غزہ کے نیچے موجود حماس کی خفیہ سرنگوں کی بھول بھلیاں جو اسرائیل کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں
،تصویر کا ذریعہGetty
حماس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی سرنگیں 500 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں
- مصنف, ڈیوڈ گرٹن
- عہدہ, بی بی سی نیوز
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کے جواب میں غزہ کی پٹی کے نیچے تعمیر کی گئی سرنگوں کی خفیہ بھول بھلیوں کے کچھ حصوں پر حملہ کر رہا ہے۔
اسرائیل ڈیفنس فورسز کے ترجمان نے جمعرات کو ایک ویڈیو میں کہا کہ ’سمجھیں کہ غزہ کی پٹی میں شہریوں کے لیے ایک پرت ہے اور پھر حماس کے لیے دوسری پرت۔ ہم اس دوسری پرت تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حماس نے بنائی ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ غزہ کے شہریوں کے لیے بنائے گئے بنکر نہیں ہیں۔ یہ صرف حماس اور دیگر دہشت گردوں کے لیے ہیں تاکہ وہ اسرائیل پر راکٹ داغتے، کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے اور دہشت گردوں کو اسرائیل میں داخل کرتے رہیں۔‘
سرنگوں کے اس نیٹ ورک کے حجم کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، جسے اسرائیل نے ’غزہ میٹرو‘ کا نام دیا ہے کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسے علاقے کے نیچے پھیلی ہوئی ہیں جو صرف 41 کلومیٹر طویل اور 10 کلومیٹر چوڑا ہے۔
2021 میں ہونے والی لڑائی کے بعد، اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس نے فضائی حملوں میں 100 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرنگوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اس دوران حماس نے دعویٰ کیا کہ اس کی سرنگیں 500 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور صرف پانچ فیصد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار کو تناظر میں رکھنے کے لیے جانیں کہ لندن کا انڈر گراؤنڈ ٹرین سسٹم 400 کلومیٹر لمبا ہے اور زیادہ تر زمین سے اوپر ہے۔
غزہ میں سرنگوں کی تعمیر کا عمل سنہ 2005 میں اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے انخلا سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا لیکن دو سال بعد حماس کی جانب سے علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس میں تیزی لائی گئی، جس کی وجہ سے اسرائیل اور مصر نے حفاظتی وجوہات کی بنا پر سامان اور لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا شروع کی۔
اپنے عروج پر، مصری سرحد کے نیچے چلنے والی تقریباً 2500 سرنگوں کو حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے تجارتی سامان، ایندھن اور ہتھیاروں کی سمگلنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔
2010 کے بعد غزہ کے لیے اس سمگلنگ کی اہمیت اس وقت کم ہو گئی، جب اسرائیل نے اپنی کراسنگ کے ذریعے سامان درآمد کرنے کی اجازت دینا شروع کی۔ مصر نے بعد میں ان سرنگوں کو پانی چھوڑ کر یا تباہ کر کے سمگلنگ کا سلسلہ بند کر دیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty
غزہ میں سرنگوں کی تعمیر کا عمل سنہ 2005 میں اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے انخلا سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا
حماس اور دیگر دھڑوں نے اسرائیلی افواج پر حملوں کے لیے بھی سرنگیں کھودیں۔
2006 میں، عسکریت پسندوں نے اسرائیل کے ساتھ سرحد کے نیچے ایسی ہی ایک سرنگ کا استعمال کرتے ہوئے دو اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا اور تیسرے فوجی گیلاد شالیت کو پکڑ لیا، جسے انھوں نے پانچ سال تک قید رکھا۔
2013 میں، اسرائیلی فوج نے ایک 1.6 کلومیٹر لمبی، 18 میٹر گہری ایسی سرنگ دریافت کی جس میں کنکریٹ کی چھت اور دیواریں تھیں اور جو غزہ کی پٹی سے اسرائیلی کبوتز کے قریب تک جاتی تھی۔
اگلے سال اسرائیل نے غزہ میں ایک بڑی فضائی اور زمینی کارروائی کے لیے سرحد کے نیچے ایسی ’دہشت گردی کی سرنگوں‘ کی موجودگی اور استعمال کو بطور حوالہ استعمال کرنے کی بات کی۔
آئی ڈی ایف نے کہا کہ اس کے فوجیوں نے جنگ کے دوران 30 سے زائد سرنگوں کو تباہ کیا لیکن عسکریت پسندوں کا ایک گروپ حملہ کرنے کے لیے ایک سرنگ کو استعمال کرنے میں کامیاب رہا جس میں چار اسرائیلی فوجی مارے گئے۔
زیر زمین جنگ کی ماہر اور اسرائیل کی ریخمین یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر ڈیفنی رچمنڈ باراک کے مطابق ’سرحد کے آر پار بنائی گئی سرنگیں شکل میں بہت بنیادی ہوتی ہیں، یعنی انھیں بمشکل محفوظ بنایا جاتا ہے۔ وہ ایک بار استعمال کے مقصد کے لیے کھودی جاتی ہیں اور ان کا مقصد ’اسرائیلی سرزمین پر حملہ کرنا‘ ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’غزہ کے اندر کی سرنگیں مختلف ہیں کیونکہ حماس انھیں مستقل بنیادوں پر استعمال کر رہی ہے۔ وہ شاید زیادہ دیر تک قیام کے لیے زیادہ آرام دہ ہیں۔ وہ یقینی طور پر طویل اور پائیدار موجودگی کے لیے بنائی گئی ہیں۔‘
’رہنما وہاں چھپے ہوئے ہیں، ان کے پاس کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز ہیں، وہ انھیں نقل و حمل اور مواصلات کی لائنوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ بجلی، روشنی اور ریل کی پٹریوں سے لیس ہیں۔ آپ ان میں گھوم پھر سکتے ہیں اور آرام سے کھڑے ہو سکتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ حماس نے حالیہ برسوں میں سرنگوں کی تعمیر اور جنگ کے فن میں کمال حاصل کر لیا ہے۔ انھوں نے حلب میں شامی باغی جنگجوؤں اور موصل میں دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کی حکمت عملیوں کا مشاہدہ کر کے بہت کچھ سیکھا ہے۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ غزہ کے اندر سرنگیں سطح سے 30 میٹر (100 فٹ) نیچے ہیں اور ان کے داخلی دروازے مکانات، مساجد، اسکولوں اور دیگر عوامی عمارتوں کی نچلی منزلوں پر واقع ہیں تاکہ عسکریت پسند نشاندہی سے بچ سکیں۔
اس نیٹ ورک کی تعمیر کی قیمت مقامی آبادی نے بھی ادا کی ہے۔ اسرائیلی فوج حماس پر الزام لگاتی ہے کہ اس نے غزہ کو ملنے والی لاکھوں ڈالر کی امداد اور ماضی کی لڑائیوں میں تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر نو کے لیے دیے گئے لاکھوں ٹن سیمنٹ کو سرنگوں کی تعمیر میں استعمال کیا۔
یہ عین ممکن ہے کہ اسرائیل میں گذشتہ ہفتے کے آخر میں ہونے والے حملوں کے دوران حماس کے عسکریت پسندوں کی طرف سے سرحد کے آر پار بنائی گئی سرنگ کا استعمال کیا گیا ہو۔
ایسی اطلاعات تھیں کہ کفار عزہ کے کبوتز کے قریب ایک سرنگ کا دہانہ دریافت ہوا ہے۔ اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ سرنگ زیر زمین کنکریٹ کی رکاوٹ کے نیچے بنائی گئی ہو گی جس میں جدید ترین اینٹی ٹنل ڈٹیکشن سینسر لگے ہوں گے جو اسرائیل نے 2021 کے آخر میں نصب کر لیے تھے۔
ڈاکٹر ڈیفنی باراک کا کہنا ہے کہ یہ ایک دھچکا ہوگا لیکن وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ سرنگ کی نشاندہی کا کوئی بھی نظام فول پروف نہیں ہے۔ ’یہی وجہ ہے کہ سرنگوں کو قدیم زمانے سے جنگوں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے، کیونکہ ان کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ اور عام لوگ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے لیے غزہ میں حماس کے سرنگوں کے پورے نیٹ ورک کو تباہ کرنا ممکن ہو گا تو یہ خام خیالی ہے۔
’سرنگوں کے نیٹ ورک کے کچھ حصے ہوں گے جہاں سے شہری، کسی بھی وجہ سے، انخلا نہیں کریں گے۔۔۔ زیر زمین نیٹ ورک کے کچھ حصے نامعلوم ہیں۔ اور ان میں سے کچھ میں کارروائی کے نتیجے میں عام شہریوں کے جانی نقصانات بہت زیادہ ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سرنگوں کو تباہ کرنے سے زمین پر موجود اسرائیلی افواج، فلسطینی شہریوں اور یرغمالیوں کا بھی جانی نقصان ہو گا۔‘
ڈاکٹر ڈیفنی باراک کہتی ہیں، ’حماس انسانی ڈھال استعمال کرنے کے معاملے میں بہت اچھی ہے۔ ایک بار جب حملہ یقینی ہو جائے گا اور وہ جان جائیں گے، تو وہ شہریوں کو عمارتوں کے اوپر چڑھا دیں گے۔ اور اس عمل نے اسرائیل کو کئی بار حملے منسوخ کرنے پر مجبور کیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس تکنیک کے تحت حماس باآسانی اسے سرنگوں کے تناظر میں استعمال کر سکتی ہے اور اسرائیلی، امریکی اور دیگر یرغمالیوں کو ان کے اندر رکھ سکتی ہے۔‘
2021 کے تنازعے کے دوران، غزہ شہر میں تباہ کن فضائی حملوں کے ایک سلسلے نے تین رہائشی عمارتیں زمین بوس ہوئیں، جس سے 42 افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے اس وقت کہا کہ اس نے زیر زمین سرنگوں کو نشانہ بنایا، لیکن جب وہ بیٹھیں تو عمارتوں کی بنیادیں بھی زمین بوس ہو گئیں۔
،تصویر کا ذریعہAFP
ماہرین کے مطابق یہ سوچ کہ اسرائیلی فوج کے لیے غزہ میں حماس کے سرنگوں کے پورے نیٹ ورک کو تباہ کرنا ممکن ہو گا خام خیالی ہے
ڈاکٹر باراک کا کہنا ہے کہ سرنگوں کا یہ جال اس سبقت کو بھی ختم کر دے گا جو ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس کے لحاظ سے اسرائیلی فوج کو حاصل ہے، یہ شہری جنگ کی مشکلات کو بڑھا دے گا، اور اسرائیلی فوجیوں کے لیے ایک مہلک خطرہ ثابت ہو گا۔
’سب سے پہلے، حماس کے پاس پورے نیٹ ورک کو بوبی ٹریپ کرنے کے لیے کافی وقت ہے۔ وہ فوجیوں کو سرنگوں میں داخل ہونے دے سکتے ہیں اور پھر آخرکار پوری چیز کو اڑا سکتے ہیں۔
’وہ (اچانک حملوں میں فوجیوں کو) اغوا کر سکتے ہیں اور پھر دیگر تمام خطرات ہیں- جیسے آکسیجن کا ختم ہونا، دشمن سے دوبدو لڑائی اور زخمی فوجیوں کو بچانا بھی عملی طور پر ناممکن ہو جاتا ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں: ’یہاں تک کہ اگر آپ سرنگ کے اندر نہیں جاتے ہیں، تو کسی ایسے علاقے کو محفوظ بنانا جہاں آپ کو شبہ ہو کہ سرنگیں موجود ہو سکتی ہیں، عام طور پر کسی دیگر علاقے کو محفوظ کرنے سے بہت مختلف ہے۔ یہاں، آپ کو کسی ایسی چیز کو محفوظ کرنا ہو گا جو نظر نہیں آ رہی۔‘
تاہم اسرائیلی افواج کے پاس ان خطرات کو کم کرنے کے کچھ طریقے ہوں گے۔
سوفن گروپ سکیورٹی کنسلٹنسی کے ڈائریکٹر ریسرچ کولن کلارک کے مطابق، ان میں ڈرونز اور ریموٹ کنٹرول گاڑیوں کو سرنگوں میں بھیجنا شامل ہو سکتا ہے تاکہ وہ وہاں نصب دھماکہ خیز مواد کی نشاندہی کر سکیں۔
’جنگی طیارے بنکر بسٹنگ بم بھی گرا سکتے ہیں، جو دھماکہ کرنے سے پہلے زمین کی گہرائی میں گھس جاتے ہیں۔ تاہم، گنجان آباد شہری خطوں کی وجہ سے اس سے عام شہریوں کے جانی نقصان کا خطرات لاحق ہوں گے۔‘
Comments are closed.