یوم کپور: عرب ممالک کا وہ حملہ جس نے ’ناقابلِ تسخیر‘ اسرائیل کی سالمیت کو خطرے میں ڈالا

یوم کپور جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, اینجل برموڈیز
  • عہدہ, بی بی سی منڈو

جب تک خطرے کے الارم بجے تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

دو مختلف محاذوں پر مصری اور شامی افواج کے مشترکہ حملے نے اسرائیل کو خطرے میں مبتلا کر دیا تھا۔ ’یوم کپور‘ جیسے مقدس روز اسرائیل کو ایک بڑی جنگ کا سامنا تھا۔

یہ عبرانی کیلنڈر میں سب سے مقدس تاریخ ہے مگر اس دن اسرائیل مفلوج ہو گیا تھا۔ سڑکوں پر کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں تھی اور نہ ہی میڈیا میں نشریات چل رہی تھی۔ اکثر شہریوں نے ’یوم کپور‘ کی مناسبت سے روزہ رکھا ہوا تھا اور بعض عبادت گاہوں میں عبادت کرنے میں مصروف تھے۔

مگر جنگ کی ابتدا ہونے کے چند منٹوں کے اندر ہزاروں اسرائیلی ریزرو فوجی گھروں اور عبادت گاہوں کو چھوڑ کر محاذوں کی جانب روانہ ہو گئے۔

اس وقت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سنہ 1967 کی طرح ایک مختصر اور آسان جنگ ہو گی، جب صرف چھ دنوں میں اسرائیل نے مصر، اردن اور شام کی فوجوں کو شکست دی تھی۔

لیکن اس بار حالات مختلف تھے۔

مصری صدر انور سادات کی حکومت نے شام کے صدر حافظ الاسد کے ساتھ مل کر جس جارحانہ کارروائی کا منصوبہ بنایا تھا وہ ناصرف اسرائیل کی دفاعی صفوں کو تباہ کرنے والا تھا بلکہ اسرائیلی رہنماؤں کو یہ احساس دلانے کے قابل ہوا کہ اسرائیل کی بقا خطرے میں ہے، جیسا کہ 1948 کی جنگ آزادی میں ہوا تھا۔

اس جنگ میں اسرائیل کو 1948 کے بعد سب سے زیادہ نقصان جھیلنا پڑا: مجموعی طور پر اس کے 2,656 فوجی ہلاک ہوئے، 15,000 زخمی جبکہ تقریباً 1,000 جنگی قیدی بنائے گئے۔

یوم کپور جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسرائیل کی وزیراعظم گولڈا میئر

اچانک حملے کی تنبیہ

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

نصف صدی قبل 6 اکتوبر 1973 کو شروع ہونے والی جنگ اسرائیل اور اس کے عرب پڑوسیوں کے درمیان ہونے والی چوتھی جنگ تھی۔

حیرت انگیز طور پر یہ ایک ایسا تنازع تھا جس کی اسرائیلی قیادت کو توقع تھی اور جس کی تیاری کے بارے میں اس وقت کی وزیر اعظم گولڈا میئر کی حکومت نے پچھلے مہینوں میں اشارے ملے تھے۔

حملے کی صبح حکومت کو ’دشمن‘ کے قریب آنے کی اطلاع ملی تھی تاہم اسرائیلی حکام کو توقع تھی کہ فوراً کوئی حملہ نہیں ہو گا۔

اس کی وجہ گذشتہ جنگیں تھیں، خاص کر چھ روزہ جنگ۔ بہت سی چیزیں تبدیل ہوچکی تھیں۔ اسرائیل نے جزیرہ نما سینائی، غزہ کی پٹی، گولان ہائٹس، مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کو اپنے اندر ضم کر کے اپنے زیر کنٹرول علاقے کا حجم بڑھا لیا تھا۔

مگر اس اقدام نے مزید تصادم کے بیج بوئے کیونکہ نہ تو مصر اور نہ ہی شام نے اسرائیل کے ان اقدامات کو قبول کیا۔

سنہ 1967 کا تنازع اسرائیل کی فوجی حکمت عملی اور یوم کپور جنگ (جسے رمضان جنگ بھی کہا جاتا ہے) پر اثر انداز ہوا تھا۔ 1967 میں فضا اور بکتر بند گاڑیوں کی وجہ سے سبقت ملنے کے بعد اسرائیل نے اپنی توجہ اسی طرف رکھی ہوئی تھی۔

سنہ 2003 میں شائع کردہ سابق یو ایس میرین کور کپتان کیتھ ایف کوپیٹس نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ ’اسرائیل کی دفاعی افواج نے اپنے تمام انڈے دو ٹوکریوں میں رکھے ہوئے تھے: اس نے اپنے بجٹ کا 75 فیصد سے زیادہ صرف فضائیہ اور بکتر بند شاخوں کے لیے وقف کیا۔ انھوں نے اپنی آرٹلری اور پیدل فوج کی شاخوں کو نظر انداز کر دیا تھا، اپنے زیادہ تر باقاعدہ اور مشینی انفنٹری یونٹوں کو ریزرو میں منتقل کر دیا تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس بات پر یقین کرتے ہویے کہ صرف ایک ٹینک ہی دوسرے ٹینک کو شکست دے سکتا ہے، اسرائیل نے امریکہ کی جانب سے نئے اینٹی ٹینک میزائل سسٹم کی فراہمی کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔‘

اور جیسا کہ بعد میں واضح ہوا، یہ غلطی اسرائیل کو بہت مہنگی پڑی۔

یوم کپور جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مصر کے سابق صدر انور سادات

ایک غلط ’تصور‘

اسرائیل کا وزیر دفاع موشے دایان اور اسرائیلی فوجی رہنماؤں نے اپنی دفاعی حکمت عملی کی بنیاد اس خیال پر رکھی کہ مصر اس وقت تک حملہ نہیں کرے گا جب تک اس کے پاس اسرائیل جیسی طاقتور فضائیہ نہ ہو۔

سنہ 1967 کے آغاز میں اسرائیلی فوج نے یہ ’تصور‘ قائم کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ مصر کے پاس فضائی طاقت ہونے سے پہلے جنگ شروع نہیں ہو گی۔ یہ اپنی فضائی قوت قائم کرنے کے بعد ہی اسرائیل کی سرزمین کے اندر بڑا حملہ کر سکے گا جس میں ہوائی اڈے اور فضائیہ کو نقصان پہنچایا جائے گا۔

پی آر کمارسوامی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’یہ مفروضہ جون [1967] کی جنگ میں اسرائیل کی آپریشنل کامیابیوں اور عرب سٹریٹجک پوزیشنز کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔‘

اسرائیلی فوج کا اندازہ تھا کہ مصر 1975 تک فضائی صلاحیت حاصل نہیں کر پائے گا۔

اسرائیل کو لگتا تھا کہ اس کے دشمن 1967 میں کھوئے ہوئے علاقوں کی وجہ سے اب مزید دور ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے نہر کے مشرقی کنارے کے ساتھ قلعہ بند عمارتوں کا ایک سلسلہ تعمیر کیا جسے ’بار لیو لائن‘ کہا جاتا ہے۔

یوم کپور جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کئی تجزیہ کاروں کے مطابق 1967 کی کامیابی کے بعد اسرائیل یوم کپور جنگ کی تیاری روک چکا تھا۔ اسرائیلی فوجی قیادت ’مغرور‘ ہو گئی تھی اور اس نے عرب فورسز کے خطرے کو نظر انداز کیا۔

نو اگست 1973 کو کی گئی ایک تقریر میں اسرائیل کے اس وقت کے وزیر دفاع موشے دایان نے عربوں پر فوقیت کا اظہار کیا تھا۔

انھوں نے اسرائیلی آرمی سٹاف کالج کے افسران کو بتایا کہ ’ہماری فوجی برتری عربوں کی کمزوری اور ہماری طاقت کا دوہرا نتیجہ ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ان کی کمزوری ان عوامل سے پیدا ہوتی ہے جو جلد تبدیل نہیں ہوں گے۔۔۔ تعلیم کی کم سطح، ٹیکنالوجی اور اس کے فوجیوں کی سالمیت۔۔۔ عربوں کے درمیان اختلاف۔۔۔ اور انتہائی درجے کی قوم پرستی۔‘

مشہور قول ہے کہ ایک جرنیل گذشتہ جنگ لڑ رہا ہوتا ہے، اگلی جنگ نہیں اور دایان کے خیالات یہی ظاہر کر رہے تھے۔

یوم کپور جنگ

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجی

ایک بڑا حملہ

صدر انور سادات کی حکومت نے جارحانہ حملے کی تیاری میں کئی سال احتیاط سے گزارے تھے۔

چھ کتوبر 1973 کو دوپہر دو بجے کے قریب مصری افواج نے اسرائیل پر حملہ شروع کیا جس میں 240 طیارے، 2000 ٹینک، تقریباً 1000 توپ خانے اور تقریباً 2000 اینٹی ٹینک بندوقیں اور میزائل لانچر شامل تھے۔

فضائی بمباری تقریباً 20 منٹ تک چلی تاہم توپیں مزید آدھے گھنٹے تک گولے برساتی رہیں۔

مصر نے نہر سوئز کے مشرقی کنارے پر اسرائیل کی طرف سے تعینات کیے گئے دفاع کو کمزور کر دیا اور اسے عبور کرنے کے لیے آپریشن شروع کر دیا۔

اسرائیلی حکمت کاروں نے اندازہ لگایا کہ بھاری ہتھیاروں کے ساتھ اس سمندری راستے کو عبور کرنے کے لیے مصر کو کم از کم 48 گھنٹے درکار ہوں گے اور اس عرصے میں وہ حملہ روک سکتے ہیں۔ مگر یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہوا۔

صرف 10 گھنٹوں میں مصری افواج نہر سویز پر عارضی پلوں کو تعینات کرنے میں کامیاب ہو گئیں جس سے 500 ٹینکوں کو عبور کرنے میں مدد ملی۔ جارحیت کے 24 گھنٹے بعد ان کے پاس سینائی میں پہلے سے ہی دو مشینی ڈویژن اور دو انفنٹری ڈویژن موجود تھے۔

بار لیو لائن گھنٹوں میں گِر گئی۔ اس کا دفاع کرنے والے 500 فوجیوں میں سے زیادہ تر مارے گئے یا پکڑے گئے۔

اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے نہر سوئز کی طرف زمینی افواج بھیجی تھیں مگر انھیں بھی کچل دیا گیا۔ جبکہ اس کی فضائیہ کو اس وقت شدید نقصان پہنچا جب اس نے اپنے مخالف کے طیارہ شکن دفاع کو پہلے ناکارہ کیے بغیر لڑائی میں حصہ لیا۔

یوم کپور جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آٹھ اکتوبر کو اسرائیل نے ایک ناکام جوابی حملہ کیا جس کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان ہوا: 180 ٹینکوں کو مصری ٹینک شکن دفاع اور توپ خانے نے تباہ کر دیا۔

اسرائیلی دفاعی منصوبہ بندی میں غلطیوں اور اس حقیقت کے ساتھ کہ ان پر بیک وقت دو محاذوں پر حملہ کیا جا رہا تھا، ایک تیسرا مسئلہ درپیش تھا۔ کامیاب جوابی کارروائی کو انجام دینے کے لیے ہتھیاروں اور دیگر سامان کی رسد میں کمی آئی تھی۔

قبل از وقت حملہ نہ کرنے پر اسرائیل کو فوجی اور انسانی قیمت ادا کرنا پڑی۔

یہ فیصلہ فوجی رہنماؤں کے غلط اندازوں پر مبنی تھا جس میں قومی ہیرو سمجھے جانے والے موشے دیان شامل تھے۔ گولڈا میئر کا اندازہ تھا کہ اسرائیل کو اپنی جارحانہ شناخت بدلنی ہو گی تاکہ بیرونی مدد حاصل ہونے کا موقع پیدا ہو۔

اور اسی ضمن میں اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی حکومت کے ساتھ پہلے حملے نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

اگرچہ اسرائیل نے جنگ شروع نہیں کی تھی لیکن زیادہ تر یورپی ممالک نے عرب ممالک کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اسے امداد دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جبکہ سوویت یونین کی جانب سے مصر اور شام کو ہتھیار سپلائی کرنے کے بعد امریکہ کو اس جنگ کا حصہ بننے پر مائل کیا جا سکتا تھا۔

واشنگٹن نے اسرائیل کے لیے امداد بھیجنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد عرب ممالک نے امریکہ، نیدر لینڈز، پرتگال اور جنوبی افریقہ کو خام تیل فروخت کرنے کا بائیکاٹ کیا اور تیل کی پیداوار کم کر دی۔

اس سے تیل کا بحران پیدا ہوا۔ امریکہ کو پہلی بار ایندھن کی قلت کا سامنا کرنا پڑا اور 1974 تک ایک بیرل کی قیمت چار گنا بڑھ گئی جس نے مہنگائی کی لہر کو ہوا دے کر عالمی معیشت پر سخت اثرات مرتب کیے۔ یہ تیل درآمد کرنے والے ممالک میں جمود اور بے روزگاری کا باعث بنا۔

یوم کپور جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پہلی بار ریاست اسرائیل کی سالمیت کو خطرہ درپیش

جنگ کے ابتدائی ایام اسرائیل کے لیے خوفناک تھے۔ اس کے دفاع کو اس کی اپنی طاقت سے بہت بڑی طاقتوں نے تباہ کر دیا تھا، اس کی فضائی برتری کا مفروضہ ناکام ہوا تھا، اس کے کوئی اتحادی نہیں تھے اور اسے فوری طور پر ان کی ضرورت تھی کیونکہ اسے دو محاذوں پر جنگ کا سامنا تھا جو اس کے ہتھیاروں اور گولہ بارود کو ختم کر رہی تھی۔

یہ نہ صرف اپنے دفاع بلکہ جوابی حملے کے لیے اور حملہ آوروں کو شہروں اور آبادی سے دور رکھنے کے لیے بھی اہم تھا۔

لڑائی شروع ہونے کے اگلے دن موشے دیان نے محاذ کا دورہ کیا اور پریشانی میں واپس آئے۔

انھوں نے وزیر اعظم اور حکومت کے دیگر اراکین کے ساتھ ملاقاتوں میں بتایا کہ ’میں نے دشمن کی طاقت کو کم سمجھا، میں نے اپنی طاقت کو زیادہ سمجھا۔ عرب پہلے سے کہیں بہتر سپاہی ہیں۔ بہت سے لوگ مر جائیں گے۔‘

پی آر کمارسوامی کے مطابق ماضی کی چھ روزہ جنگ کے بعد جو جوش و خروش پیدا ہوا تھا وہ اچانک بدترین ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو گیا تھا۔

قیام کے بعد پہلی بار اسرائیل کو تباہی کے دہانے پر دیکھا گیا۔ 8 اکتوبر کو مصر کے خلاف ابتدائی جوابی کارروائی ناکام ہوئی تو خدشہ پیدا ہوا کہ یہ ریاست اسرائیل کی سالمیت کا سوال ہے۔

یوم کپور جنگ کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف ابراہیم رابینووچ بتاتے ہیں کہ ’موشے دیان گھبرا گئے تھے۔ انھوں نے جو کچھ سوچا یا منصوبہ بنایا تھا وہ ناکام ہو گیا۔ انھوں نے ممکنہ زوال کے خطرے کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی اور اپنے آس پاس کے ہر شخص کو افسردہ کر دیا۔‘

’اسرائیل اینڈ دی بومب‘ کے مصنف ایونر کوہن کے مطابق دیان نے تجویز دی کہ اسرائیل اپنی جوہری صلاحیت استعمال کرنے کی تیاری کرے مگر اس تجویز کو وزیر اعظم نے مسترد کیا۔

یوم کپور جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

موشے دایان نے وزیر دفاع کے عہدے سے استعفیٰ پیش کیا مگر وزیر اعظم نے اسے قبول نہ کیا۔

بعد کے سالوں میں یہ معلوم ہوا کہ جنگ کے دوسرے روز صورتحال اتنی خراب تھی کہ خود وزیر اعظم نے خودکشی کرنے کے بارے میں سوچا تھا۔

ابراہیم رابینووچ کے مطابق اسرائیلی دفاعی فورسز کے جنرل ڈیوڈ الائزر نے جنگ کے پہلے روز کہا تھا ’ہم یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے۔‘ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ ہار جائیں گے مگر یہ ظاہر تھا کہ جیت کے لیے انھیں بہت خون بہانہ پڑے گا۔

نو اکتوبر تک اسرائیل دونوں محاذوں پر حملے پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا۔ مصر نے پیش قدمی کے بجائے پوزیشن کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا۔ گولان میں اسرائیلی دفاعی فورسز نے شامی افواج کے خلاف مزاحمت دکھائی۔

تاہم اسرائیل کے پاس بھرپور جوابی حملہ کرنے کے لیے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی کمی تھی۔

10 اکتوبر کو اسرائیل کو پہنچنے والے نقصان اور مصر و شام کو حاصل سوویت یونین کی مدد کے بعد امریکہ نے بڑے پیمانے پر فوجی امداد کی ترسیل اسرائیل کی جانب شروع کی جس سے جوابی حملہ ممکن ہوا۔

اسرائیل کو ایک ماہ میں 24,000 ٹن فوجی سامان ملا جس میں گولہ بارود، میزائل اور ٹینک شامل تھے۔

14 اکتوبر کو مزید مصری افواج نے نہر سوئز کو عبور کیا اور سینائی کے راستے پیش قدمی کی۔ بار لیو لائن کے قریب تعینات اینٹی ایئر کرافٹ اور ٹینک شکن شیلڈ وہیں چھوڑ دیے گئے۔

مگر اسرائیل انھیں کی آمد کا منتظر تھا۔ یہاں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑی لڑائی ہوئی۔ مصر کی 250 بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کیا گیا۔

اسرائیل نہر سوئز کے قریب ایک چھوٹے علاقے کو عبور کرتے ہوئے مصر داخل ہوا۔ وہاں توپ خانے اور طیارہ شکن دفاع کو تباہ کیا گیا جو سینائی میں مصری افواج کی حفاظت کر رہا تھا۔

اسرائیلی فورسز قاہرہ کے قریب پہنچ گئی جس سے سادات کی حکومت مشکل میں پڑ گئی مگر 22 اکتوبر کو سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے معاہدے نے اسے بچا لیا۔ دونوں عرب دارالحکومت پہنچ میں ہونے کے باوجود اسرائیلی دستوں کو واپس لوٹنا پڑا۔ یہ وہ جنگ ثابت ہوئی جسے اسرائیل نہ جیت سکا۔

یوم کپور جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امن کا راستہ

اسرائیل اور مصر کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات نے سفارتی تعلقات کے قیام کی راہ ہموار کی۔

اس جنگ کی فتح کو فوجی نہیں بلکہ سیاسی لحاظ سے دیکھا جاتا ہے۔

مصر اور شام نے اسرائیل کی ’ناقابل تسخیر‘ پہچان کو ختم کیا اور انھیں چھ روزہ جنگ میں شکست کا انتقام ملا۔

مؤرخ افرایم کارش کے مطابق 1973 کی جنگ نے عربوں کے وقار اور خود اعتمادی کو بحال کیا۔ مصری صدر انور سادات کو عرب اتحاد سے الگ پہچان بنانے کا موقع ملا۔ باقی عرب دنیا کو آگے بڑھنے کا موقع ملا۔

اسرائیل کے لیے اس تنازع کا مطلب ایک جذباتی اور سیاسی جھٹکا تھا۔ یہ جنگ گولڈا مئیر کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔

کارش کے مطابق جنگ سے ’اسرائیل کی شدید تذلیل ہوئی۔ 1967 کی شاندار فتح کے بعد جس خوش فہمی نے اسرائیلی نفسیات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا وہ ٹوٹ گیا۔ اپنی ریاست کے قیام کے بعد پہلی بار اسرائیلیوں نے محسوس کیا کہ ان کا وجود داؤ پر لگا ہوا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیل 1973 کے صدمے کے بعد زخموں کے ساتھ اعتدال پسند قوم کے طور پر ابھرا۔ اس کے لیے علاقائی جارحیت کے سکیورٹی خطرات کا خدشہ واضح ہوا اور یہ آگاہی ملی کہ زمین پر کنٹرول سے مکمل سکیورٹی نہیں آتی۔‘

اس تجربے کے نتیجے میں اسرائیلی رائے عامہ میں اہم تبدیلیاں آئیں۔ اس نے امن کے لیے علاقوں کے تبادلے کے خیال کی حمایت کرنا شروع کی اور کئی دہائیوں بعد فلسطینیوں کے ساتھ اوسلو معاہدہ ہوا۔

جنگ کے بعد مصر پہلا عرب ملک بنا جس نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کیا۔

معاہدے کی مدد سے چار دہائیوں تک اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امن رہا۔ یہ بڑی کامیابی تھی کیونکہ دونوں کے درمیان 25 برسوں میں چار جنگیں لڑی گئی تھیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ