ڈسکہ ایک صنعتی علاقے کے طور پر جانا جاتا ہے مگر حالیہ دنوں میں اس کی وجۂ شہرت فروری میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 سیالکوٹ 4 میں ہونے والے بائی الیکشن میں نتائج سمیت دھند میں غائب ہونے والےپریذائڈنگ آفیسرز بنے۔
اس واقعے کے نتیجے میں حلقہ پورے پاکستان میں سیاسی توجہ کا مر کز بن گیا، اب 10 اپریل کو یہاں ری پولنگ ہونے جا رہی ہے۔
یہ اس حلقے کی سیاسی تاریخ پر مختصر نظر ڈالنے کا اچھا موقع ہے۔
1970ء اور 77ء میں سیالکوٹ کی باقی نشستوں کی طرح اس علاقے سے بھی پیپلز پارٹی کو ہی کامیابی ملی۔
پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک اس حلقے میں 1988ء میں بھی برقرار رہا اور انہی کے امیدوار خورشید عالم نے 41 فیصد ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی، مگر اس کے بعد سے پارٹی کا ووٹ بینک مسلسل کم ہوتا گیا۔
اس حلقے سے 1990ء میں آئی جے آئی کے نذیر احمد خان جبکہ 1993ء اور 97ء میں مسلم لیگ نون کے سید افتخار الحسن کامیاب ہوئے۔
2002ء میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر علی اسجد ملہی نے کامیابی حاصل کی، مسلم لیگ ق کی نون پر حلقے میں برتری کی ایک وجہ سید افتخار الحسن کا ڈگری کی وجہ سے انتخاب نہ لڑنا بھی تھا، مگر 2008ء، 2013ء اور 2018ء میں یہ نشست مسلم لیگ نون کے پاس ہی رہی۔
2008ء میں موجودہ نون لیگی امیدوار نوشین افتخار کے شوہر سید مرتضیٰ امین، جبکہ 2013ء اور 2018ء میں سید افتخار الحسن کامیاب ہوئے۔
انتخابات میں مسلم لیگ نون کو ملنے والے ووٹو ں کی شرح 40 سے 58 فیصد کے درمیان رہی ہے جبکہ تحریکِ انصاف نے گزشتہ 2 انتخابات میں ہی حصہ لیا اور بالتر تیب 26 اور 24 فیصد ووٹ حاصل کیئے۔
2018ء کے انتخاب میں حلقے میں شامل ہونے والا نیا فیکٹر تحریکِ لبیک پاکستان کا تھا، جس نے 14 ہزار 801 ووٹ حاصل کیئے۔
8 لاکھ 23 ہزار سے زائد کی آبادی پر مشتمل این اے 75 سیالکوٹ میں گزشتہ 3 انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 55 فیصد سے زائد رہی۔
10 اپریل کو ہونے والے انتخاب میں مسلم لیگ نون کی نوشین افتخار، تحریکِ انصاف کے علی اسجد ملہی اور تحریکِ لبیک کے خلیل سندھو نمایاں امیدوار ہیں۔
Comments are closed.