہروں میں درا والے چغے پہننے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے یا کہیں کہیں ختم ہوتا جا رہا ہے، ناؤکچوٹ میں ابھی بھی مرد اس نیلے چغے کو بہت فخر سے زیب تن کرتے ہیں۔
یہ لباس موریطانیہ کی ثقافت کا اتنا اہم عنصر بن چکا ہے کہ کاروباری شخصیات بھی اپنے لباس کے اوپر خاص طور پر بنائے گئے درے کو پہنتے ہیں۔
داہد جدیدوہ نے مسکراتے ہوئے بتایا: ’یہ آرام دہ ہے، اس کو صاف کرنا آسان ہے اور یہ بہت اچھا دکھتا ہے۔‘
آنے والی نسلوں کے لیے نیا رجحان
یہ حقیقت ہے کہ اب صحارا کے قریب ممالک فیشن کے لیے مغرب کی جانب دیکھتے ہیں لیکن موریطانیہ میں ابھی بھی ایسا نہیں۔ حتیٰ کے نئی نسل بھی اپنے ثقافتی ورثے کی اہمیت سمجھتی ہے اور اس کی قدر کرتی ہے اور باقاعدگی سے درا پہننا پسند کرتی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس لباس کو جدید فیشن کی دنیا میں بھی دیکھا گیا ہے۔ صحارا کے علاقے میں پہننے والے ٹیگلمسٹ نقاب کے طرز پر یورپ میں سکارف پیش کیے گئے۔ اسی طرح معروف اطالوی فیشن ہاؤس ویلنٹینو نے اپنے ملبوسات کی موسم بہار اور موسم گرما کے نئے ملبوسات میں اسی درا سے ملتے جلتے لباس پیش کیے۔
جہاں ایک جانب ثقافتی روایات کی بقا اس جدید دور میں خطرے میں پڑتی جا رہی ہے، نیلے رنگ کے یہ چغے اور ٹیگلمسٹ نقاب کی روایات ابھی بھی قائم و دائم ہیں۔
Comments are closed.