نیو یارک واریئرز: انڈیا اور پاکستان کے پنجابی جو امریکہ میں ٹی 10 لیگ کی ٹیم کے مالک ہیں

ٹی 10 لیگ

،تصویر کا ذریعہCourtesy Kamran

  • مصنف, محمد زبیر خان
  • عہدہ, صحافی

’امید ہے کہ جب مصباح الحق کی قیادت میں شاہد آفریدی اور کامران اکمل اپنے پرانے حریفوں عرفان پٹھان، ہربھجن سنگھ، محمد کیف، سریش رائنا اور دیگر کا سامنا کر رہے ہوں گے تو امریکہ میں لوگوں کو شاندار کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔‘

یہ امریکہ میں منعقد ہونے والی ٹی ٹین ماسٹرز کرکٹ لیگ کی ٹیم نیو یارک وارئیرز کے ایک پاکستانی نثراد امریکی مالک محمد کامران اعوان ہیں جنھوں نے بی بی سی سے اس بارے میں خصوصی بات کی ہے۔

اس ٹورنامنٹ میں چھ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں، جن میں زیادہ تعداد ایسے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جو بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ان کھلاڑیوں میں انڈیا سے تعلق رکھنے والے دس وہ کھلاڑی بھی حصہ لے رہے ہیں جو سنہ 2011 کے ورلڈکپ کی فاتح ٹیم کا حصہ تھے۔

یہ لیگ 18 اگست سے شروع ہوئی ہے اور اس کا فائنل 27 اگست کو منعقد ہو گا۔ افتتاحی اور فائنل مقابلوں کے لیے پاکستان اور انڈیا کے فلمی ستاروں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔

ماسٹر لیگ میں چھ ٹیموں کے مالکان کا تعلق امریکہ، بنگلہ دیش اور انڈیا سے ہے۔ نیو یارک واریئر واحد فرینچائز ہے جس کے مالکان میں دو انڈین اور دو پاکستانی ہیں۔

ان انڈین اور پاکستانی مالکان کی دوستی اور کاروباری شراکت کی کہانی دو، چار سال نہیں بلکہ اس صدی کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔

warri

،تصویر کا ذریعہCourtesy nywarriorst10

’والد نے اپنی جمع پونجھی سے اٹھارہ سو ڈالر دیے تھے‘

محمد کامران اعوان کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے۔ انھوں نے اکاوئنٹس کی تعلیم پاکستان سے ہی حاصل کی اور پھر کچھ عرصے تک واہ کینٹ میں خدمات انجام دیتے رہے۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ان کا کہنا تھا کہ ’اسی دوران مجھے امریکہ کا ویزہ مل گیا اور میں امریکہ منتقل ہوگیا تھا۔ شروع میں تو مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے مگر مجھے جلد ہی ایک اکاوئنٹس کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی۔ اسی ملازمت کے دوران میرا رابطہ پریت کمال، گورمیت سنگھ سے ہوا جبکہ حسنین باجوہ سے ہمارا تعلق پانچ سال قبل بنا تھا۔‘

ادھر پریت کمال کا تعلق انڈیا کے صوبہ پنجاب سے ہے۔ ان کے والد امریکہ میں کاروبار کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے ہم سب کو میرے بچپن ہی میں امریکہ بلا لیا تھا۔ میں نے امریکہ میں اکاوئنٹس کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس دوران میں مختلف ملازمتیں کر کے اپنا خرچہ خود اٹھاتی تھی۔‘

پریت کمال کہتی ہیں کہ جب انھوں نے اپنے کیرئیر میں اکاوئنٹس کمپنی میں ملازمت شروع کیں تو وہاں پر پہلا رابطہ محمد کامران اعوان سے ہوا تھا۔

’وہ مجھ سے پہلے ہی وہاں پر کام کرتے تھے۔ پہلے ہی دن انھوں نے میری بہت مدد کی۔ وہ پہلا دن تھا جب میں نے محسوس کیا کہ میرا رابطہ ایک شاندار انسان سے ہوا ہے۔ پھر اب وہ رابطہ بہت اچھی دوستی اور کاروباری تعلق میں تبدیل ہوا۔‘

انھی میں سے ایک گورمیت سنگھ کا تعلق بھی انڈیا کے صوبہ پنجاب سے ہے۔ وہ 21 سال کی عمر میں امریکہ پڑھنے آئے تھے۔

وہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’مجھے میرے چچا نے سپانسر کیا تھا۔ میرے والد انڈیا میں سرکاری ملازم تھے۔ جب میں امریکہ آ رہا تھا تو انھوں نے میرے ٹکٹ کروانے کے علاوہ مجھے اٹھارہ سو ڈالر دیے تھے اور کہا تھا کہ یہ ہی میرے پاس ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اس دور کی بات ہے جب انڈیا میں ایک سرکاری ملازمت کی جمع پونجھی ہی 1800 ڈالر ہوتی تھی۔ امریکہ میں آیا تو اپنے اخراجات خود برداشت کرنے تھے۔ اس لیے یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ دو دو شفٹوں میں کام بھی کرتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس دور میں، میں 24 گھنٹوں میں سے تین، چار گھنٹے نیند کرتا تھا۔‘

’مجھے آگے بڑھنا ہے‘

گورمیت سنگھ بھی پریت کمال کی طرح بتاتے ہیں کہ تعلیم کے بعد ان کی پہلی ملازمت اکاوئنٹس کی اسی کمپنی میں تھی جس میں محمد کامران اعوان پہلے سے ملازمت کرتے تھے۔

گورمیت سنگھ بھی کہتے ہیں کہ ’دفتر میں پہلا رابطہ ہی کامران بھائی سے ہوا تھا۔ کامران بھائی کو مل کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہم دو مختلف دیسوں سے تعلق رکھتے ہیں یا وہ مسلمان ہیں اور میں سکھ، ہمارے درمیان ایک ایسا تعلق بن گیا جس کو میں چھوٹے بھائی اور بڑے بھائی کا نام دیتا ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ملازمت کے دوران ہی میں اکثر کہتا کہ مجھے اچھی ملازمت چاہیے۔ جس پر کامران بھائی کہتے کہ صبر کرو ہم مل کر کچھ کرتے ہیں۔

پریت بھی کہتی تھیں کہ ’ہمیں کچھ بہتر کرنا تھا۔ اس دوران ہم سوچتے رہے کہ کیا کرنا چاہیے، کیا ہوسکتا ہے۔‘

’اکثر کامران بھائی اس پر بات کرتے تھے۔ ان کی رائے بڑی دوٹوک تھی کہ ہمیں کچھ اپنا کرنا چاہیے۔‘

گورمیت سنگھ کہتے ہیں کہ ’ہم تینوں کے لیے ایک مسئلہ یہ تھا کہ ملازمت چھوڑ کر اپنا کاروبار کرتے تو مشکلات تو موجود تھیں۔ بس اس پر سوچتے رہے اور دیکھتے رہے کہ کیا کرسکتے ہیں۔

’ہمارے درمیان ایک بات طے ہو گئی تھی کہ حتمی فیصلہ کامران بھائی ہی نے کرنا ہے اور ہم نے اس پر عمل کرنا تھا۔‘

پریت کمال کا کہنا تھا کہ ’بہت سوچ سمجھ کر ہم نے فیصلہ کر ہی لیا اور پھر ایک روز ملازمت چھوڑ کر اپنی اکاوئنٹس کی کمپنی بنا لی۔‘

’چار سو کا سٹاف کام کرتا ہے‘

گورمیت سنگھ کہتے ہیں کہ ’کامران بھائی ہم سے سینیئر تھے۔ میں اور پریت دفتر میں بیٹھتے تھے جبکہ کامران بھائی مختلف کلائنٹس سے رابطے کرتے تھے۔

’ہمیں پہلا کام ملنے میں شاید تین ماہ لگ گئے۔ یہ بھی کامران بھائی کی وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ وہ ہم سے سنیئر تھے اور لوگ انھیں جانتے تھے۔‘

پریت کمال کا کہنا ہے کہ ’ہم نے آغاز ہی سے اپنے کام پر فوکس کیا، کوالٹی کی سروس فراہم کی جس کے نتیجے میں ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا گاہگ بنتا چلا گیا اور دو، تین سالوں میں ہم اکاوئنٹس کے بزنس میں ایک اچھی کمپنی بن گئے۔‘

محمد کامران اعوان کہتے ہیں کہ ’اکاوئنٹس کی کمپنی بنائی تو ہم تینوں کے کچھ مقاصد تھے۔ ظاہر ہے امریکہ آ کر ایک بہتر زندگی اور اچھا کاروبار ہمارا مقصد تھا۔‘

’امریکہ میں کام کرنے والوں کے لیے بہت مواقع ہیں۔ ہم نے بھی محنت اور ایمانداری سے کام کیا جس کا پھل ہمیں ملا۔ پہلے ہم صرف اکاوئنٹس کا کام کرتے تھے۔ مگر اس کے ساتھ ہم نے کام کو پھیلانا شروع کردیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے وقت کے ساتھ پراپرٹی، ریسٹورنٹ، سٹورز، ہوٹل اوردیگر کاروبار کرنا شروع کردیے۔ جب ہم نے اکاؤنٹس کی کمپنی شروع کی تھی تو اس میں ہمارے پاس صرف دو کا سٹاف تھا۔ مگر آج ہمارے پاس چار سو لوگوں کا سٹاف ہے جو مختلف امور دیکھ رہا ہے۔ ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہوا کہ ہم نے کچھ اصول طے کرلیے تھے۔‘

kamran

،تصویر کا ذریعہCourtesy Kamran

یہ بھی پڑھیے

’آگے بڑھنا ہے تو مل کر چلنا ہے‘

ان کے چوتھے پارٹنر اور دوست حسنین باجوہ ہیں۔

حسنین باجوا کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے۔ وہ کوئی پانچ سال قبل امریکہ منتقل ہوئے ہیں۔ پاکستان میں یہ ہوٹل کی صنعت سے وابستہ تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں امریکہ گیا تو خیال یہ تھا کہ میں ہوٹل کی صنعت ہی میں کوئی کام کروں گا۔ اس کے لیے مجھے رہنمائی چاہیے تھی۔

’میرا رابطہ کامران بھائی سے ہوا۔ جب میں ان سے ملا تو دیکھا کہ یہ ایک پاکستانی اور دو انڈین مل کر شاندار کاروبارکر رہے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان تینوں نے مجھے میرے کام کے حوالے سے بہت اچھی رہنمائی دی۔‘

حسنین باجوہ کہتے ہیں کہ ’اس موقع پر میری تینوں سے دوستی ہو گئی۔ پھر ایک موقع پر فیصلہ ہوا کہ ہوٹل کے کاروبار بھی ہم مل کر کرتے ہیں۔

’میرا ان کے ساتھ سلسلہ پانچ سال سے بہت کامیابی سے چل رہا ہے۔ ہم نے کئی فرنچائز بنا لی ہیں جبکہ ان تینوں کا تعلق تو کئی سالوں سے ہے۔‘

محمد کامران اعوان کہتے ہیں کہ ’یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ میں اور حسنین مسلمان ہیں جبکہ گورمیت سنگھ اور پریت ہندو ہیں یا ہم دو پاکستانی اور وہ انڈین ہیں۔

’اصل بات انسانیت اور انسانی قدروں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی ہے۔ ہم چاروں ایک دوسرے کے خیالات، رائے ہر چیز کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے سے مخلص ہیں۔

’ہم چاروں کی ترقی ہم چاروں سے جڑی ہوئی ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں مل کر چلنا ہے۔‘

14 اور 15 اگست پر ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار

گورمیت سنگھ کہتے ہیں کہ ’اصل میں ہم ایک لوگ ہیں۔ پنجاب تو پنجاب ہی ہے بھلے اس کا کچھ حصہ پاکستان میں ہو یا انڈیا میں ہو۔

’ہماری عادتیں، رہن سہن کا طریقہ ملتا جلتا ہے۔ اس کے ساتھ جب فیصلہ کر لیا جائے کہ مذہب اور ملک کوئی بھی ہو انسانیت کو مقدم رکھنا ہے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا، ایک دوسرے کے لیے قربانی دینی ہے تو پھر چیزیں اسی طرح آگے بڑھتی ہیں جس طرح ہم چاروں کی دوستی اور کاروبار آگے بڑھا ہے۔ لوگ ہم چاروں کی دوستی اور کاروبار پر رشک کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ریسٹورنٹس میں دہلی کے بٹر چکن کی کڑائی اور گوجرانوالہ کے کھانے دونوں ملتے ہیں۔ اسی طرح ہماری بھی زندگی چل رہی ہے۔ جو اب ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہے۔‘

محمد کامران اعوان کہتے ہیں کہ ’ہم چاروں ہی کرکٹ کے شوقین ہیں۔ اب تو یہ میچز بہت کم ہوتے ہیں مگر جب بھی ہوتے ہیں توعموماً ہم لوگ اکھٹے ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

’میں پاکستان کے کسی بھی چھکے، چوکے، بولر کی جانب سے وکٹ لینے پر شور مچاتا ہوں تو اسی طرح وہ انڈین ٹیم کی کارگردگی پر خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اندازہ کریں ایک دفتر یا کمرے میں ہم تین یا چار لوگ ہیں۔ دو انڈیا کو سپورٹ کر رہے ہیں اور دو پاکستان کو۔

’چاروں مل کر میچ کو خوب انجوائے کرتے ہیں، ہلا گلا بھی کرتے ہیں۔ میچ کوئی بھی جیت جائے تو جیتنے والی ٹیم کے دونوں سپورٹر ہارنے والی ٹیم کے ساتھ ہمدری کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اگلی مرتبہ آپ کی ٹیم جیت جائے اور ہارنے والی ٹیم کے سپورٹر جیتنے والی ٹیم کے سپورٹرز کو مبارک باد دیتے ہیں۔‘

محمد کامران اعوان کا کہنا تھا کہ ’ابھی 14 اور 15 اگست گزرا ہے۔ اس موقع پر پریت اور گورمیت نے میرے اور حسنین کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار کیا اور ہم نے بھی دونوں سے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔‘

twitter

،تصویر کا ذریعہTwitter/nyuwarriorst10

’کرکٹ فرئچائز ہماری زندگی کی کہانی ہے‘

محمد کامران اعوان کہتے ہیں کہ جب امریکہ میں کرکٹ لیگ کا اعلان ہوا تو ہم لوگ کافی پرجوش ہو گئے تھے۔

’برصغیر، یورپ کے کچھ ممالک میں تو کرکٹ بہت شوق سے دیکھی اور کھیلی جاتت ہے۔ مگر امریکہ میں اتنی زیادہ مقبول نہیں ہے، دیسی کمیونٹیز کے لوگوں میں بھی دلچسپی کم ہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاروں نے اس وقت فیصلہ کیا کہ ہم بھی ایک فرنچائز خریدیں گے اور اس فرنچائز میں پاکستان اور انڈیا کے کھلاڑیوں کو اکھٹا کریں گے۔

’دیکھیں انڈین پریمیئر لیگ میں پاکستانی کھلاڑیوں کو موقع نہیں دیا جاتا اور پاکستان سپر لیگ میں انڈین کھلاڑیوں کو۔ یہ دونوں کرکٹ کی دنیا کے بڑے ٹورنامنٹ ہیں۔ اگر دونوں ایونٹس میں دونوں ممالک کے کھلاڑیوں کو موقع ملے تو یہ دونوں اس سے بھی بڑے ہو سکتے ہیں اور دونوں ممالک میں کرکٹ کا مزید ٹیلنٹ بھی ابھر سکتا ہے۔‘

محمد کامران اعوان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد امریکہ میں کرکٹ کا فروغ ہے۔ ہم نے سوچا کہ ہم پاکستان اور انڈین کرکٹ سپرسٹارکو اکھٹا کرتے ہیں۔

’ایک ہی ٹیم میں دونوں ممالک کے کھلاڑیوں کو کھلاتے ہیں جس سے بہت ہی مثبت پیغام دونوں ممالک کے عوام کو جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مگر اس لیگ کا ڈرافٹ کچھ ایسا تھا کہ ہم ایسا نہ کرسکے۔

’پاکستان سے سات کھلاڑیوں کو لیا ہے جبکہ انڈیا سے دو کھلاڑی شامل ہو سکے۔ اب اگلے سال ہم دونوں ممالک کے سپر سٹاز کو ایک ٹیم میں اکھٹا کر سکیں گے۔

’مگر اب بھی جب روایتی حریف شاہد آفریدی اور ہربجھن سنگھ، عرفان پٹھان اور کامران اکمل آمنے سامنے ہوں گے تو شاندارکرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ