rich women looking for younger men singles to meet best pinay dating sites super handsome boy toledo dating

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یورپ کا پُراسرار آتش فشاں جو زیر آب ہونے کے باوجود خوف کی علامت ہے

مارسیلی: اٹلی میں یورپ کا پُراسرار آتش فشاں جو زیر آب ہونے کے باوجود خطرے کی علامت ہے

  • الیکسیا فرینکو اور ڈیوڈ رابسن
  • بی بی سی فیوچر کے لیے

یورپ کا پُراسرار آتش فشاں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جب ہم اٹلی کے کسی آتش فشاں کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں سسلی کے قریب واقع ماؤنٹ ایٹنا یا نیپلز کے ماؤنٹ ویسوویوس آتا ہے جس نے پومپئی شہر کو تباہ کر دیا تھا۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ دونوں آتش فشاں جنوبی جزیروں اور علاقوں پر سب سے زیادہ تباہی مچا سکتے ہیں۔

لیکن ان دونوں کے علاوہ ایک تیسرا آتش فشاں بھی ہے جو کہ فعال ہے۔ اس کا نام ماؤنٹ مارسیلی ہے اور یہ نیپلز کے جنوب میں تقریباً 175 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی اونچائی تین ہزار میٹر ہے اور اس کی چوڑائی نیچے سے اوپر تک 70 کلو میٹر سے 30 کلو میٹر تک وسیع ہے۔ مارسیلی پورے یورپ میں سب سے بڑا ایکٹو والکینو یعنی فعال آتش فشاں ہے۔

اور تعجب کی بات یہ ہے کہ آپ اسے دیکھ نہیں سکتے۔ اس کی چوٹی بحیرہ تیرانی میں 500 میٹر نیچے دبی ہوئی ہے۔

سائنسدانوں کو ایک صدی سے مارسیلی کی موجودگی کا علم ہے۔ مگر گذشتہ صدی کے دوران انھیں اس سے درپیش خطرات کا علم ہوا ہے اور ان کی تحقیق سے ملنے والے شواہد واقعی تشویش ناک ہیں۔

حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اس آتش فشاں سے ممکنہ طور پر ایک بہت بڑا سونامی آسکتا ہے جس کی 30 میٹر اونچی لہریں کلابریا اور سسلی کے ساحلوں سے ٹکرا سکتی ہیں۔

جزیروں کے نیچے آتش فشاں میں شگاف سے یہ گیسیں زمین کی پرت سے اوپر کی طرف اٹھتی ہیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جزیروں کے نیچے آتش فشاں میں شگاف سے یہ گیسیں زمین کی پرت سے اوپر کی طرف اٹھتی ہیں

زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ آنے والی ممکنہ تباہی کے بارے میں شاید ہی کوئی تنبیہ کی علامت سامنے آئے گی۔ اسی لیے سائنسدان بحیرہ روم کا جائزہ لینے کے لیے ایک نئی ٹیکنالوجی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

قدیم تباہی

سائز کے اعتبار سے مارسیلی کا موازنہ ٹامو ماسف سے نہیں ہوسکتا جو 4460 میٹر اونچا ہے اور شمال مغربی بحر اوقیانوس کے نیچے واقع ہے۔ شاید اس میں متعدد پیچیدہ آتش فشاں شامل ہیں۔

ٹامو ماسف معدوم ہوچکا ہے مگر مارسیلی اب بھی حرکت میں ہے۔ یہ یوریشیا اور افریقی ٹیکٹانک پلیٹ کی سرحد پر واقع ہے اور اس کی حرکت سے ارضیاتی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔

سسلی کے جنوبی ساحل اور جنوبی اٹلی کے مشرقی ساحل پر یہ ان کئی آتش فشاؤں میں سے ایک ہے۔ ان میں سے کچھ جزیروں کی شکل میں آ گئے ہیں جن میں آئیولین جزیرے شامل ہیں۔

آتش فشاں کو انگریزی میں والکینو کہتے ہیں اور یہ نام یونانی آگ کے خدا کے نام سے لیا گیا ہے۔ نظر آنے والے اس ہر جزیرے کے نیچے قریب 10 آتش فشاں زیر آب ہوتے ہیں۔

اٹلی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف جیو فزکس اور والکینولوجی کے ماہر گیڈو ونچورا کے مطابق مارسیلی کا جنم 10 لاکھ سال قبل ہوا تھا۔ ایک صدی میں اس کے 80 لاوا اگلنے والے بالائی نوکدار حصے بنے جو شمال سے مشرق اور جنوب سے مغرب کی طرف پھیلے۔ اس میں اور بھی ایسے کئی شگاف موجود تھے جہاں سے لاوا نکل سکتا تھا۔

آئیولین جزیروں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سسلی کے قریب آئیولین جزیروں نے آتش فشانوں کی بڑی تعداد سے جنم لیا

یہ ممکنہ ‘ٹائم بم’ زیر سمندر چھپا رہا اور اسے جنوبی اٹلی کے قریب صرف 100 سال قبل دریافت کیا گیا۔ ونچورا کہتے ہیں کہ ’20ویں صدی کے اوائل میں لوگوں نے سمندری حوض نقشوں میں درج کرنا شروع کیے۔’

اس کی وجوہات فوج کی جانب سے آبدوزوں کا بڑھتا استعمال اور دنیا کے نئے بین الاقوامی مواصلاتی نظام تھے جن کے لیے زیر آب ٹیلی گراف کی کیبل گزری۔

ان کوششوں کے نتیجے میں نقشہ نگاروں نے سنہ 1920 کی دہائی میں اس آتش فشاں کو دریافت کیا۔ اسے محقق لیویگی مارسیلی کا نام دیا گیا جو اسی شعبے سے منسلک تھے۔

مارسیلی کی دریافت اتنی پُرانی نہیں اور ان پر سائنسی تحقیق حال ہی میں ہوئی ہے جن کے تفصیلی نتائج سنہ 2000 کی دہائی میں آئے۔ ان تحقیقات کے مطابق آخری بار مارسیلی ایک ہزار سال قبل پھٹا تھا۔

ونچورا کے مطابق آج تک اس کی سرگرمیوں سے مدھم حرکت ہوتی ہے، گیسیں خارج ہوتی ہیں اور کم شدت کے زلزلے آتے ہیں۔

مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مستقبل میں بھی یہ خاموش رہے گا۔ مارسیلی بس کچھ دیر کے لیے آرام کر رہا ہے۔ اگر یہ دوبارہ پھٹا تو لاوا اور دھماکے سے پیدا ہونی والی راکھ 500 میٹر کے اندر اندر سمندر کے پانی میں جذب ہوجائیں گے۔ اس کے امکانات بہت کم ہیں کہ لاوا زمین یا مقامی آبادیوں کو نقصان پہنچا سکے گا۔

آتش فشاں کو انگریزی میں والکینو کہتے ہیں اور یہ نام یونانی آگ کے خدا سے لیا گیا تھا

،تصویر کا ذریعہAlamy

،تصویر کا کیپشن

آتش فشاں کو انگریزی میں والکینو کہتے ہیں اور یہ نام یونانی آگ کے خدا سے لیا گیا تھا

ونچورا کہتے ہیں کہ ‘خطرہ آتش فشاں کے پھٹنے سے نہیں بلکہ ممکنہ زیر آب لینڈ سلائیڈنگ سے ہے۔’

اگر اس دوران یا دھماکے سے زمین کی پرتوں میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور اس کا بڑا حصہ پانی میں گِر جاتا ہے تو اس سے سونامی آسکتا ہے۔

نیپلز کی تباہی

ہمیں معلوم ہے کہ آئیولین جزیروں پر آتش فشاں کے پھٹنے سے زیر زمین لینڈ سلائیڈنگ سے ماضی میں کئی سانحے ہوئے ہیں۔

مثلاً سنہ 1343 میں شاعر پٹرارچ نے نیپلز میں ایک خوفناک سمندری طوفان کا ذکر کیا تھا جس سے سینکڑوں اموات ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیے

نیو یارک کی سٹیٹ یونیورسٹی میں سارا لیوی اور ان کے ساتھیوں کی حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اس کی وجہ ایک سونامی ہوسکتا ہے جس نے سسلی کے قریب سٹرومبولی جزیرے سے جنم لیا۔

آثار قدیمہ سے آتش فشاں کے ملنے والے شواہد سے ان کی ٹیم کو معلوم ہوا کہ یہاں لینڈ سلائیڈنگ ہوئی تھی جس سے سونامی آیا اور یہ کلابریا کے ساحل تک پہنچ گیا تھا۔

سنہ 2002 میں سٹرومبولی پر آتش فشاں کے پھٹنے سے دو سونامی آئے تھے اور اس کی لہروں سے جزیرے کو خود بھی نقصان پہنچا تھا۔ تاہم یہ زمین پر نہیں پہنچا تھا اور اس واقعے میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔

مارسیلی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مارسیلی کی لینڈ سلائیڈ سے سونامی آنے کا خطرہ ہے

بدقسمتی سے اس وقت ہم مارسیلی کے خطرے کا حساب نہیں لگا سکتے۔ یورنیورسٹی آف بلونیا میں فزکس کے پروفیسر گلوکو گلوٹی نے کہا ہے کہ ‘ہمارے پاس ابھی اتنا ڈیٹا نہیں۔ لیکن اس کی کافی وجوہات ہیں کہ یہ خطرے کا باعث ضرور ہے۔’

زمین کے نیچے گرم پانی کی حرکت نے آتش فشاں کے پتھر کو کمزور کر دیا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ چھوٹے پیمانے کے زلزلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آتش فشاں کے اندر لاوا بننے کا عمل جاری ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ہمیں مزید تحقیق کی ضرورت ہے جس سے ممکنہ خطرے کا پتا چل سکے۔

رواں سال شائع ہونے والی تحقیق میں گلوٹی کی ٹیم نے پانچ مختلف ممکنہ نتائج کا جائزہ لیا ہے۔ ان میں ممکنہ لینڈ سلائیڈنگ کے اثرات کو دیکھا گیا ہے۔ ابتدائی کیسز میں پانی کی حرکت محدود تھی۔ ان سے کچھ سینٹی میٹر اونچائی کی ہی لہریں پیدا ہوئیں۔

تاہم شمال مغرب کی جانب لینڈ سلائیڈنگ سے زیادہ نقصان کا خطرہ ہے۔ اس سے جنوبی کمپانیا کی طرف تین سے چار میٹر بلند لہریں پہنچیں اور دو سے تین میٹر بلند لہریں کلابریا اور سسلی کے ساحلوں سے صرف 30 منٹ کے اندر ٹکرائیں۔

اسے سنجیدگی سے لینا ضروری ہے کیونکہ مارسیلی پر ایک دراڑ سے پتا لگتا ہے کہ ایسی ہی ایک لینڈ سلائیڈنگ ماضی میں ہوچکی ہے۔ گلوٹی کہتے ہیں کہ ‘اس سے ایک سے تین میٹر بلند لہریں پیدا ہوئی ہوں گی۔’

ممکنہ طور پر بدترین حالات میں جنوب مرکزی اور مشرقی چوٹیاں ڈوب سکتی ہیں۔ گلوٹی کی تحقیق کے مطابق اس سے صرف 20 منٹ میں سسلی اور کلابریا کے ساحلوں تک 20 میٹر بلند لہریں پہنچ سکتی ہیں۔

آیا یہ صورتحال ممکن ہے، اس پر مزید تحقیق درکار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘لیکن ہم اس کے امکانات کو خارج نہیں کرسکتے۔’

اگر آتش فشاں پھٹتا ہے تو اس سے ہونے والے جانی نقصان کا تعین اس بات پر کیا جائے گا کہ یہ سال میں کس ماہ ہوتا ہے۔ اور آیا سیاحت کے عروج میں سونامی آتا ہے۔

گلوٹی کا کہنا ہے کہ ‘گرمیوں میں جنوبی اٹلی میں کافی آبادی ہوتی ہے۔’ ان کے مطابق اٹلی کے ساحلوں کی بلندی کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ لوگ محفوظ رہیں گے اگر وہ ساحل سے ایک کلو میٹر دور ہوں گے۔

ونچورا اتفاق کرتے ہیں کہ ان خطرات پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ‘مارسیلی کا جائزہ لینا ضرورتی ہے تاکہ عدم استحکام کے امکانات کو دیکھا جاسکتا ہے۔’

سٹرومبولی پر ہونے والے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ مارسیلی شاید یورپ کا سب سے بڑا آتش فشاں ہے۔ لیکن اس کے گرد دیگر چھوٹے آتش فشاں بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔

ونچورا کہتے ہیں کہ یہ بتانا ضروری ہے کہ آبنائے سسلی کے بحیرہ تیرانی میں زیر آب کم از کم 70 آتش فشاں ہیں۔ کچھ کیسز میں ان کی کہانی نامعلوم ہے۔’

یورپ، آتش فشاں

،تصویر کا ذریعہAlamy

،تصویر کا کیپشن

مارسیلی کے گِرنے سے سونامی آسکتا ہے اور اس سے ہونے والا نقصان اس بات پر منحصر ہوگا کہ آیا یہ سیاحت کا موسم ہے

زیادہ تشویش پالینورو آتش فشاں کے حوالے سے بھی ہے جو سلینٹو کے ساحل سے 65 کلو میٹر دور ہے۔

گلوٹی کے مطابق تازہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اس پیچیدہ آتش فشاں میں ہلکے مواد کی 150 میٹر کی پرت ہے جو زلزلے سے گِر سکتی ہے۔ مستقبل کے سروے سے معلوم ہوگا کہ تباہی کے امکانات اور اثرات کیا ہوں گے۔

اگر یہ خطرات بہت زیادہ ہوئے تو اٹلی کی حکومت کو ممکنہ تباہی سے بچنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس وقت وہاں کوئی ایسا نظام جس کے تحت اٹلی کے لوگوں کو سونامی سے قبل اطلاع دی جاسکے۔

گلوٹی کہتے ہیں کہ اسے بنانا مشکل نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حرکت کو جانچنے والے سینسر کی مدد سے ایسا نظام بنایا جاسکتا ہے جو سمندری لہروں کی حرکت اور ایمرجنسی سونامی کی تنبیہ دے سکتے ہیں۔

اس سے علاقے کے لوگوں کو ایک ایس ایم ایس الرٹ بھیجا جاسکتا ہے جس سے وہ سونامی آنے سے قبل بلند جگہ پر منتقل ہوسکتے ہیں۔

ونچورا کہتے ہیں کہ آتش فشاں کی حرکات کی بھی نگرانی کی جاسکتی ہے۔ ‘گذشتہ 40 برسوں میں ٹیکنالوجی کی مدد سے فعال آتش فشاں کی نگرانی نے بہت ترقی کی ہے۔’

وارننگ نظام کے علاوہ گلوٹی کہتے ہیں کہ لوگوں اور قانون سازوں میں ممکنہ خطرات کی آگاہی اہم ہوگی۔

عام طور پر لوگ جانتے ہیں کہ ان کے علاقے میں سونامی آسکتا ہے۔ لیکن ان کی معلومات واضح نہیں۔ مثلاً جب ان سے حالیہ واقعات کے بارے میں پوچھا گیا تو صرف 3.3 فیصد لوگوں کے جوابات میں سٹرومبولی میں سنہ 2002 کے سونامی کا حوالہ موجود تھا۔

اکثر لوگوں نے کہا کہ وہ موجودہ حالات کے بارے میں کم معلومات رکھتے ہیں یا انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ممکنہ سونامی کے خطرے سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔

گروینا اور میری نے بی بی سی فیوچر کو ای میل کے ذریعے بتایا کہ ‘یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔’

آتش فشاں کو انگریزی میں والکینو کہتے ہیں اور یہ نام یونانی آگ کے خدا سے لیا گیا تھا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سسلی کے ماؤنٹ ایٹنا میں حال ہی میں لاوا نکلنے کا عمل دیکھا گیا

‘اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اٹلی میں ان موضوعات پر زیادہ بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ زلزلے یا سونامی کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ آپ حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں اور خطرے سے بچنے کے لیے اپنا رویہ بدل سکتے ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ وارننگ کے نظام کے تشکیل کے لیے مقامی لوگوں کے رویوں کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔ (کووڈ 19 کے بعد ہم دیکھ چکے ہیں کہ مختلف لوگ معلومات پر مختلف انداز میں ردعمل دیتے ہیں۔)

یہاں کچھ مثبت اقدام بھی لیے گئے ہیں۔ سالیرنو میں اٹلی کے شہری تحفظ کے محکمے کے حالیے پروجیکٹ میں سونامی کے ہنگامی حالات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ گروینا اور میری نے کہا کہ ‘اس سے خطرات سے متعلق ان کی آگاہی بڑھ سکتی ہے۔’

لیکن اکثر لوگوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ پانی کے نیچے لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات کیا ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگوں میں آگاہی کے لیے کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

سونامی پر خطرات شاید ایک جگہ تک محدود رہیں۔ لیکن اگر یہ خطرہ دوسری جگہ پر پھیلا تو کچھ معلومات سے ہزاروں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.