بلوچ یکجہتی کمیٹی سے ملاقات کے بعد حکومتی کمیٹی کے سربراہ فواد حسن فواد نے کہا کہ اسلام آباد میں حراست میں لیے گئے تمام عورتوں اور بچوں کو رہا کر دیا گیا ہے، جن مردوں کی شناخت ہو چکی ہے، اُن کو بھی رہا کر دیا گیا ہے، کچھ مرد ابھی شامل تفتیش ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ اور نگراں وزیر فواد حسن فواد نے کہا کہ 23 دنوں سے احتجاج چل رہا تھا پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔
فواد حسن فواد نے کہا کہ حکومت کے پاس انٹیلی جنس اطلاعات تھیں۔ کسی بڑے نقصان سے بچنے کیلئے مجبوراً ریاست کو کچھ اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام عورتوں، بچوں کو رہا کردیا گیا۔ زیر حراست کچھ مردوں سے تفتیش جاری ہے، جو لوگ ایف آئی آر میں نامزد ہیں، ان سے متعلق کل تک رپورٹ آجائے گی، نامزد افراد کا معاملہ عدالت میں ہے جو فیصلہ عدالت کرے گی وہ کریں گے۔
فواد حسن فواد نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی پر امن احتجاج ہو وہ کسی قاعدے اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے، ایف نائن پارک میں جانے کے لیے اس لیےکہا گیا کہ خدشات تھے، کسی بھی کارروائی کا آغاز پولیس کی جانب سے نہیں ہوا، جو لوگ بلوچستان سے آئے ان کی طرف سے کوئی شرانگیزی نہیں کی گئی، کچھ مقامی افراد نے صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی۔
حکومتی کمیٹی کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ چہرے ڈھانپ کر کچھ لوگ آئے اور پتھراؤ کیا جس کےبعد صورتحال خراب ہوئی، احتجاج کی تو اجازت ہے لیکن کچھ لوگ اُس احتجاج کو دوسری طرف لے گئے تو پھر ہمیں ایکشن لینا پڑا، پولیس رپورٹ ہے کہ جو لوگ بلوچستان سے آرہے تھے اُن میں سے کسی نے کوئی ہنگامہ آرائی نہیں کی، یہ سلسلہ ایسےلوگوں کی جانب سے شروع کیا گیا جو مظاہرین کے ساتھ نہیں آئے تھے۔
فواد حسن فواد نے مزید کہا کہ بلوچستان سے مظاہرین کو روکا جاتا تو اس معاملے کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا۔
Comments are closed.