بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

صدام حکومت کو چکمہ دے کر فرار ہو جانے والے عراقی اولمپیئن کی داستان

صدام حسین حکومت کو چکمہ دے کر فرار ہو جانے والے عراقی اولمپیئن کی داستان

رائد احمد، اولمپکس، عراق، صدام حسین، امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’صدر کلنٹن کی طرف نہ دیکھیں۔‘

یہ ہدایات امریکہ کے شہر اٹلانٹا میں سنہ 1996 میں ہونے والی اولمپکس کھیلوں میں شریک عراقی اتھلیٹ رائد احمد کو دی گئی تھیں۔

عراقی ویٹ لفٹر سے کہا گیا تھا کہ کلنٹن اور امریکہ تمہارے ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ان کا احترام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ صدام حسین کے بڑے بیٹے کی طرف سے یہ پیغام عراق کی اولمپکس کمیٹی کے حکام نے اُن تک پہنچایا۔

رائد نے بتایا کہ ان سے کہا گیا کہ ادھر ادھر نہ دیکھیں کیونکہ صدر بھی وہاں ہوں گے اور ان کی طرف مت دیکھیں۔

‘میں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں۔’

رائد اپنے ملک کا پرچم ہاتھ میں تھامے جب دوڑتے ہوئے سٹیڈیم میں داخل ہوئے تو اُن کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ اولپمکس کے عالمی کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں قومی پرچم اٹھانے کا اعزاز انھیں 29 سال کی عمر میں حاصل ہوا۔ اس سے قبل دو اور عراقی یہ اعزاز حاصل کر چکے تھے۔

ان پر عراقی حکام کی آنکھیں گڑی ہوئی تھیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے دائیں جانب نظر گھمائی۔

انھوں نے کہا کہ انھیں یقین نہیں آ رہا تھا۔ ‘کلنٹن ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ بہت خوش ہیں۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور تالیاں بجانے لگے۔’

یہ وہ لمحہ تھا جس نے رائد کی ساری زندگی بدل ڈالی۔

رائد عراق کے شہر بصرہ میں سنہ 1967 میں ایک شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد باڈی بلڈنگ کی تریبت دیتے تھے۔

انھوں نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں ویٹ لفٹنگ میں اپنا نام بنانا شروع کر دیا۔ سنہ 1984 میں انھیں 99 کلو گرام کی کیٹیگری میں قومی چیمپیئن کا اعزاز حاصل ہوا۔

لیکن ان کی کامیابیوں کا سلسلہ ملک میں افراتفری کے پس منظر میں شروع ہوا۔

سنہ 1991 میں عراق کے جنوبی حصوں میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے عربوں اور ملک کے شمالی حصے میں کردوں نے بغاوت کردی۔

یہ شورش خلیج کی پہلی جنگ کے فوراً بعد شروع ہوئی۔ اس شورش سے ایک سال قبل کویت پر حملہ کرنے والی عراقی فورسز کو امریکہ کی قیادت میں کثیر الملکی فوج نے کویت سے نکال باہر کیا تھا۔

فروری 1991 میں اتحادی افواج کے زمینی حملے سے پہلے اس وقت کے امریکہ کے صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے ایک نشریاتی بیان میں عراق کے لوگوں سے کہا کہ خون خرابے سے بچنے کا ایک راستہ ہے۔

اپنی تقریر میں امریکہ کے صدر نے کہا کہ ‘یہ عراق کی فوج اور عراق کے لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور ڈکٹیٹر صدام حسین کو مجبور کریں کہ وہ اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں۔

رائد احمد، اولمپکس، عراق، صدام حسین، امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ملک کی شیعہ اور کرد آبادی نے یہ سمجھا کہ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ صدام حسین کے خلاف بغاوت کی پشت پناہی کرے گا اور مارچ میں انھوں نے بغاوت کر دی۔

بصرہ اور دوسرے شہروں میں سینکڑوں غیر مسلح شہری سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا، قیدیوں کو جیلوں سے رہا کر دیا اور چھوٹے ہتھیاروں کی پیٹیاں لوٹ لیں۔

بغاوت کے عروج کے دنوں میں ملک کے 18 میں سے 14 صوبے صدام حسین کی فوج کے ہاتھوں میں سے نکل گئے تھے اور دارالحکومت بغداد سے چند میل دور لڑائی جاری تھی۔

عراق میں ہونے والی بغاوت کی اس آگ نے جب پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو امریکی حکام نے کہا کہ عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا اور صدام حسین کو اقتدار سے علیحدہ کرنا کبھی ان کی پالیسی میں شامل نہیں تھا۔

خلیج کی جنگ ختم ہونے کے بعد باغیوں کو امریکی حمایت نہ حاصل ہونے کی وجہ سے صدام حسین نے ملک کی شیعہ آبادی اور کردوں کے خلاف بدترین کارروائی شروع کی اور صرف چند مہینوں میں ہزاروں شہریوں کو ہلاک کر دیا۔

رائد یاد کرتے ہیں کہ صدام حسین کے رشتے کے بھائی علی حسن الماجد جو کیمیکل علی کے نام سے مشہور تھے اور جنھیں بغاوت کچلنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی انھوں نے بصرہ یونیورسٹی کے طلباء کو ایک لائن میں کھڑے کر کے گولیاں مار دی تھیں۔

اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں سے بھی عام عراقی شہریوں کی حالت بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ رائد کا کہنا ہے لوگ روٹی اور چاول تک خریدنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ کیسے ملک سے نکلا جائے۔

بہت سے عراقی شہریوں کے برعکس رائد کو عالمی مقابلوں میں شرکت کے لیے ملک سے باہر جانے کی سہولت حاصل تھی۔

عراق میں اعلیٰ ترین سطح کے کھلاڑی ہونے کا مطلب تھا کہ آپ کی صدام حسین کے جابر ترین بیٹے عدی حسین جو عراق کی اولمپکس کمیٹی اور عراق کی فٹ بال ایسوسی ایشن کے سربراہ تھے سے بالمشافہ ملاقات ہونا لازمی تھا۔

عدی حسین ذرا ذرا سی غلطیوں مثلاً پینلٹی کک ضائع ہو جانے، سرخ کارڈ مل جانے اور بھرپور صلاحیت نہ دکھانے پر کھلاڑیوں کو بجلی کے جھٹکے دینے، گٹر میں ڈالنے حتیٰ کہ قتل تک سے گریز نہیں کرتے تھے۔

رائد کا کہنا ہے کہ ‘وہ جو چاہے وہ کر سکتے تھے، وہ صدام حسین کے بیٹے تھے۔’

رائد احمد، اولمپکس، عراق، صدام حسین، امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اپنے آپ کو عدی کے قہر سے محفوظ رکھنے کے لیے کسی بھی بڑے بین الاقوامی مقابلے سے پہلے رائد عدی کی توقعات کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ‘میں نے لوگوں کو جیلوں سے نکلتے دیکھا تھا۔ فٹ بال اور باسکٹ بال کے کھلاڑی ہمیں بتاتے تھے کہ جب تم مقابلوں میں حصہ لینے باہر جاؤ تو بہت محتاط رہو۔’

‘جب انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں سونے کا تمغہ لا سکتا ہوں تو میرا جواب تھا نہیں۔ سونے کا تمغہ حاصل کرنے کے لیے کم از کم چار سال کی محنت درکار ہوتی ہے اور بصرہ میں ایسا کرنا بہت مشکل ہے جہاں پانی اور خوراک کی کمی تھی۔ ویٹ لفٹنگ کے لیے آپ کو وافر مقدار میں خوراک اور جسمانی مالش کی ضرورت ہوتی ہے۔’

رائد عراق کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کے لیے بین الاقوامی مقابلوں کو ایک بہترین موقعے کی صورت میں دیکھنے لگے تھے۔ وہ پہلے سے زیادہ محنت کرنے لگے، اور ہر روز دو مرتبہ سخت جسمانی تریبت کرنے لگے تاکہ وہ اس سطح تک پہنچ سکیں۔

سنہ 1995 میں انھیں ورلڈ ویٹ لفٹنگ چیمپیئن شپ کے لیے چین جانے کا موقع ملا لیکن انھوں نے سوچا کہ چین کے حکام کی طرف سے انھیں عراق کے واپس حوالے کرنے کا زیادہ امکان ہے اس لیے انھوں نے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی۔

ان کی کارکردگی اولمپکس کی ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے کافی تھی۔ وہ اٹلانٹا جا رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ امریکہ میں ہونے والے 1996 کے اولمپکس مقابلے ان کے لیے ایک بہترین موقع ہوں گے۔

اولمپکس میں جانے سے پہلے رائد نے امریکہ میں اپنے دوستوں سے رابطہ کیا۔ انھوں نے خطرات کا اندازہ لگانا شروع کیا۔

اگر انھوں نے واپس عراق بھیج دیا تو؟ ان کے خاندان والوں کا کیا ہو گا؟ وہ عراقی حکام کی کڑی نگاہ سے کیسے بچ پائیں گے؟ رائد جب امریکہ جانے کے لیے جہاز پر سوار ہوئے تو انھیں یقین نہیں تھا کہ وہ فرار کو حقیقت کا روپ دے سکیں گے۔

اولمپکس ولیج پہنچنے کے بعد رائد بڑے پرسکون انداز میں رہنے لگے اور کسی کو شک کرنے کا موقع نہیں دیا۔ انھیں سب سے بڑے عالمی کھیلوں میں قومی پرچم اٹھانے کا اعزاز بخشا گیا تھا۔

افتتاحی تقریب سے قبل انھیں اولمپکس کی ٹیم کے ہمراہ آنے والے مترجم انمر محمود کی طرف سے بار بار یہ باور کروایا جاتا رہا کہ آپ نے صدر کلنٹن کی طرف نہیں دیکھنا۔

رائد احمد، اولمپکس، عراق، صدام حسین، امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

رائد کا کہنا تھا کہ ‘وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ عراق کے لوگ امریکہ کو پسند نہیں کرتے، وہ امریکی صدر کو پسند نہیں کرتے۔’

اولمپکس پارک میں 19 جولائی 1996 کو جب انھوں نے چکر لگایا تو محمود رائد کے بالکل پیچھے موجود تھے۔

انھوں نے بتایا کہ محمود یہ بھانپ گئے تھے کہ وہ کلنٹن کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن انھوں نے کچھ نہیں کہا۔ انھوں نے مزید کہا کہ عراقی حکام یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کلنٹن ان کے لیے تالیاں بجا رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ان کے ذہن سے سارے شک و شبہات دور ہو گئے۔ وہ عراق واپس نہیں جا رہے تھے۔ لیکن اب مشکل سوال یہ تھا کہ امریکہ میں کیسے رکا جائے۔

رائد نے امریکہ میں اپنے ایک اور دوست محسن فرادی سے رابطہ کیا اور انھیں اپنے ارادے کے بارے میں بتایا۔

اس کے بعد امریکہ کی جارجیا یونیورسٹی میں انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے انتفادہ قمبر کو اولمپکس ولیج تک رسائی حاصل ہوئی اور وہ ان سے ملنے کے لیے آئے۔

رائد نے انھیں وہاں سے نکلنے میں مدد دینے کو کہا۔ انھوں نے خفیہ ملاقات کی لیکن ان پر نظر رکھنے والوں کو شبہ ہو گیا کہ وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں۔

‘انھوں نے مجھے کہا کہ مجھے یہاں رکنے کی اجازت نہیں ہے اور اگر میں یہاں رکا تو مجھے جیل ہو جائے گی۔’

رائد کا ارادہ نہیں بدلا۔ پوری تیاری کر لی گئی تھی لیکن انھیں پہلے مقابلے میں حصہ لینا تھا۔ اپنے مدمقابل کھلاڑیوں کی سطح تک پہنچنے کے لیے تربیت نہ کر سکنے کی وجہ سے وہ اپنے ویٹ کلاس میں نیچے سے تیسرے نمبر پر رہے اور دو مختلف مواقع پر وہ مجموعی طور پر 665 اعشاریہ پانچ پاونڈ وزن اٹھا پائے۔

مقابلے ختم ہونے کے بعد ان کے فرار ہونے کا وقت آ گیا۔

28 جولائی سنہ 1996 کی صبح عراق کی اولمپکس ٹیم ایک چڑیا گھر جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ ٹیم جب ناشتہ کرنے کے لیے نیچے گئی تو رائد نے بہانہ کیا جیسے وہ کوئی چیز اپنے کمرے میں بھول گئے ہوں۔

انھوں نے جلدی جلدی اپنا بیگ تیار کیا اور اولمپکس ولیج کے دروازے کی طرف بھاگے۔ قمبر اور فرادی ایک گاڑی میں ان کا انتظار کر رہے تھے۔ رائد گاڑی پر سوار ہوئے اور انھوں نے گاڑی دوڑا دی۔

رائد احمد، اولمپکس، عراق، صدام حسین، امریکہ

،تصویر کا ذریعہRaed Ahmed

رائد وہ وقت یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمام راستے انھیں اپنے خاندان کی فکر رہی۔ ‘میں فکر مند تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہو گا جب عراقی حکام کو پتا چلے گا کہ میں فرار ہو گیا ہوں، مجھے اپنی کوئی فکر نہیں تھی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میں محفوظ ہاتھوں میں ہوں اور مجھے یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مجھے صرف اپنے خاندان والوں کے بارے میں فکر اور پریشانی تھی۔’

رائد کو بغیر پاسپورٹ کے ہی نکلنا پڑا کیونکہ عراقی حکام نے اُن کی تمام دستاویزات رکھ لی تھیں۔ وہ ایک عراقی امریکی وکیل سے ملنے کے لیے پہنچے جو نیو یارک سے خاص طور پر سفر کر کے آئے تھے۔ پھر یہ لوگ امیگریشن ایجنسی گئے تاکہ رائد کی امریکہ میں ٹھہرنے کی خواہش پر گفتگو کی جا سکے۔

اس کے بعد ایک پریس کانفرنس کی گئی جس میں اُنھوں نے عالمی میڈیا کے سامنے بات چیت کی۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق: ‘میں اپنے ملک سے پیار کرتا ہوں مگر مجھے وہ حکومت پسند نہیں۔’

رائد کہتے ہیں کہ پریس کانفرنس کے بعد عدی حسین کے دفتر نے سی این این میں کال کی اور اُنھیں یہ پیغام پہنچانے کے لیے کہا کہ اُنھیں واپس آنا ہوگا کیونکہ اُن کے پورے خاندان کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔

جب رائد نے ملک لوٹنے سے انکار کر دیا تو بالآخر اُن کے خاندان کو چھوڑ دیا گیا مگر اس کے باوجود وہ اُن سے ایک سال سے زیادہ عرصے تک بات نہ کر سکے۔

‘اُن کے لیے حالات بہت مشکل ہو گئے تھے۔ لوگ اُن سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ میری والدہ ایک سکول میں ڈائریکٹر تھیں اور اُنھوں نے اُنھیں برطرف کر دیا۔’

رائد کہتے ہیں کہ جب اُنھیں پناہ مل گئی تو وہ ہفتے میں ساتوں دن کام کرتے تاکہ اپنی اہلیہ کے لیے ایک جعلی عراقی پاسپورٹ کا انتظام کر سکیں۔ سنہ 1998 میں وہ اردن تک پہنچ گئیں جہاں اُنھوں نے اقوامِ متحدہ کے اہلکاروں کی مدد حاصل کی اور پھر امریکہ پہنچ گئے۔

رائد اور اُن کی اہلیہ مشیگن کے شہر ڈیئربورن میں سکونت پذیر ہوگئے اور وہ آج تک یہیں رہتے ہیں۔ اُنھوں نے پانچ بچے پیدا کیے۔ ڈیئربورن میں عرب بڑی تعداد میں آباد ہیں اور سنہ 2003 میں جب عراق جنگ شروع ہوئی تب سے ہزاروں عراقی پناہ گزین اس علاقے میں آ بسے ہیں۔

رائد ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘ڈیئربورن بغداد کی طرح ہے۔’

اُنھوں نے استعمال شدہ گاڑیوں کی ایک ڈیلرشپ کھولی اور ویٹ لفٹنگ کی ٹریننگ جاری رکھی۔ وہ مقامی عراقی فٹ بال اور باسکٹ بال ٹیموں کی تربیت بھی کرتے رہے۔

پھر سنہ 2004 میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد وہ پہلی مرتبہ عراق لوٹے۔

‘میرے تمام گھر والے میرا انتظار کر رہے تھے اور مجھے دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ اُنھوں نے مجھے 1996 سے نہیں دیکھا تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر صرف روتے رہے کیونکہ اُنھیں یقین نہیں تھا کہ وہ دوبارہ مجھے کبھی دیکھ سکیں گے۔’

رائد کے والدین اب بھی بصرہ میں رہتے ہیں مگر وہ عالمی وبا سے پہلے تک ہر برس امریکہ جایا کرتے تھے۔

رائد کہتے ہیں کہ مستقبل میں وہ شاید مشیگن میں ہی رہیں گے مگر اُن کے لیے اپنی سرزمین کے موسم والے کسی علاقے میں منتقل ہونا ایک خواب رہا ہے۔

وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘میں فلوریڈا منتقل ہونا چاہتا ہوں کیونکہ اس کا موسم عراق جیسا ہی ہے۔ یہاں خاص طور پر دسمبر سے فروری تک جینا بہت مشکل ہے۔ بہت سخت ٹھنڈ ہوتی ہے اور بہت زیادہ برف پڑتی ہے۔ میں نے پہلے کبھی برف نہیں دیکھی تھی۔ میں سوچتا تھا لوگ تین اور چار انچ برف میں کیسے باہر جاتے ہیں؟’

وہ بتاتے ہیں کہ ہر سال کی طرح وہ رواں سال جولائی میں ٹوکیو اولمپکس کی افتتاحی تقریب بھی ٹی وی پر دیکھیں گے۔

‘یہ سب بہت سی یادیں واپس لے آتا ہے اور مجھے یاد دلاتا ہے کہ میں کتنا دور آ چکا ہوں۔ میں جب بھی دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کاش میں بھی کسی طرح اس میں شریک ہوتا۔’

‘یہ تقریب دیکھنا واقعی مجھے 25 سال پہلے لے جائے گا اور مجھے یقین ہے کہ میں اپنے دور کو دوبارہ جیئوں گا۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.