یوکرینی فوجی خواتین: ’کچن میں کام بھی کر سکتی ہوں اور تمھیں مار بھی سکتی ہوں‘
- مصنف, اولگا مالچیوسکا
- عہدہ, بی بی سی نیوز
یوکرین میں بڑی تعداد میں خواتین روس کے خلاف جنگ میں فوج میں بطور سپاہی شامل ہو رہی ہیں۔
بی بی سی نے فرنٹ لائن پر موجود پانچ ہزار خواتین فوجیوں میں سے تین سے بات کی ہے جو ایک طرف خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور دوسری طرف ’دشمن‘ فوج کے خلاف لڑ رہی ہیں۔
ایک دبلی پتلی، نیلی آنکھوں والی خاتون فوجی اہلکار جم میں ورزش کر رہی ہیں لیکن روسی میڈیا کے مطابق وہ ’مر چکی ہیں۔‘
اینڈریانا ارختہ یوکرین کی مسلح افواج میں سپیشل یونٹ سارجنٹ ہیں، جو ایک بار پھر فرنٹ لائن پر جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔
بی بی سی نے اینڈریانا سے یوکرین کے ایک بحالی مرکز میں ملاقات کی۔ وہ گذشتہ دسمبر میں خیرسون کے علاقے میں بارودی سرنگ پھٹنے سے زخمی ہو گئی تھیں۔
سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہم اس جگہ کا نام یا مقام ظاہر نہیں کر سکتے۔
روسی زبان میں متعدد خبروں اور ویڈیو رپورٹس میں ان کی ’موت‘ کی تفصیل لکھی گئی تھی۔
اینڈریانا کہتی ہیں کہ ’انھوں نے یہ شائع کر دیا کہ میرے بازو اور ٹانگیں نہیں ہیں اور مجھے مار ڈالا گیا ہے، وہ پروپیگنڈا پھیلانے کے ماہر ہیں۔‘
ان کی ہلاکت سے متعلق رپورٹوں میں ’ہنگ مین‘ اور ’مقتول نازی‘ جیسے الفاظ استعمال کیے گئے۔
یوکرین کی فوج کے خیرسون کو دوبارہ آزاد کرائے جانے کے فوراً بعد، ان پر بغیر کسی ثبوت کے ظلم اور دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا الزام لگایا گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ میرے لیے مضحکہ خیز ہے۔ میں زندہ ہوں اور اپنے ملک کا دفاع کرتی رہوں گی۔‘
فوج میں خواتین کے تجربات
یوکرین پر روس کے حملے کے 18 ماہ بعد آج یوکرین کی مسلح افواج میں 60 ہزار خواتین خدمات انجام دے رہی ہیں۔
یوکرین کی وزارت دفاع نے بی بی سی کو بتایا کہ فوجی عہدوں پر 42 ہزار سے زیادہ خواتین ہیں جن میں پانچ ہزار خواتین فوجی فرنٹ لائن پر ہیں۔
وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یوکرین کے قانون کے تحت کسی بھی خاتون کو اس کی مرضی کے خلاف فوج میں بھرتی نہیں کیا جا سکتا۔
جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین جنگ کے دوران مخصوص کرداروں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
حال ہی میں فرنٹ لائن پر کلیدی کردار ادا کرنے والی ایوینیا ایمرلڈ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے کمانڈر کے پاس گئی اور ان سے پوچھا کہ میں سب سے بہترین کام کیا کر سکتی ہوں؟ انھوں نے مجھے بتایا کہ تم ایک سنائپر بنو۔‘
وہ کہتی ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے خواتین سنائپرز کو رومانوی رنگ میں دکھایا گیا ہے اور اس کے پیچھے ایک عملی وجہ بھی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر کوئی مرد گولی چلانے میں ہچکچاتا ہے تو عورت کبھی نہیں ہچکچائے گی۔‘
وہ اپنی تین ماہ کی بیٹی کو اپنی بانہوں میں تھامے کہتی ہیں کہ ’شاید یہی وجہ ہے کہ صرف عورتیں جنم دیتی ہیں مرد نہیں۔‘
31 سالہ ایوینیا ایمرلڈ نے روس کے کریمیا پر حملے کے بعد فوجی تربیت حاصل کی اور 2022 میں فوج میں شمولیت اختیار کی۔ جنگ سے پہلے، ایونیا اپنا زیورات کا کاروبار کرتی تھیں۔
اینڈریانا کی طرح ایوینیا کو بھی روسی میڈیا نے بڑے پیمانے پر ’سزا دینے والا‘ اور ’نازی‘ قرار دیا ہے۔
سینکڑوں میڈیا رپورٹس میں ایک خاتون سنائپر کے طور پر ان کے فرنٹ لائن کردار اور ان کی ذاتی زندگی پر تبصرہ کیا گیا۔
ایوینیا کہتی ہیں کہ سنائپر کے طور پر کام کرنا جسمانی اور ذہنی طور پر سفاکانہ ہے کیونکہ جب آپ کسی ہدف کو نشانہ بناتے ہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔
ہم نے ایونیا اور فرنٹ لائن پر تعینات دیگر خواتین سپاہیوں سے بات کی۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں مارے گئے ٹارگٹس کے بارے میں بتانے سے انکار کیا لیکن ایونیا کو وہ احساس یاد ہے جب انھیں کسی کو مارنے کا کہا گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’30 سیکنڈ تک میرا پورا جسم کانپ رہا تھا اور میں اسے روک نہیں پائی۔ پھر احساس ہوا کہ اب واپس لوٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ لیکن ہم نے ان (روس کے ساتھ) جنگ نہیں کی۔ وہ ہمارے پاس آئے تھے۔‘
یوکرینی فوج میں خواتین کے لیے چیلنجز
سنہ 2014 میں کریمیا پر روس کے حملے کے بعد سے یوکرین کی فوج میں خواتین کی شمولیت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جو 2020 میں 15 فیصد سے زائد تک پہنچ گیا ہے۔
لیکن روس کے خلاف کلیدی کردار ادا کرنے والی خواتین فوجیوں کا کہنا ہے کہ انھیں فوج کے اندر صنفی رویوں کے ساتھ ایک مختلف جنگ لڑنی ہو گی۔
ایونیا کا کہنا ہے کہ فرنٹ لائن سنائپر کے طور پر اپنا اعتماد قائم کرنے سے پہلے انھیں صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں سپیشل فورسز میں شامل ہوئی تو ایک سپاہی میرے پاس آیا اور کہا کہ ’لڑکی تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ جاؤ اور سوپ بناؤ۔‘
اس لمحے مجھے اتنا برا لگا کہ میں نے سوچا کہ ’کیا تم مجھ سے مذاق کر رہے ہو؟ میں باورچی خانے میں کام بھی کر سکتی ہوں اور تمھیں بھی مار سکتی ہوں۔
یوکرینی خواتین فوجیوں کو مدد فراہم کرنے والی ایک تنظیم کی رکن ایوینیا ویلیا کہتی ہیں کہ ’یوکرینی معاشرے کا ایک پختہ عقیدہ ہے کہ لڑکیاں شوہروں کی تلاش کے لیے فوج میں جاتی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ خواتین نے انھیں جسمانی زیادتی کے واقعات کے بارے میں بھی بتایا ہے۔
ایوینیا ویلیا کہتی ہیں کہ ’ہم مسئلے کی شدت کا اندازہ نہیں لگا سکتے کیونکہ ہر خاتون فوجی اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی۔‘
یوکرین کی نائب وزیر دفاع حنا ملیار نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسے چند ہی واقعات کے بارے میں معلومات اکٹھی کی گئی ہیں اور یہ تعداد ایسے سینکڑوں کیسز کے دعوؤں کے برعکس ہیں۔
’خواتین کو مردوں کا یونیفارم پہننا پڑتا ہے‘
یوکرینی فوج میں خواتین کے پاس اپنی وردی نہیں ہے۔ انھیں مرد سپاہیوں کی وردی دی جاتی ہے جس میں مردوں کے انڈرویئر، بڑے جوتے اور بلٹ پروف جیکٹس شامل ہیں۔
نائب وزیر دفاع ملیار کا کہنا ہے کہ ان کی فیلڈ یونیفارم مرد فوجیوں کے لیے ڈیزائن کی گئی ہیں اور رسمی یونیفارم میں ہیلز والے جوتے بھی شامل ہیں۔
اگر خواتین فوجی خواتین کی وردی پہننا چاہتی ہیں، تو انھیں اپنی وردی آن لائن خریدنی ہوں گی یا پھر کراؤڈ فنڈنگ پر انحصار کرنا ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ اندریانا نے ویٹرانکا (یوکرینی ویمن ویٹرنز موومنٹ) کے نام سے ایک خیراتی ادارے کی مشترکہ بنیاد رکھی ہے جو خواتین فوجی اہلکاروں کے مساوی حقوق کے لیے مہم چلاتی ہے اور یوکرینی فوجی قانون سازی میں اصلاحات کی وکالت کرتی ہے تاکہ اسے نیٹو کے مطابق بنایا جا سکے۔
لیکن ملیار کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس ضمن میں پیش رفت کی ہے۔ خواتین کے لیے ایک تجرباتی یونیفارم تیار کیا گیا ہے اور مستقبل قریب میں بڑے پیمانے پر اسے تیار کیا جائے گا۔
سنائپر ایوینیا ایمرلڈ کا کہنا ہے کہ ایسے مسائل کے باوجود جنگ کی کوئی جنس نہیں ہوتی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جنگ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ مرد ہو یا عورت۔ جب کوئی میزائل کسی گھر سے ٹکراتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہاں عورتیں ہیں، مرد ہیں، بچے ہیں۔ ہر کوئی مر جاتا ہے۔‘
’اور فرنٹ لائن پر بھی ایسا ہی ہے۔ اگر آپ با اثر ہو سکتی ہیں اور آپ ایک عورت ہیں تو آپ اپنے ملک، اپنے لوگوں کا دفاع کیوں نہیں کرتیں؟‘
خواتین نے فوج کے لیے پرسکون زندگی چھوڑی
سنائپر ارینا اس وقت مشرقی ڈونباس کے علاقے میں جوابی حملے کی کارروائی میں شامل ہے۔ جنگ کے میدان میں ایک لمحے کی خاموشی ہوتے ہی ہم ان سے بات کرتے ہیں۔
ارینا کو ان اصلاحات کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جن کے لیے بہت سی فوجی خواتین سخت محنت کر رہی ہیں۔ وہ مردوں کے زیر تسلط یونٹ کی خاتون کمانڈر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔
ارینا بتاتی ہیں کہ کس طرح سنائپرز ایک گولی چلانے کے لیے چھ گھنٹے تک زمین پر پڑے رہتے ہیں اور صورتحال تیزی سے بدل جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’یہ موت کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔‘
فوج میں کام کرنے والی ہزاروں خواتین نے اپنے کیریئر کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
گذشتہ سال روس کے حملے کے بعد اینڈریانا نے یوکرین کی فوج میں شمولیت کے لیے صنفی مساوات پر اقوام متحدہ کی مشیر کی حیثیت سے اپنی ملازمت چھوڑ دی۔
جنگ سے پہلے کے وقت کو یاد کرتے ہوئے 35 سالہ اینڈریانا کہتی ہیں کہ ’میں سفر کر سکتی، خوش رہ سکتی اور اپنا کیریئر اور خواب پورا کر سکتی تھی۔‘
اینڈریانا کو روس یوکرین جنگ سے پہلے بھی فوجی تجربہ ہے۔
سنہ 2014 میں، جب روس نے پہلی یوکرین کے علاقے کریمیا پر قبضہ کیا اور ڈونباس پر حملہ کیا، تو انھوں نے ایک برانڈ مینیجر کی نوکری چھوڑ دی اور ہزاروں دیگر یوکرینی شہریوں کے ساتھ فوجی کی رضاکار بٹالین میں شامل ہو گئی۔ اس وقت یوکرین کی فوج آج کی نسبت چھوٹی تھی اور جدوجہد کر رہی تھی۔
آئیڈر بٹالین جس میں اینڈریانا نے خدمات انجام دیں اس پر کریملن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا تھا۔ لیکن یوکرین کی فوج نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسے دعوؤں کی حمایت میں کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔
ایمنسٹی نے یوکرین کے حکام پر بھی زور دیا کہ وہ رضاکار بٹالین کو موثر کمانڈ اینڈ کنٹرول کے تحت لائیں۔
یوکرین میں ان کی خدمات کے صلے میں انھیں اعزازی تمغہ سے نوازا گیا اور آٹھ سال قبل ایدر سے نکلنے کے بعد روسی میڈیا نے ان پر ہر قسم کے الزامات لگائے لیکن کبھی کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
جنگ سے کتنی خواتین فوجی متاثر ہوئیں؟
یوکرین کی وزارت دفاع نے کہا کہ وہ جنگ کے دوران معلومات کی حساسیت کی وجہ سے جنگ میں ہلاکتوں کی تعداد کو عام نہیں کر سکتی۔
بی بی سی کو حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق یہ معلوم ہوا ہے کہ روسی حملے کے بعد سے اب تک 93 یوکرینی خواتین فوجی میدان جنگ میں ہلاک ہو چکی ہیں۔
خواتین کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ویمن ناؤ‘ کے اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں 500 سے زائد خواتین زخمی ہو چکی ہیں۔
ایڈریانا کی فون بک میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اینڈریانا کہتی ہیں کہ ’میں نے 100 سے زیادہ دوستوں کو کھو دیا ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ مجھے کتنے فون نمبر حذف کرنے ہوں گے۔‘
Comments are closed.