بچوں کو کورونا وائرس سے بچانے کے لیے ویکسین لگوانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں اب تک 211 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں اٹھارہ سے پانچ سال تک عمر کے 177 بچے شامل ہیں جبکہ ایک سال سے لے کر پانچ سال تک کی عمر کے 34 بچے اس وبا کے نتیجے میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار پاکستان کے معروف ماہرین امراض اطفال نے بدھ کے روز کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جس کا انعقاد پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کی جانب سے کیا گیا تھا جس سے ایسوسی ایشن کے نومنتخب صدر پروفیسر جمال رضا، موجودہ صدر پروفیسر جلال اکبر اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر خالد شفیع نے خطاب کیا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر جمال رضا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ بچوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے جن میں سے تقریباً 211 بچے اس مرض کی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر جاں بحق ہو چکے ہیں، اگرچہ بچوں میں ہلاکتوں کی شرح بہت کم ہے لیکن اس مرض میں مبتلا بچے اس وائرس کو اپنے والدین اور نانا نانی، دادا دادی سمیت خاندان کے دیگر افراد میں پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔
حکومت پاکستان سے ملک میں بارہ سال کی عمر سے بڑے تمام بچوں کی ویکسینیشن کا مطالبہ کرتے ہوئے پروفیسر جمال رضا کا کہنا تھا کہ والدین کو یہ بات بتانا چاہتے ہیں کہ کورونا ویکسین بچوں کے لیے انتہائی محفوظ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت فائزر کمپنی کی میسنجر آر این اے ویکسین بچوں کو لگائی جائے گی جو کہ دنیا کے کئی ممالک میں استعمال ہو چکی ہے اور ڈیٹا سے ثابت ہوا ہے کہ یہ انتہائی محفوظ ویکسین ہے۔
والدین کی رضامندی حاصل کرنے کے حوالے سے فارم کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ کی جانب سے جاری کیا جانے والا فارم والدین میں مزید کنفیوژن یا الجھاؤ پھیلانے کا باعث بنا، کسی بھی طرح کی ویکسین لگوانے کے لیے والدین کی اجازت لینا ضروری ہے اور والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بلاجھجک اپنے بچوں کو کورونا کی ویکسین لگانے کی اجازت دیں تاکہ ملک میں تعلیمی عمل کا دوبارہ آغاز کیا جا سکے۔
ان کا اس موقع پر مزید کہنا تھا کہ حکومت کو طبی عملے کے ایسے افراد کو کورونا ویکسین کا تیسرا یا بوسٹر ڈوز لگانا چاہیے جن کا واسطہ بچوں اور مریضوں سے مسلسل رہتا ہے۔
ڈاکٹر جمال رضا نے کہا کہ جو والدین بچوں کی ویکسینیشن کے لیے اجازت نہیں دے رہے ہیں ان کی کونسلنگ کی جائے۔
والدین کو سمجھانا چاہیے لیکن کسی بھی قسم کی زبردستی نہیں کی جانی چاہیے، بچوں کی ویکسینیشن کے لیے ریاست خود بھی ابہام پیدا نہ کرے۔
ڈاکٹر خالد شفیع، سیکرٹری جنرل پی پی اے کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کورونا کے 12 لاکھ 12 ہزار 796 کیسز رپورٹ ہوئے، بچوں کے کیسز پاکستان میں کم رپورٹ ہوئے ہیں، 18 سال سے کم عمر 86 ہزار 693 بچوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی، 18 سال سے کم عمر 177 بچے کورونا سے جاں بحق ہوئے، بچوں میں کورونا کی کوئی علامت نہیں ہوتی مگر بچے اپنے گھر میں کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بن جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس سے تعلیمی ادارے بند ہیں اور تعلیم کی بحالی کے لیےحکومت کا 15 سال سے زائد عمر کے بچوں کو ویکسین لگانے کا فیصلہ لائق تحسین ہے مگر حکومت کو بارہ سال اور اس سے اوپر کے تمام بچوں کی ویکسینیشن جلد از جلد شروع کر دینی چاہیے۔
پروفیسر جلال اکبر جو کہ پی پی اے کے موجودہ صدر ہیں، ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی ویکسین کا فیصلہ قابل تحسین ہے، دنیا بھر میں 12 سال سے زائد عمر کے بچوں کی ویکسین کا سلسلہ جاری ہے، والدین اپنے بچوں کو بلا جھجھک ویکسین لگوائیں۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی ویکسینیشن کے لیے اجازت نامے کے حوالے سے والدین کو پریشانی ہے۔ 15 سال سے زائد عمر کے بچوں کو فائزر ویکسین لگوائی جارہی ہے۔ والدین اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے ویکسین لگوائیں، ویکسینیشن کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈا کو ہمیں ناکام بنانا ہے۔
Comments are closed.