ملازمت کے جھانسے میں جمع پونجی گنوانے والی لڑکی: ’نوکری کے لیے درخواستیں دے رکھی تھیں، مجھے لگا واٹس ایپ میسیجز سچ ہیں‘،تصویر کا ذریعہBELLA BETTERTON
،تصویر کا کیپشنبیلا نے جعلسازی کا شکار ہونے کے بعد اکتوبر میں ریڈیو 4 کے شو ’منی باکس‘ سے رابطہ کیا

  • مصنف, ڈین وٹورتھ
  • عہدہ, منی باکس رپورٹر، بی بی سی ریڈیو فور
  • 41 منٹ قبل

جب بیلا بیٹرٹن نوکری کا جھانسہ دے کر لوگوں کو لوٹنے والے گروہ کا شکار بن کر تقریباً تین ہزار پاؤنڈ گنوا بیٹھیں تو اُن کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے ان کی ذات پر حملہ کیا ہو۔دھوکے بازوں نے 18 سالہ بیلا سے پہلے واٹس ایپ پر رابطہ کیا اور بعد میں فون کالز پر انھیں ایسا محسوس کروایا گیا جیسے وہ واقعی میں کسی نوکری کا انٹرویو دے رہی ہوں۔مگر دھوکے بازوں نے بڑی چالاکی سے ان کے بینک کارڈ کی تفصیلات حاصل کر کے ان کی جمع پونجی چُرا لیی۔تازہ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2023 میں برطانیہ میں نوکری کا جھانسہ دے کر لوٹے جانے والی رقم 20,000 پاؤنڈ سے بڑھ کر تقریباً 10 لاکھ پاؤنڈ تک جا پہنچی۔

لندن پولیس کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک سال میں ’ایکشن فراڈ‘ کو ایسے جرائم کی شکایت درج کروانے والوں کی تعداد میں تقریباً آٹھ گنا اضافہ ہوا۔مگر لندن پویس کے کمانڈر اولیور شا کا ماننا ہے کہ اصل کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ لوگ اکثر ایسے جعل سازی کے کیسز کی اطلاع نہیں دیتے۔ایسی جعلسازی میں ملوث افراد یا تو لوگوں کو نوکری اور پیسوں کا جھانسہ دے کر ان کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات معلوم کر لیتے ہیں یا پھر ان کے فون کا کنٹرول حاصل کر کے ان سے پیسے بٹور لیتے ہیں۔بیلا نے اس جعلسازی کا شکار ہونے کے بعد اکتوبر میں ریڈیو 4 کے شو ’منی باکس‘ سے رابطہ کیا۔وہ اگلے برس بائیو کیمسٹری کے کورس میں داخلے کی خواہشمند ہیں اور اس کے لیے انھوں نے تعلیم سے ایک سال کا وقفہ لیا ہے تاکہ وہ اپنی مستقبل کی تعلیم کے اخراجات کے لیے مطلوبہ دس ہزار پاؤنڈز جمع کر سکیں۔انھوں نے گرمیوں کی چھٹیوں میں فل ٹائم کام کر کے تین ہزار پاؤنڈز جمع کیے تھے جو جعل سازوں نے دھوکہ دہی سے ہتھیا لے۔ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ان کی نوکری چلی گئی تھی اور وہ ایک بار پھر سے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی تھیں تاکہ وہ یونیورسٹی کے لیے پیسے جمع کر سکیں۔بیلا کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی سی وی نوکری کے لیے جگہ جگہ بھیجی ہوئی تھی اس لیے انھیں لگا کہ شاید واٹس ایپ پر موصول ہونے والے پیغامات سچ ہوں۔جعل سازوں نے نوکری کے لیے ان کا باقاعدہ انٹرویو لیا۔ بیلا کو بتایا گیا کہ ان کو کمپنی کی جانب سے پیسے دیے جائیں گے اور ان کو اس سے مختلف مصنوعات خرید کر ان کا جائزہ لینا ہو گا۔یہ پورا عمل ایسے پیچیدہ طریقے سے کیا گیا کہ بیلا کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جعل سازوں نے اس دوران بیلا کو درجنوں بار کالز کیں اور مسیجز بھیجے تاکہ ان کی ذہن سازی کی جا سکے۔ بالآخر ایک دوپہر بیلا سے دھوکے سے حاصل کی جانے والی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے کارڈ کے ذریعے ایک کرپٹو کرنسی ایکسچینج کو چار بڑی ادائیگیاں کی گئیں۔ بیلا کہتی ہیں کہ جب انھیں ان ادائیگیوں کا نوٹیفیکیشن ملا تو انھیں شدید صدمہ ہوا۔ ’مجھے نہیں پتا تھا کہ میں اس کو روک بھی سکتی ہوں یا نہیں یا اسے حل کرنے کا کوئی طریقہ ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesان کا کہنا تھا کہ انھیں تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اپنے بینک اکاونٹ کو کیسے محفوظ کیا جائے کیونکہ انھیں پہلے کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کیا تھا۔بیلا کہتی ہیں کہ یہ ان کی پورے تین ماہ کی کمائی تھی جو انھوں نے دن رات محنت کر کے کمائی تھی اور وہ اس سب سے کافی پریشان ہو گئیں تھیں۔

قیمتی ڈیٹا

کنگسٹن یونیورسٹی کی ڈاکٹر لز کارٹر ایک کریمنالوجسٹ ہیں جو جعل سازوں کی جانب سے لوگوں کو پھنسانے کے لیے استعمال کیے جانے والے جملوں کو سمجھنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھرتیوں کے نام پر فراڈ بڑے پیمانے پر کیا جانے والا کثیر الجہتی جرم ہے۔’یہ پیغامات کچھ ہی لوگوں کے مطلب کے ہوتے ہیں مگر یہ نمبر گیم ہے۔ مجرموں کو کچھ ہی لوگوں کی جانب سے جواب کا انتظار ہوتا ہے اور ان کیسز میں متاثرین خود اپنا انتخاب کرتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

ڈاکٹر کارٹرکہتی ہیں کہ جعل ساز لوگوں سے مرحلہ وار ایسے سوالات پوچھتے ہیں جو عمومی طور پر کسی بھی ادارے کا ایچ آر ڈیپارٹمنٹ آپ سے پوچھے گا جیسے نام، ایڈریس، تاریخِ پیدائش، بینک کی تفصیلات وغیرہ۔یہ ساری تفصیلات ایک قیمتی ڈیٹا ہوتا ہے تو اگر جعل ساز اپنی کوشش میں کامیاب نہیں بھی ہوتے تو وہ اس ڈیٹا کو ڈارک ویب پر بیچ سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اکثر دھوکے باز، لوگوں سے شروع میں کچھ معمولی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں جس کے بارے میں ان کو بولا جاتا ہے کہ یہ رقم ان چیزوں کی مد میں لی جا رہی ہے جو کام کرنے کے لیے ضروری ہیں اور ان کو یہ پیسے پہلی تنخواہ کے ساتھ لوٹا دیے جائیں گے مگر ان فراڈ کرنے والوں کا اصل ہدف بڑی رقوم ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر لز کہتی ہیں کہ متاثرین کو کام دلوانے کا وعدہ کر کے ان کے فون یا کمپیوٹر کا کنٹرول حاصل کرنا، ہم سب نے یہ کام کیے ہیں اور جعل ساز اس ہی بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لندن پویس کے کمانڈر اولیور شا کا کہنا ہے کہ دھوکہ دہی سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پورے نظام کو ایک ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عوام کی جانب سے موصول ہونے والی ہر رپورٹ، اس مسئلے کی ایک واضح تصویر بنانے میں مدد کرتی ہے، جس سے ہمیں نہ صرف دھوکہ دہی کی زیادہ مؤثر طریقے سے تحقیقات کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ مجرموں کے ذریعے استعمال بینک اکاؤنٹس، ویب سائٹس اور فون نمبرز کو بند کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔دھوکہ دہی سے متاثرہ ہونے کے باوجود بیلا کے بینک نے انھیں رقم واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے، مگر وہ اب اس فیصلے کو مالی محتسب سروس (فنانشل اومبڈسمین سروس) میں چیلنج کر رہی ہیں۔دریں اثنا، وہ ایک ویٹریس کے طور پر پہلے سے بھی زیادہ گھنٹے کام کر رہی ہیں تاکہ چوری کی گئی رقم کو پورا کر سکیں۔ بیلا کہتی ہیں کہ جو کچھ ہوا اس نے اُن کے شخصیت کو تبدیل کر دیا۔’آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ اس دنیا کے لیے بہت ناپختہ ہیں۔ اس سب سے آپ کی آنکھیں کُھل جاتی ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}