برطانیہ میں بھاری منافع کمانے والے کیئر ہوم میں غیر ملکی ملازمین کا استحصال: ’اگر اپنے مُلک میں ہوتی تو ایسی ملازمت سے استعفیٰ دے سکتی‘
برطانیہ میں بھاری منافع کمانے والے کیئر ہوم میں غیر ملکی ملازمین کا استحصال: ’اگر اپنے مُلک میں ہوتی تو ایسی ملازمت سے استعفیٰ دے سکتی‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
(فائل فوٹو)
کیئر ہوم کے عملے نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ جس کمپنی یا فرم نے انھیں کام کی غرض سے برطانیہ بُلایا وہ اُن کا استحصال کر رہی ہے اور اب وہ یہاں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
پریسٹوک کیئر نامی کئیر سینٹر کے ملازمین نے پینوراما رپورٹر کو بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ اُن کے معاہدوں نے انھیں ملک چھوڑنے سے روک دیا ہے۔
بی بی سی کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ اس کیئر ہوم میں عملے کی تعداد کم ہے جس کے بارے میں ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے کمزور زیرِ کفالت رہائشیوں کو خطرہ لاحق ہے تاہم پریسٹوک کیئر سامنے آنے والے ان حقائق کو تسلیم نہیں کرتا۔
پینوراما کے ایک خفیہ رپورٹر نے نیو کاسل کے قریب ریٹن میں ایڈیسن کورٹ میں کیئر اسسٹنٹ کے طور پر ملازمت حاصل کی، جو انگلینڈ کے شمال مشرقی حصے میں پریسٹوک کیئر کی ملکیت والے 15 کیئر ہومز میں سے ایک ہے۔
انھوں نے اس جگہ کے بارے میں مقامی ادارہِ صحت کے حکام کی جانب سے متعدد شکایات اور الزمات سامنے آنے کے بعد وہاں رواں سال ستمبر سے نومبر تک کام کیا۔
ایڈیسن کورٹ 50 سے زیادہ عمر رسیدہ افراد کا گھر ہے، جس کی ہفتہ وار فیس اوسطً گیارہ سو برطانوی پاؤنڈ یعنی تقریباً چار لاکھ پاکستانی روپے ہے۔ یہ ہفتہ وار فیس یا تو مقامی اتھارٹی، این ایچ ایس، رہائشیوں یا ان کے اہلخانہ کی طرف سے ادا کی جاتی ہے۔
برطانیہ میں بہت سے کیئر ہومز کی طرح، ایڈیسن کورٹ بیرون ملک سے کارکنوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
ستمبر 2023 تک بیرون ملک مقیم ہیلتھ اینڈ کیئر ورکرز کو برطانیہ آنے کے لیے ایک لاکھ 40 ہزار ویزے جاری کیے گئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہیں۔ ان میں سے 39 ہزار کا تعلق انڈیا سے تھا۔
بیرون ملک سے نرسیں اور دیکھ بھال کرنے والے کارکن ہنرمند افراد کے ویزا کے اہل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ برطانیہ میں کام کرسکتے ہیں، لیکن انھیں آجر کی طرف سے سپانسر کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
اگر وہ اپنی نوکری چھوڑ دیتے ہیں، تو ان کے پاس دوسری مناسب ملازمت تلاش کرنے کے لیے 60 دن کا وقت ہوتا ہے اور اگر اس دوران وہ کوئی مناسب ملازمت ڈھونڈنے میں ناکام رہتے ہیں تو انھیں اُن کے آبائی ملک واپس جانا پڑتا ہے یا انتظامیہ کی جانب سے بھیج دیا جاتا ہے۔
اس ساری صورت حال میں آجروں یعنی ملازت دینے والوں کو ملنے والی طاقت یا اختیار کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اسی طرح کے استحصال کے خلاف کام کرنے والی فلاحی تنظیم ’آن سین‘ کے اینڈریو والیس کا کہنا ہے کہ گر آپ ایک اعلیٰ افسر کی حیثیت سے اقتدار میں ہیں تو آپ کسی فرد کو زبردستی اپنی بات منوانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
(فائل فوٹو)
پریسٹوک کیئر میں تقریباً 180 غیر ملکی کارکن کام کرتے ہیں جو ویزے پر برطانیہ میں موجود ہیں جو اس کے عملے کی تعداد کا تقریبا ایک تہائی ہے۔
وہاں موجود ایک انڈین نرس نے رپورٹر کو بتایا کہ وہ اپنی ملازمت سے خوش نہیں تھیں، لیکن انھیں لگا کہ وہ نوکری نہیں چھوڑ سکتی کیونکہ ان کا ویزا کمپنی کی طرف سے سپانسر کیا گیا تھا اور انھیں یقین تھا کہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں یہاں سے باہر نہیں جا سکتی۔ اگر میں وہاں اپنے مُلک میں اپنے گھر ہوتیں تو میں کم از کم ایسی ملازمت سے استعفیٰ دے سکتی تھی لیکن یہاں، میں سب کُچھ چھوڑ کر ایک دم سے نہیں جا سکتی۔‘
پریسٹوک ان غیر ملکی نرسوں کے لیے زندگی کو آسان نہیں رہنے دیتا جو اُنھیں یعنی کمپنی چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
احمد (فرضی نام) 2018 میں انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ سے برطانیہ آئے تھے۔
جب وہ یہاں پہنچے تو ان سے ایک معاہدے پر دستخط کرنے کو کہا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ اگر وہ پانچ سال کے اندر کمپنی چھوڑ دیتے ہیں تو انھیں پریسٹوک کیئر کو چار ہزار پاؤنڈ سے زیادہ ادا کرنا ہوں گے، جس میں وہ رقم بھی شامل ہے جو کمپنی پہلے ہی ہوم آفس کو ادا کر چکی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس میں ان کے ویزا کی وہ قانونی فیس بھی شامل ہے جو کمپنی نے ادا کی۔
محکمہ صحت اور سماجی دیکھ بھال (ڈی ایچ ایس سی) کے ضابطہِ اخلاق کے مطابق، عملے کو یہ اخراجات ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔
احمد کہتے ہیں کہ انھیں بتایا گیا تھا کہ ’اگر آپ اس معاہدے پر یہاں نہیں رہنا چاہتے ہیں، تو آپ انڈیا واپس جا سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انھیں لگا کہ پرسٹوک کیئر انھیں جانے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے ایک اور کمپنی کے زیر انتظام کیئر ہوم میں ایک اچھی پوسٹ پر کام کی پیشکش کے بعد استعفیٰ دے دیا۔
اس کے بعد پریسٹوک کیئر نے احمد کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان پر کمپنی کا پانچ ہزار پاؤنڈ سے زیادہ کا قرض ہے۔
اس کے بعد انھوں نے ملہوترا گروپ کے سی ای او بنٹی ملہوترا کو فون کیا، جو پریسٹوک کیئر کے مالک ہیں۔ انھوں نے احمد سے کہا کہ ’تم نے جو کچھ کیا، وہ غیر اخلاقی، شرمناک اور خوفناک ہے۔‘
احمد کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان کے معاہدے کی ایک شق انھیں چھ ماہ تک کسی بھی حریف کیئر ہوم میں کام کرنے سے روکتی ہے۔
لیانا ووڈ ایک وکیل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس شق کو کسی عدالت یا ٹریبونل کے ذریعے برقرار نہیں رکھا جائے گا اور ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف ’(نرسوں اور سینئر کیئر اسسٹنٹس) کو پھنسانے کے مقصد کے طور پر ہوتی ہے۔‘
بالآخر احمد کے نئے آجر یا مالک نے انھیں اس مُشکل سے نکالا۔
’ان سین‘ کے اینڈریو والیس کا کہنا ہے کہ مزدوروں کو قرض کے بوجھ تلے دبا کر ظالم اور بے رحم مالکان انھیں کنٹرول کرنے کے ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
پریسٹوک کیئر اس بات سے انکار کرتی ہے کہ ان کے معاہدے ان کے ملازمین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے بنائے گئے ہیں اور ادارے کا کہنا ہے کہ وہ اب عملے کے تمام معاہدوں میں ادائیگی کی شقوں کا جائزہ لے رہا ہے۔
ایڈیسن کورٹ کے کچھ عملے کے لیے صورتحال اس حقیقت سے مزید خراب ہو گئی تھی کہ انھوں نے بی جی ایم کنسلٹنگ نامی ایک ریکروٹمنٹ ایجنسی کے ذریعے اپنے ویزوں کے لیے چھ سے دس ہزار پاؤنڈ کے درمیان ادائیگی بھی کی تھی۔
تاہم تین سالہ ویزا کی قیمت صرف 551 پاؤنڈ ہو گی اگر انھوں نے براہ راست برطانوی حکومت کی ویب سائٹ کے ذریعے درخواست دی ہوتی۔
ڈی ایچ ایس سی کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو بھرتی ایجنٹوں کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہیے جو ملازمت کے متلاشیوں سے فیس وصول کرتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
(فائل فوٹو)
بی جی ایم کے ڈائریکٹر سنیل تھامس کا کہنا ہے کہ کمپنی نے برطانیہ میں کیئر ورکرز کی بھرتی کے لیے کوئی فنڈ نہیں لیا اور ان کا دعویٰ ہے کہ جو بھی رقم ادا کی گئی وہ انڈیا میں ان کی اطلاعات کے بغیر کام کرنے والے ’سب ایجنٹس‘ کو دی گئی ہوگی یعنی اُن کو جن سے کمپنی یا ادارے کا با ضابطہ طور پر کوئی تعلق نہیں۔
پریسٹوک کیئر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اب بی جی ایم کنسلٹنسی کے ساتھ تمام نئے معاملات معطل کر دیے ہیں۔
رپورٹر نے ان خدشات کو بھی سنا کہ کس طرح کم عملے کی وجہ سے ایڈیسن کورٹ میں دیکھ بھال کے معیار پر اثر پڑ رہا ہے۔
اس بارے میں کوئی اصول نہیں کہ کیئر ہوم کو کتنے عملے یا لوگوں کو ملازمت دینی چاہیے۔ پریسٹوک کیئر کا کہنا ہے کہ رات کی شفٹ (20:00 اور 08:00 کے درمیان) پر، ایک نرس 54 رہائشیوں کی دیکھ بھال کر سکتی ہیں کیونکہ انھیں دیکھ بھال کرنے والوں کی ایک ٹیم کی مدد حاصل ہے، جن میں سے کچھ ادارے میں موجود بیماروں کو ادویات دے سکتے ہیں۔
تاہم، رات کی شفٹ کی نگرانی کرنے والی ایجنسی کی ایک نرس نے رپورٹر کو بتایا کہ اس کا انتظام کرنا مشکل تھا، اور کچھ رہائشیوں کو ہمیشہ وقت پر دوائیں نہیں مل رہی تھیں۔
دیر سے ادویات دینے سے کچھ کی حالات سنگین حد تک خراب ہو سکتی ہیں اور اس کے نتائج بُرے ہوسکتے ہیں، مثال کے طور پر، ذیابیطس کے مریضوں کے لیے انسولین انجیکشن، یا پارکنسن کی بیماری کے لیے دوائیں۔
ایجنسی کی نرس کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک بار بنٹی ملہوترا کے ساتھ عملے کی کمی کے بارے میں تشویش ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ملہوترا ان پر چلائے اور انتہائی بُرے انداز اور رویے میں جواب دیا۔
ایڈیسن کورٹ کے دیگر عملے نے بھی خفیہ رپورٹر کو بتایا کہ عملے کی کمی کے بارے میں خدشات اٹھائے گئے تھے لیکن انتظامیہ کو اس میں دلچسپی نہیں تھی۔
مقامی انتظامیہ اور صحت کے حکام نے کارکنوں کی جانب سے خدشات کے اظہار کی تائید کی۔
ایڈسن کورٹ میں مریضوں کے ساتھ ایک جی پی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پینوراما کو بتایا کہ انھوں نے ایک رجحان دیکھا ہے جس میں کچھ مریضوں کو وقت پر ادویات نہیں مل رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عملے نے تسلیم کیا کہ دیکھ بھال ہمیشہ کافی نہیں ہوتی لیکن انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے خدشات کو انتظامیہ کے سامنے لانے کا کوئی مطلب فائدہ نہیں کیونکہ وہ ’یا تو اس سب کو انھیں کی غلطی قرار دیں گے اور الزام لگا دیں گے یا سب معاملے کو نظر انداز کر دیں گی۔‘
ایڈیسن کورٹ کی منیجر کا کہنا ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ وہ شکایات کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر یعنی کئیر ہوم کے عملے کے ساتھ مثبت تعلقات ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
(فائل فوٹو)
این ایچ ایس نرس کیٹی موغان گزشتہ سال تک ہفتے میں ایک بار اس کیئر ہوم کا دورہ کرتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جن نرسوں سے انھوں نے بات کی وہ ناخوش تھیں لیکن انھیں لگا کہ وہ وہاں سے نہیں جا سکتیں۔
انھوں نے سوچا کہ عملہ تشویش میں اضافہ نہیں کر رہا کیونکہ وہ کمپنی کو پریشان نہیں کرنا چاہتے ہیں اور انھیں ملک چھوڑنا پڑے گا۔
موغان کہتی ہیں کہ وہ کچھ رہائشیوں کے بارے میں اس قدر فکرمند تھیں کہ انھوں نے دو سال کی مدت میں مقامی اتھارٹی گیٹس ہیڈ کونسل کو 33 حفاظتی الرٹس دیے۔
ان میں سے ایک الرٹ ایک ایسے رہائشی کے بارے میں تھا جنھیں 72 گھنٹے تک شدید قبض کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے اُن کی موت واقع ہوئی۔ ان کا ماننا ہے کہ انھیں بچایا جا سکتا تھا۔
گیٹس ہیڈ کونسل نے پینوراما کو بتایا کہ تحفظ کے خدشات اور دیگر بہت سی اہم باتوں کو منظر عام پر لانے سے مُشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے میں انتہائی حساس ذاتی معلومات جاری کرنا پر سکتی ہیں۔
اپنے ادارے سے متعلق شائع کردہ اکاؤنٹس کی تازہ ترین تفصیلات سے متعلق پریسٹوک کیئر کی مالک کمپنی ملہوترا کیئر ہومز لمیٹڈ نے مالی سال 2021-22 میں 9.3 ملین پاؤنڈ کا منافع کمایا۔
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ وویک کوٹیچا کا کہنا ہے کہ کیئر ہوم کے لیے یہ مارجن تقریبا 40 فیصد تھا جو بہت زیادہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس کی ایک وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ یہ کمپنی اپنے عملے پر حریفوں کے مقابلے میں کم خرچ کر رہی ہے اور کمائی زیادہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک طرح کی تشویشناک بات ہے کیونکہ اس قسم کے مریضوں کو عملے اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ بصورت دیگر ان کے کمزوری کی باعث لڑکھڑا کر گرنے یا زخمی ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‘
دسمبر 2022 میں پریسٹوک کیئر نے ہوم آفس کی جانب سے غیر ملکی عملے کی کفالت کا لائسنس معطل کر دیا تھا تاہم اس کارروائی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
(فائل فوٹو)
اس خبر کے بعد بنٹی ملہوترا نے ایڈیسن کورٹ کے انڈین عملے کو ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے بلایا، جہاں انھوں نے انھیں رہنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے اس بات کا اشارہ بھی دیا کہ وہ ان کی یعنی اپنے عملے کی کسی بھی غلطی کو نظر انداز کرنے اور چھپانے کے لیے تیار ہیں۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ہمیشہ اپنے عملے کی حفاظت کریں گے، ہم ہمیشہ کہیں گے کہ ’یہ غلطی ایک تربیتی مسئلہ ہے۔۔۔ اور اس تحفظ کی باہر اجازت نہیں۔‘
ملاقات کی فوٹیج دیکھ کر کیٹی موغان کا کہنا تھا کہ وہ حیران ہیں کہ وہ کیئر ہوم میں رہنے کے لیے عملے کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہوم آفس نے اب پرسٹوک کیئر کا غیر ملکی عملے کو سپانسر کرنے کا لائسنس ’مکمل طور پر منسوخ‘ کر دیا ہے۔ بی بی سی سمیت دیگر اداروں کی رپورٹس کے بعد، ریگولیٹر، کیئر کوالٹی کمیشن (سی کیو سی) نے ایڈیسن کورٹ کی ’اچھی‘ درجہ بندی معطل کردی ہے۔
بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں سی کیو سی کا کہنا تھا کہ وہ ’ایڈیسن کورٹ اور اس فراہم کنندہ کے لیے رجسٹرڈ دیگر مقامات کی کڑی نگرانی کر رہا ہے۔‘
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر لوگوں کی حفاظت کے بارے میں فوری طور پر خدشات ہیں تو ’ہم لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال کریں گے۔‘
پریسٹوک کیئر کا کہنا ہے کہ اُن کے کام اور خدمات سے متعلق کوئی بھی تجویز کہ وہاں کام درست انداز میں نہیں ہو رہا غیر منصفانہ اور غلط ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ عملے کی حفاظت اور فلاح و بہبود سب سے اہم ہے اور کیئر ہوم ’تمام خدشات کی مکمل تحقیقات کرنے اور ضرورت کے مطابق مناسب کارروائی کرنے کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے۔‘
Comments are closed.