چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے کون سے حکم کی توہین کی؟ توہین عدالت کی درخواست دی، اب ثبوت تو دیں۔
سپریم کورٹ میں لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق پی ٹی آئی کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔
عدالت نے پی ٹی آئی کی درخواست پر آئی جی اور چیف سیکریٹری اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹسز جاری کر دیے۔
سپریم کورٹ نےکہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کمیشن پنجاب کے خط کے جواب میں ہدایات جاری کی تھیں، بتایا جائے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایات پر عملدرآمد ہوا یا نہیں۔
سپریم کورٹ نے لیول پلیئنگ فیلڈ کی درخواست پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ شعیب شاہین کہاں ہیں؟ شعیب شاہین، آپ روسٹرم پر آجائیں، یہ آپ کی درخواست تھی، شعیب شاہین صاحب آپ نے درخواست دائر کی آپ دلائل دیں۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لطیف کھوسہ سینئر وکیل ہیں، میں نے ان سے دلائل کی درخواست کی ہے، میں لطیف کھوسہ کے ساتھ کھڑا ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لطیف کھوسہ کے نام کے ساتھ سردار لکھنے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ سردار، نواب اور پیر جیسے الفاظ اب لکھنا بند کر دیں، 1976ء کے بعد سے سرداری نظام ختم ہو چکا ہے، یا تو پاکستان کا آئین چلائیں یا پھر سرداری نظام، آئین پاکستان کے ساتھ اب مذاق کرنا بند کر دیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے شناختی کارڈ پر سردار لکھا ہے اس لیے عدالت میں بھی سردار لکھا گیا۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سردار اور نوابوں کو چھوڑ دیں، اب غلامی سے نکل آئیں، سردار لکھ کر اپنا رتبہ بڑا کرنے کی کوشش نہ کیا کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ کی اب درخواست کیا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ توہین عدالت کی درخواست ہے کوئی نیا کیس نہیں، مرکزی کیس 22 دسمبر کو نمٹایا جا چکا ہے، آپ کی درخواست میں بہت سارے توہین عدالت کرنے والوں کے نام ہیں، الیکشن کمیشن نے کیا توہین عدالت کی ہے؟ کیا الیکشن کمیشن نے آپ کے بارے کوئی فیصلہ دیا؟ کیا الیکشن کمیشن نے صوبائی الیکشن کمیشن کو احکامات دیے؟
چیف جسٹس نے وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ الیکشن کمیشن نے کوئی توہین کی ہے تو ثبوت دکھائیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں سی ڈی لایا ہوں اس میں سارے ثبوت ہیں، ہمارے رہنماؤں کو کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرانے دیے گئے، سارے پاکستان نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہاں سیاسی تقریر نہ کریں، آئین و قانون کی بات کریں، آپ کہہ رہے آئی جی اور چیف سیکریٹری نے کارروائی کی، آئی جی اور چیف سیکریٹری کا الیکشن سے کیا لینا دینا ہے؟ آئی جی اور چیف سیکریٹری نے نہیں، شفاف انتخابات الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں، توہین عدالت کی درخواست الیکشن کمیشن کے خلاف ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے کون سے حکم کی توہین کی ہے؟ آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی درخواست دی گئی، اب ثبوت تو دیے جائیں، مجھے سمجھ نہیں آرہی ہم یہ توہین عدالت کی درخواست سن کیوں رہے ہیں، اگر آئی جی اور چیف سیکریٹری سے مسئلہ ہے تو ان کے خلاف درخواست دیں، آپ افراد کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں یا الیکشن کمیشن کے خلاف؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ شفاف انتخابات کرائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بالکل، ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، آپ آئی جیز اور چیف سیکریٹری کے خلاف توہین عدالت چاہ رہے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے قومی و صوبائی اسمبلیوں سے کتنے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے؟ آپ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا بتا رہے ہیں، منظوری کا بھی تو بتائیں، آپ نے لکھا، سوشل میڈیا کے مطابق اتنے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے، پی ٹی آئی کے پاس امیدواروں کے کاغذات منظور یا مسترد کا ڈیٹا نہیں؟ درخواست میں میجر فیملی لکھا ہے، کیا کوئی میجر انتخابات لڑ رہا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کر دیں گے، آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کا کردار ادا کرے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ صرف ایک سیاسی جماعت کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مائک آپ کی جانب موڑ دیتے ہیں آپ پی ٹی آئی کی سیاسی تقریر کر لیں، آپ ہر بات کے جواب میں سیاسی جواب دے رہے ہیں، یہ قانون کی عدالت ہے، آپ درخواست میں توہین عدالت کے مرتکب ہونے کا الزام آئی جی پر لگا رہے ہیں، انتخابات آئی جی، چیف سیکریٹریز یا سپریم کورٹ نے کرانے ہیں؟ ہر ہائی کورٹ میں الیکشن ٹریبونل بن چکے ہیں، وہاں جائیں، بارہا کہا عدالتیں جمہوریت اور انتخابات کے لیے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ مجھے بھی سن لیں میں 55 سال سے وکالت کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا، بات ختم۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ تین دن سے ریٹرننگ افسر کے آرڈر کی کاپی نہیں ملی تو اپیل کہاں کریں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کے حکم پر 26 دسمبر کو مفصل عملدرآمد رپورٹ دی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ دیکھنے کے لیے کل تک کا وقت دے دیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہم کیا روز آپ کے کیس سنتے رہیں گے؟ عدالت کوئی اور کام نہ کرے؟ اکھاڑا نہیں یہ عدالت ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ صوبائی الیکشن کمیشن کا خط بھی تو دیکھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صوبائی الیکشن کمیشن نے خط 24 دسمبر کو لکھا، عملدرآمد رپورٹ 26 دسمبر کو جمع ہوئی، الیکشن کمیشن نے 26 دسمبر کے بعد کچھ کیا ہو تو بتائیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ ویڈیو لگانے دیں، پوری دنیا نے میڈیا پر دیکھا جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے نہیں دیکھا کیونکہ میں میڈیا نہیں دیکھتا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے کارکنان جب کاغذات جمع کرانے گئے پولیس نے کمشنر آفس کو سیل کر دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پھر اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن کی بات کریں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ صوبائی الیکشن کمیشن نے خط لکھا جس میں ساری تفصیل بتائی گئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ صوبائی الیکشن کمیشن کا اس کیس سے کیا واسطہ ہے؟ الیکشن کمیشن میں آپ نے کوئی شکایت درج کرائی ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں بہت سے لوگوں نے شکایتیں دائر کی ہیں۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن میں جو شکایت درج کرائی وہ دکھائیں۔
لطیف کھوسہ الیکشن کمیشن میں کی گئی شکایت کی کاپی نہ دکھا سکے۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں، الیکشن ہو جائے گا آپ پھر شکایتیں درج کرا لینا، ابھی بھی وقت ہے، ریٹرننگ افسران کے فیصلے پر ٹریبونل سے رجوع کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن سے کوئی موجود ہے؟
جس کے بعد ڈی جی لاء الیکشن کمیشن روسٹرم پر آگئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ بتائیں سپریم کورٹ فیصلے کے بعد پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا؟
ڈی جی لاء نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف الیکشن کمیشن آئی، ہم نے انہیں سنا اور حکم نامہ جاری کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل کا آخری دن کب ہے؟
الیکشن کمیشن کے ڈی جی لاء نے بتایا کہ آج اپیل کا آخری روز ہے، 10 جنوری تک ٹریبونلز فیصلے کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے پاس اپیل کا فورم موجود ہے، اسے استعمال کریں، اگر اپیل کے فورم سے ریلیف نہ ملے تو سپریم کورٹ آجائیں، کیا یہ کوئی پاکستان کی تاریخ کا پہلا الیکشن ہو رہا ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے گرفتاریوں سے متعلق چیف سیکریٹری اور آئی جی کو خط لکھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ اس خط کا سپریم کورٹ کے فیصلے سے کیا تعلق ہے؟ سپریم کورٹ فیصلے کے بعد آپ کی الیکشن کمیشن کو شکایت کی کاپی کہاں ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ صوبائی الیکشن کمشنرز آئی جیز کو خط لکھ رہے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم سوال پوچھ پوچھ تھک گئے ہیں، 22 دسمبر کے فیصلے کے بعد آپ کی الیکشن کمیشن کو شکایت کی کاپی کہاں ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ شکایت کی کاپی میں نے درخواست میں نہیں لگائی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 26 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا، 26 دسمبر کو خط لکھا کہ پی ٹی آئی کی شکایت پر فیصلہ کیا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ پولیس ہمارے امیدواروں کو اٹھا لیتی ہے، ریٹرننگ افسران تک نہیں پہنچنے دیا جاتا، الیکشن کمیشن ایسی صورتحال پر ایک خط لکھ کر خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی آپ اصل معاملے کی طرف توجہ کیوں نہیں دے رہے، آپ کی درخواست کے مطابق یہ معاملہ صرف توہین عدالت کا ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں ہائی کورٹ یا دیگر عدالتوں میں جا کر وقت ضائع نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ نے پہلے ہی انتخابات سے متعلق حکم دے رکھا ہے، عدالت لیول پلیئنگ فیلڈ کی فراہمی یقینی بنائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں اپنی وہ شکایات دکھا دیں جو الیکشن کمیشن میں دائر کیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ڈی جی الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ کیا آپ ان کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دے رہے؟
ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ بالکل کر رہے ہیں، ان کی 30 شکایات موصول ہوئیں جن کو الیکشن کمیشن نے حل کیا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہزاروں کے حساب سے درخواستیں ہیں اور الیکشن کمیشن 30 شکایات کی بات کر رہا ہے، جو کچھ ہو رہا ہے یہ کبھی ملکی تاریخ میں نہیں ہوا، ملک میں بدترین صورتِ حال پر کوئی آنکھیں کیسے بند کر سکتا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سوالات پر ناراض نہ ہوا کریں، یہ معاملہ ہائی کورٹ کا تھا کھوسہ صاحب، ہم نے آپ کو ایکسٹرا مائلیج دی، یہ نہ کہیں کہ دنیا آپ کے خلاف ہو گئی ہے، مثبت سوچ اختیار کریں، ایسا نہ کہیں کہ بدترین الیکشن ہو رہے ہیں، اب آپ خوش ہیں، ہم صرف سوال پوچھتے ہیں ناراض نہ ہوا کریں۔
جس کے بعد سپریم کورٹ نے لیول پلیئنگ فیلڈ کی درخواست پر سماعت 8 جنوری تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.