طیارہ حادثے کی دردناک کہانی: ’اپنے ساتھیوں کا گوشت کھا کر زندہ رہے، ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا‘

گستاو نکولچ

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES / COURTESY ALEJANDRO NICOLICH

،تصویر کا کیپشن

گستاو نکولچ اور حادثے کا شکار طیارہ

  • مصنف, فلپ لمیبیاز
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

‘ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تو ہم نے مردہ لوگوں کو کاٹنا اور انھیں کھانا شروع کر دیا۔’

یہ باتیں رگبی کے ایک کھلاڑی نے دنیا کی سب سے مہلک تباہی کو بیان کرتے ہوئے اپنے ایک خط میں لکھی ہے۔

یوروگوئے کے مونٹیویڈیو اولڈ کرسچن کلب کے رگبی کھلاڑی 13 اکتوبر سنہ 1972 کو چلی کے دارالحکومت سینٹیاگو سے اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ مختلف ممالک کی ٹیموں کے درمیان ہونے والے ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے۔

گستاو کوکو نکولچ ان میں سے ایک تھے۔ اس وقت ان کی عمر 20 سال تھی۔ یوراگوئے کی ایئر فورس کا طیارہ جس میں وہ سفر کر رہے تھے اینڈیز پہاڑی سلسلے میں گر کر تباہ ہو گیا۔

یہ ایک ایسا حادثہ تھا جو ہوا بازی کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گيا ہے اور ان کے حادثے کی خبر سامنے آنے پر دنیا صدمے میں آ گئی۔

حادثے میں طیارہ دو ٹکڑے ہو گیا۔ طیارہ سطح سمندر سے 3500 میٹر بلند اینڈیز پہاڑی سلسلے سے ٹکرانے کے بعد گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

اس دوران کچھ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ کئیوں نے انتہائی مشکل حالات میں اپنی جان بچائی۔

گستاو نکولچ

،تصویر کا ذریعہCOURTESY ALEJANDRO NICOLICH

،تصویر کا کیپشن

گستاو نکولچ

دنیا سے بہت دور، کچھ لوگ دن کے وقت انتہائی کم درجہ حرارت اور رات کو ناقابل برداشت سردی اور برفباری میں 72 دنوں تک زندگی اور موت کی جنگ لڑتے رہے۔

اس پرواز کے 40 مسافروں میں سے زیادہ تر رگبی کھلاڑی، ان کے خاندان کے افراد اور دوست تھے۔ ان کے علاوہ فلائٹ کے عملے کے پانچ ارکان بھی تھے۔

کوکو نکولچ نے اس حادثے کو اپنے دو خطوط میں بیان کیا ہے جس سے مردم خوری کا بھی پتہ چلتا ہے۔ مردم خوری دراصل زندگی بچانے کے لیے مردے کو کھانا ہے۔

انھوں نے برفانی ماحول میں خود کو زندرہ رکھنے کے لیے اپنے مردہ ساتھیوں کے گوشت کھائے تھے۔ ان کی تفصیلات نکولچ کے خطوط کے ذریعے سامنے آئیں۔

’اگر کسی کی جان بچانی ہے تو۔۔۔‘

نکولچ نے خط میں لکھا: ’میں نے خدا سے دعا کی کہ یہ وقت آج نہ آئے۔ لیکن وہ وقت آ گیا۔ اب ہمت اور ایمان کے ساتھ اس کا سامنا کرنا تھا۔ ہم ایمان کیوں کہتے ہیں۔۔۔ لاشیں موجود ہیں، ہمیں یقین ہے کہ خدا نے انھیں وہاں رکھا ہے۔ لیکن جب روح کی بات آتی ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ روح ہے اور اس پر پشیمان ہونے کی ضرورت ہے۔’

انھوں نے لکھا: ’اگر ایسا کوئی دن آتا ہے جب مجھے اپنے جسم سے کسی دوسرے کی جان بچانی پڑے تو۔۔۔ میں یہ خوشی سے کروں گا۔‘

اس دن زندہ بچ جانے والوں پر ہسپانوی زبان کی ایک فیچر فلم ’سوسائٹی آف دی سنو‘ ریلیز ہوئی ہے۔ اس فلم کو ہسپانوی ہدایت کار جے اے بیونا نے ڈائریکٹ کیا ہے۔

اس حادثے میں بچ جانے والوں میں سے ایک کے دوست صحافی پابلو ویرسی نے یہ فلم سنہ 2008 میں اسی نام سے لکھی گئی کتاب پر بنائی ہے۔ ویرسی اس فلم کے اسوسی ایٹ پروڈیوسر بھی ہیں۔

لاطینی امریکہ اور سپین میں ریلیز ہونے والی یہ فلم 4 جنوری کو نیٹ فلکس پلیٹ فارم پر دکھائی جائے گی۔

’سوسائٹی آف دی سنو‘ کو گولڈن گلوبز 2024 میں بہترین غیر ملکی زبان کی فلم کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ اس فلم کو سپین سے آسکر کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

اس فلم کو بنانے کے لیے سنہ 2011 سے لے کر اب تک جے اے بیونا کئی بار اس حادثے میں بچ جانے والوں سے بات کر چکے ہیں۔ اس فلم میں زیادہ تر اداکار ارجنٹینا اور یوراگوئے سے ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح پر بھی زیادہ مقبول نہیں ہیں۔

طیارہ حادثہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یہ حادثہ 13 اکتوبر سنہ 1972 کو پیش آیا تھا

نکولچ نے اپنے والدین اور گرل فرینڈ کو دو خط لکھے

نکولچ اولڈ کرسچن کلب کے رگبی کھلاڑیوں میں سے ایک تھے۔ جبکہ سٹیلا مارس پرائیوٹ کیتھولک سکول کے سابق طالب علموں میں سے ایک ہیں۔ وہ چلی کے اولڈ بوائز سے کھیلنے گئے تھے۔

گوستو نکولچ کو لکھنے سے محبت ہے۔ اس لیے وہ خطوط کے ذریعے اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کو قلمبند کرتے رہے۔

دو خطوط میں سے ایک انھوں نے اپنے والدین اور تین بھائیوں کے نام لکھا تھا جبکہ دوسرا خصوصی طور پر اپنی گرل فرینڈ کو لکھا تھا۔ ان میں انھوں نے کچھ نکات کو بہت حساس انداز میں بیان کیا۔ خاص طور پر اس خط کے شروع میں برفانی تودے کو حیرت انگیز طور پر بیان کیا گیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’ہمارے اردگرد برف کے تودے ہیں، الفاظ اس خوبصورت ماحول کو بیان نہیں کر سکتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اگر وہ برف پگھلنا شروع ہو جائے تو یہ ایک جھیل میں تبدیل ہو جائے گا۔‘

فلائٹ 571 میں 45 مسافر سوار تھے۔ حادثے کے دن ہی 18 کی موت ہو گئی۔

یہ 21 اکتوبر 1972 کا دن تھا۔ انھوں نے ابھی لاشیں کھانا شروع نہیں کی تھیں۔ لیکن اس کے بعد طیارے میں کھانا ختم ہونے پر کچھ لوگوں نے مرنے والوں کا گوشت کھا کر اپنی جان بچائی۔

خط

،تصویر کا ذریعہANDES MUSEUM 1972

،تصویر کا کیپشن

گستاو نکولچ کے دو خطوط میں سے ایک کو عوام کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے

راستے کی تبدیلی کے متعلق اس خط میں کیا ہے؟

نکولچ نے خط میں جہاز کا رخ موڑنے کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ اس دن موسم کی صورتحال ٹھیک نہیں تھی۔ چنانچہ پائلٹ اور شریک پائلٹ نے براہ راست سینٹیاگو نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ پہلے تو وہ ساؤتھ فرسٹ کے مشکل ترین راستے پر سفر کرنا چاہتے تھے۔ جہاں پہاڑی سلسلے ہیں جن کو عبور کرنا ہے۔

نکولچ نے لکھا: ’آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہم کیسے زندہ رہے؟ ہاں، ہوائی جہاز کے حادثے کے وقت تک سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ شاید اس وقت ہمارا ہوٹل کوئی بڑا ہوٹل نہ تھا لیکن، یہ رہنے کے لیے ایک مثالی جگہ تھی۔

’ہمارے پاس پانی ہے۔ خوش قسمتی سے کوسٹمار کا ایک کین، کینڈی کے دو کین، سمندری غذا کے تین کین، کچھ چاکلیٹ، اور وہسکی کی دو بوتلیں تھیں۔ ہاں، وہ کھانا ہمارے لیے اچھا نہیں تھا لیکن، یہ زندہ رہنے کے لیے کافی ہے۔‘

ایک مسافر جس کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو وہ تین دن تک مونگ پھلی کی چاکلیٹ سے پیٹ بھرتا رہا۔ پہلے دن اس نے چاکلیٹ کی کوٹنگ کھائی اور مونگ پھلی اپنی جیب میں چھپا لی۔ دوسرے دن اس نے مونگ پھلی کے دو حصے کیے اور ایک آدھا دوسرے دن اور دوسرا آدھا تیسرے دن کھا لیا۔

یہ بھی پڑھیے

مرنے والوں کے سامان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

طیارہ حادثے میں مرنے والوں کے سامان

درد اور تکلیف کے باوجود عزم

اپنے خطوط میں نکولچ نے طیارے کے حادثے کے بعد پہلے دن محسوس ہونے والے درد کو بیان کیا ہے۔

انھوں نے لکھا: ’میں اس سردی میں مر رہا ہوں۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ میں نے ایک دوست کھلاڑی رومن مونچو سبیلا سے کہا کہ میں جم رہا ہوں۔ ان کے قریب ہی ایک لاش پڑی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کس کی لاش ہے۔ ایک آدمی سیٹ اور لوہے کے درمیان مر کر پھنسا ہوا ہے۔’

مونچو نکولچ پر چڑھ جاتا ہے اور اسے زور سے لات مارتا ہے جس کی وجہ سے نکولچ کے جسم کے درجہ حرارت میں تھوڑا سا اضافہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے جسم کے درجہ حرارت کو برقرار رکھنے کے لیے اگلے چند دنوں تک ایک دوسرے کو اسی طرح لات مارتے رہے۔

ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑنے، اور کبھی جیبوں میں ڈالنے اور زور زور سے سانس لینے سے انھیں کچھ گرمی ملتی رہی۔

انھوں نے بتایا کہ انھیں دھیرے دھیرے اس طرح کرنے سے قدرے آرام آتا تھا۔

اس خط میں انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ اگر وہ قسمت سے مونٹیویڈیو واپس آ جاتے ہیں تو وہ اپنی گرل فرینڈ سے شادی کر لیں گے، بشرطیکہ ان کی گرل فرینڈ بھی راضی ہو۔

انھوں نے لکھا: ’میں اس سے آگے نہیں سوچ سکتا۔ کیونکہ رونا آ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مت رو، اس سے آپ کو پانی کی کمی ہو جائے گی۔ کیا یہ واقعی حیرت انگیز نہیں ہے۔’

زندہ بچ جانے والے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

زندہ بچ جانے والے

نکولچ کے دوسرے خط میں کیا ہے؟

نکولچ نے دوسرا خط خاص طور پر اپنی محبوبہ روزینا مکائتلی کو لکھا۔ انھوں نے اس خط میں لکھا کہ ’آج ایک شاندار دن تھا۔ سورج طلوع ہوا، اور اس کی کرنیں ہم پر پڑ رہی ہیں۔‘

انھوں نے لکھا کہ اگرچہ بہت سے لوگ مایوس ہیں لیکن وہ مایوس نہیں ہیں۔ انھوں نے بیان کیا کہ وہ جو دیکھ رہے ہیں اگر وہ اس کے بارے میں سوچ بھی رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی حیرت انگیز قوت ہے۔

انھوں نے لکھا: ‘ہمارے پاس جو کھانا ہے وہ ختم ہو جائے گا۔ اس بات نے بھی سب کو مایوس کر رکھا ہے۔ ہمارے پاس سمندری غذا کے صرف دو کین، سفید شراب کی ایک بوتل اور کچھ گرینیڈائن (بکرے کا گوشت اور چاول) ہے۔ 26 لوگوں کو ان کی ضرورت ہے، ہمارے پاس اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔’

نکولچ نے اپنی گرل فرینڈ کو یہ بھی لکھا کہ انھوں نے کھانے کے لیے کیا کیا نہ کیا۔

‘ایک چیز جو آپ کو حیران کر سکتی ہے وہ یہ ہے آج ہم نے لاشوں کا گوشت کھانا شروع کر دیا ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

انھوں نے وضاحت کی کہ ‘اگر میں مر جاتا ہوں اور مجھے کھا کر کچھ لوگ زندہ رہ سکتے ہیں تو میں اس کے لیے تیار ہوں تاکہ دوسرے زندہ رہ سکیں۔’

انھوں نے مزید لکھا: ‘مجھے دیکھ کر آپ ڈر جائیں گے۔ میں تلخ ہو گیا ہوں، میری داڑھی بڑھ گئی ہے، میں پھنسا ہوا ہوں، میرے سر پر بڑی چوٹ آئی ہے، ایک چوٹ ماتھے پر ہے لیکن ٹانگوں، گردن، کندھوں پر معمولی زخم ہے، تاہم میں ہوں ٹھیک ہوں۔’

انھوں نے سانحے کے بارے میں بات کرتے ہوئے خوفزدہ نہ ہونے کے کچھ مثبت پہلوؤں کا بھی ذکر کیا۔

نیٹ فلکس پر ریلیز ہونے والی فلم کا ایک منظر

،تصویر کا ذریعہNETFLIX

،تصویر کا کیپشن

نیٹ فلکس پر ریلیز ہونے والی فلم کا ایک منظر

یہ وہ قوت ارادی تھی جس نے انھیں زندہ رکھا

آخر میں انھوں نے اس امید کا ذکر کیا کہ انھیں زندہ رہنا ہے۔ رگبی کے کھلاڑی روبرٹو کینیسا اور فرنینڈو پیراڈو مدد کے لیے دس دن تک چلتے رہے۔ امدادی کارکنوں نے طیارہ حادثے کے 72 روز بعد پہاڑوں میں پھنسے 16 افراد کو بچا لیا۔

اگرچہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ طیارہ کہاں گر کر تباہ ہوا تھا تاہم ریسکیو ٹیموں نے کئی دنوں تک برفانی پہاڑوں میں ملبے اور لاپتہ مسافروں کی تلاش کی۔ چونکہ ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ملا اس لیے چلی کے فضائی ریسکیو اہلکاروں نے اعلان کیا کہ وہ امدادی کارروائیاں معطل کر رہے ہیں۔

سب کا خیال تھا کہ سارے کے سارے مسافر اس حادثے میں مر گئے ہوں گے۔

تاہم اپنی جان بچانے کے لیے پرعزم رگبی کھلاڑیوں نے دھات کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے سے باہر کی دنیا کی نشریات سننے کے لیے ایک آلہ تیار کیا۔ نکولچ نے سنا کہ وہ ریڈیو پر کیا بات کر رہے تھے۔ انھوں نے بھاگ کر اپنے دوستوں کو اس کے بارے میں بتایا۔

انھوں نے کہا: ‘میرے پاس آپ کے لیے دو خبریں ہیں۔ ایک اچھی خبر، دوسری بری خبر۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انھوں نے ہمیں ڈھونڈنا چھوڑ دیا ہے۔ اور اچھی خبر یہ ہے کہ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہمیں جینا ہے یا مرنا۔’

نیٹ فلکس پر ریلیز ہونے والی فلم کا ایک منظر

،تصویر کا ذریعہNETFLIX

،تصویر کا کیپشن

نیٹ فلکس پر ریلیز ہونے والی فلم کا ایک منظر

اینڈیز کے پہاڑوں میں ایک عجوبہ

دوسری جانب چلی میں گستاو نکولچ کے والد اپنے بیٹے کو شدت سے اس امید پر تلاش کرتے رہے کہ وہ انھیں ایک نہ ایک دن مل جائے گا۔

یہ دسمبر سنہ 1972 کا ایک دن تھا۔ کرسمس قریب آ رہا تھا۔ اس وقت یہ خبریں آئی کہ کچھ یوروگوئے کے لوگ پہاڑی سلسلے کے بیچ میں دیکھے گئے ہیں۔ اس خبر نے ان کے خاندان کو امید دلائی۔

زندہ بچ جانے والوں میں گستاو نکولچ کا نام سننے کے بعد ان کی والدہ راکیل آروسینا ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کے بغیر پہلی پرواز لے کر سینٹیاگو پہنچ گئیں۔

راکیل آروسینا جیسے ہی ہسپتال پہنچی لفٹ کا دروازہ کھلا اور اس میں سے گستاو زربینو نمودار ہوئے۔ اس وقت نکولچ کی والدہ زور سے رو پڑیں۔ اسے معلوم ہوا کہ فہرست میں موجود نام ان کے بیٹے کا نہیں ہے۔

گستاو کوکو نکولچ اور سات دیگر افراد کی موت 29 اکتوبر کو برف کے تودے ٹوٹنے سے ہوگئی تھی۔

گستاو زربینو نے انھیں تسلی دی، انھیں چوما اور کہا: ‘آپ کے بیٹے نے آپ کے لیے خط لکھا ہے۔’

زربینو نے مرنے والوں کی جیبوں سے خطوط اور سامان اکٹھا کیا اور لواحقین کے حوالے کردیا۔

مصنف پابلو ویرسی ڈینیئل اور زندہ بچ جانے والے فرنانڈیز اسٹراؤچ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مصنف پابلو ویرسی ڈینیئل اور زندہ بچ جانے والے فرنانڈیز اسٹراؤچ

‘اسے بس اتنا ہی کرنا تھا’

زربینو نے محسوس کیا کہ اسے اتنا ہی کرنا تھا۔

گستاو نکولچ نے زربینو سے کہا کہ اگر وہ مر جاتا ہے تو یہ خط وہ اس کے خاندان کو دے دیں۔

اس کے والدین اور خاندان کے افراد نے یہ خطوط پڑھے۔ ان کے بھائی الیجینڈرو نے بی بی سی کو بتایا کہ نکولچ نے بجھے دل کے ساتھ خطوط لکھے۔

‘میرے بھائی نے جو کیا اس پر مجھے فخر ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس نے کیا کیا۔ اس نے مردم خوری کے بارے میں لکھا ہے اور ہم نے اسے سمجھا ہے۔ اسی وجہ سے میرے والد ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو زندہ بچ جانے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔’

گستاو نکولچ سینیئر نے فروری سنہ 1973 میں ایک اور مردہ شخص کے والد کے ساتھ پہاڑوں کا سفر کیا۔ وہ اپنے بیٹے کی باقیات کو یوراگوئے میں دفن کرنا چاہتے تھے۔

جب وہ واپس آئے تو بہت مختلف نظر آئے۔ دوسرے خط میں لکھی گئی کچھ باتیں عوام کے لیے دستیاب کر دی گئیں۔

اگرچہ کچھ زندہ بچ جانے والوں نے ان معاملات کے بارے میں بات کی ہے لیکن نکولچ کے والدین نے آدم خوری کے معاملات کو نجی رکھا ہے۔

نکولچ کی ماں نے ان دونوں خطوط کو محفوظ طریقے سے ایک دراز میں چھپا رکھا ہے اور وہ اب 96 برس کی ہو چکی ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ