بلند عمارتوں سے گھِرا چھوٹا سا گھر جو ’برائے فروخت نہیں‘

گھر

،تصویر کا ذریعہBBC/MIAMI-DADE COUNTY

  • مصنف, ڈاریو بروکس
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ

آسائشوں اور عالیشان عمارتوں کے درمیان گھرا رہنا بہت سے لوگوں کا خواب ہو سکتا ہے لیکن اورلینڈو کیپوٹے کے لیے یہ درد سر بنا ہوا ہے۔

سنہ 1989 میں وہ اپنے والدین کے ساتھ جنوب مغربی میامی کی ایک پُرسکون، روشن سڑک پر واقع ایک گھر میں منتقل ہوئے تھے۔ انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تقریباً 25 سال بعد وہ اور ان کی جائیداد ایک بڑے رئیل اسٹیٹ کنسورشیم کے ساتھ تنازعے میں آجائیں گے۔

کیپوٹے نے بی بی سی منڈو کو پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب ہم 1969 میں اس ملک پہنچے تو اس وقت کرایہ 150 یا 200 ڈالرز ماہانہ ہوا کرتا تھا، لیکن یہ مسلسل بڑھ رہا تھا۔ اور میرے والد ہمیشہ سے ایک گھر کے مالک بننا چاہتے تھے۔ یہ ہر امریکی خواب ہے اور آپ اس خواب کو سچ کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔‘

وہ میامی کی ڈیڈ کاؤنٹی میں کورل گیبلز ضلع میں مہنگے ترین اور عالیشان ترین علاقے کوکونٹ گرو میں لاکھوں ڈالرز مالیت کی عمارتوں سے چند قدم کے فاصلے پر بنے ایک منزلہ عام سے گھر کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں ’اس گھر کو ہم تینوں نے خریدا ہے، میری والدہ والد اور میں نے۔ ‘

آج کیپوٹے کے ہمسائے میں ان کا کوئی جاننے والا نہیں رہتا۔ آج وہ کروڑوں ڈالرز مالیت کی عالیشان عمارتوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ جن میں ایک 242 کمروں کا ہوٹل، مہنگے ریستوران، دکانیں اور مہنگے ترین رہائشی اپارٹمنٹس اور دفاتر ہیں۔

ان کے ایک منزلہ گھر کے ساتھ دس منزلہ عمارتیں کھڑی ہیں، جس نے ان کے گھر دھوپ اور ہوا کا راستہ روک رکھا ہے۔ حتیٰ کے ان کے گھر کے سامنے کا منظر بھی رئیل سٹیٹ کے چند بلند و بالا عمارتوں نے روک رکھا ہے جنھیں کیپوٹے ’تابوت‘ کا نام دیتے ہیں۔

64 برس کے انجینیئر کیپوٹے بتاتے ہیں کہ ’ہم تارکین وطن تھے، میرے والدین اپنا سب کچھ کیوبا میں چھوڑ آئے تھے تاکہ مجھے ساتھ لا سکیں۔ انھوں نے یہاں بہت محنت کی اور انھوں نے ہر امریکی کی طرح کا خواب دیکھا اور یہ گھر بنایا۔‘

اور معاملہ یہ ہے کہ کورل گیبلز کی حکومت نے ایک رئیل اسٹیٹ ایجنسی کو وہ تمام سہولیات دی ہیں جو ان کے حقوق اور عوامی خدمات تک ان کی رسائی کو نقصان پہنچاتی ہیں اور جو شہر کے ہر باشندے کو حاصل ہے۔

تقریباً دو دہائیوں کی قانونی لڑائی اور دباؤ کے بعد وہ کہتے ہیں کہ وہ یہ جگہ نہ چھوڑنے کے لیے پہلے سے زیادہ پرعزم ہیں۔

گھر

،تصویر کا کیپشن

کیپوٹے کے ہمسائے میں ان کا کوئی جاننے والا نہیں رہتا

اکیلا گھر

کورل گیبلز کے رہائشیوں نے گذشتہ 20 سالوں میں ’سٹی بیوٹی فل‘ نامی فنانشل ضلع میں رہائشی اور تجارتی ٹاورز کی تیزی سے تعمیر دیکھی ہے۔

کمرشل سیکٹر کے مضافات میں، نفاست سے بنائے گئی کنکریٹ کی عمارتیں گھنے درختوں کی قطار والی سڑکوں کے برعکس ہیں، جن پر سنگل منزلہ مکانات ہیں۔

اورلینڈو اور لوسیا کیپوٹے، اپنے بیٹے اورلینڈو کے ساتھ، 1989 میں ان رہائشی علاقوں میں سے ایک میں آباد ہوئے۔ سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل تک، وہ پڑوسیوں میں گھرے ہوئے تھے، جو آہستہ آہستہ وہاں سے جانے لگے۔

سب سے پہلے کورل گیبلز سے ایک معروف سرمایہ کار، کیوبن نژاد امریکی رافیل ’رالف‘ سانچیز آئے۔ دوسرے ڈویلپرز کی طرح اس وقت وہ کنڈومینیمز اور تجارتی منصوبوں کی تعمیر کے لیے میامی کے رئیل اسٹیٹ کی تیزی سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔

سنہ 2004 میں اس علاقے میں زمین کی خریداری شروع ہوئی جہاں کیپوٹے رہتے تھے۔

کاؤنٹی کے عوامی ریکارڈ کے مطابق علاقے میں گھروں کی مسماری کا عمل ایک سال بعد شروع ہوا، اور 2007 تک اس بلاک میں صرف ایک عمارت تھی جسے گرایا جانا تھا، شہر کی ایک پرانی عمارت جو تاریخی قدر کے لیے جانی جاتی تھی اور کیوبا کے تارکین وطن کا گھر تھا۔

اس سال رئیل سٹیٹ ڈویلپر سانچیز نے اپنا پروجیکٹ پیش کیا، جس میں تین منزلہ عمارتوں میں 42 ولاز شامل تھے، جن کی قیمت 19لاکھ ڈالرز رکھی گئی تھی اور انھیں روم کے طرز تعمیر سے بنایا جانا تھا۔

اس طرز تعمیر کا خیال کورل گیبلز کے میئر میرک نے دیا تھا۔

سانچیز نے ساؤتھ فلوریڈا بزنس جرنل کو سنہ 2008 میں بتایا تھا کہ ’میرک کا ماننا تھا کہ سب کو ایک خوبصورت ماحول میں رہنے کا حق ہے جہاں قدرت کے نظارے بھی ہوں۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ ’کورل گیبلز میں اس ماحول کو بنانے کے ان کے منصوبوں میں سرسبز لینڈ سکیپنگ، خوبصورت داخلی راستے اور پلازے، اور پرانی ہسپانوی طرز تعمیر پر پتھروں سے بنی سڑکیں شامل تھیں جن کو ہم نے حقیقت کا روپ دیا ہے۔‘

لیکن کیپوٹے خاندان نے ان آسائشوں بھری سہولیات کو حاصل کرنے کی کسی بھی پیشکش کو ٹھکرا دیا کیونکہ ان کے پاس اس کی اپنی وجوہات تھیں۔

گھر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیپوٹے کو دی گئی پیشکش

کیپوٹے بطور ایک پیشہ ور انجینئر ہونے پر میامی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے بارے میں معلومات رکھنے پر فخر کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ کہتے ہیں کہ ’میں ایک رئیل اسٹیٹ ڈویلپر کے بجائے شیطان کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہوں گا کیونکہ شیطان اس معاہدے کا احترام کرے گا مگر آپ ڈویلپر کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کے حصول اور فروخت سے متاثر نہیں تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سنہ 2004 میں یہاں رہنے والے آدھے لوگ کرائے پر تھے۔ مالکان سرمایہ کار تھے۔ جب انھوں نے 2006 میں رئیل سٹیٹ کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا تو انھیں یہاں اپنی جگہیں بیچنے کا موقع ملا۔‘

وہ کہتے ’دیگر چند لوگوں کے اپنے مقاصد تھے جن میں کچھ کو وراثت کا معاملہ تھا اور کوئی اس بڑھتی رئیل سٹیٹ مارکیٹ سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔‘

کیپوٹے تسلیم کرتے ہیں کہ ’یہ سب کرنا اُن کے مفاد میں تھا۔‘

لیکن اس وقت ان کے خاندانی حالات نازک تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد بیمار تھے اور انھیں اکثر ہسپتال میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ خاندان ہر وقت ہسپتال کے چکر کاٹتا رہتا تھا۔

وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ان ہی دنوں میں ایک رات ایک رئیلٹر نے ہمارے دروازے پر دستک دی اور کہا کہ وہ یہ گھر خریدنا چاہتے ہیں۔ میری والدہ نے انھیں بتایا کہ ان کے شوہر ہسپتال میں ہیں لیکن ایسا لگتا تھا کہ انھیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ تجربہ ایسا تھا جس کی وجہ سے میں کسی رئیلٹر پر اب یقین نہیں کرتا۔‘

اس وقت رئیل اسٹیٹ کمپنی نے ان کے گھر کی مالیت کے طور پر انھیں 44 لاکھ ڈالرز کی پیشکش کی تھی لیکن کیپوٹے کے خاندان نے اسے فوراً رد کر دیا تھا۔

وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس وقت میرے والد کی ہسپتال میں حالت اور گھر کی قیمت کے بارے میں جاننا، یہ سب کچھ کرنے کا مناسب وقت نہیں تھا۔ ایک طرف والد کی دیکھ بھال کرنا اور دوسری طرف گھر بیچنا اور نئے گھر کی تلاش کرنا ممکن نہیں تھا۔ آخرکار ہمیں یہ گھر ڈھونڈنے اور بنانے میں بھی 20 برس لگے تھے۔‘

ان کے گھر کے آس پاس کے علاقے میں مسماری اس بڑے کمپلیکس کے لیے زمین تیار کرتی رہی جو اب وہاں پر موجود ہے۔ لیکن 2008 کا مالیاتی بحران شروع ہوا، جس کی وجہ امریکہ میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے بلبلے کی وجہ تھی۔

کیوبا کے ایک پرانے قول کا حوالہ دیتے ہوئے کیپوٹے کہتے ہیں کہ اگر وہ مکان بیچ دیتے تو ’ہم مورون کے مرغ کی طرح ہوتے: بغیر پروں کے اور بغیر بانگ کے۔‘

گھر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’میں کسی دستاویز پر دستخط نہیں کروں گا‘

اورلینڈو کیپوٹے کے والد اپنے اردگرد کے مکانات کو منہدم ہوتے دیکھنے سے پہلے ہی مر گئے۔ تقریباً دس سال تک یہ تنہا گھر آٹھ ایکڑ کے بیچ میں رہا جہاں زیادہ کچھ نہیں ہو رہا تھا۔

سانچیز کے پراجیکٹ کو ترمیم کے ساتھ، ایک وینچر کیپیٹل کمپنی آگیو ہولڈنگ نے لے لیا اور جس نے ان کے گھر کے علاقے زمین اور اس سے ملحقہ تقریباً ایک ہیکٹر زمین حاصل کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سنہ 2013 میں جب تین خواتین گھر آئیں اور مجھ سے اس بات پر دستخط کروانا چاہے کہ ہم انھیں یہ گھر فروخت کرنے جا رہے ہیں۔ تو میں نے کہا نہیں میں یہ نہیں کروں گا، میں نوجوان تھا، میں زیادہ جذباتی اور جوشیلہ تھا لیکن میری ماں نے کہا ’نہیں، دروازہ بند نہ کرو، ان سے بات کرو۔‘

’میں نے ان سے کہا کہ میں اس پر یا کسی اور چیز پر دستخط نہیں کروں گا۔‘

اس کے کچھ عرصے بعد انھوں نے گھر انھیں دینے کے عوض قریب ہی ایک اور گھر اور گاڑی دینے کی پیشکش کی۔

کیپوٹے نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ سب نئے منصوبے کے لیے زمین کے استعمال میں تبدیلی کی کوششوں اور گلیوں اور ماحول میں تبدیلی کا منصوبہ ہے۔ لیکن ان کے مکان نے ان تبدیلیوں کے لیے مسائل پیدا کر دیے تھے۔

انجینئر کا کہنا ہے کہ ’یہ پیشکش قانونی طور پر ناکافی تھی۔ میں نے اس بارے میں کئی وکلا سے مشورہ کیا جنھوں نے کہا کہ اس کی قانونی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور یہ سٹی ہال کے لیے ایک جال کے طور پر تھی کہ ہم ان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔‘

سنہ 2019 میں کیپوٹے نے اپنی گلی کے فٹ پاتھوں کے دفاع کے لیےکورل گیبلز کی گورننگ کمیٹیوں کے سامنے ایک مقدمہ لڑا جس میں کورل گیبلز پلازہ اور دیگر تعمیرات کی وجہ سے بھاری مشینری، شور اور دھول سے بھری ہوئی تھیں۔

بدقسمتی سے اس وقت ان کے ساتھ ایک واقعہ پیش آ گیا جس سے بچنے کی کوشش کی گئی۔

گھر

،تصویر کا ذریعہGOOGLE MAPS

’میں واپس نہیں جا سکتا‘

کیپوٹے نے اس واقعے کو یاد کرتے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کی اور کہا ’18 نومبر 2019 کو میری والدہ باورچی خانے میں گر گئیں۔‘

کیپوٹے اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں انھیں اٹھا نہیں سکا۔ اسی وقت میں نے ریسکیو کو فون کیا اور وہ گھر کے پیچھے سے آئے۔ یقیناً وہ پیچھے سے نہیں آ سکتے تو انھیں دوبارہ سامنے سے آنا پڑا۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ گھر کے سامنے سے کیوں نہیں آ سکتے تھے۔ کیونکہ دروازے کے سامنے ایک بڑا تعمیراتی عملہ تھا جسے گھر تک رسائی دینی چاہیے تھی۔‘

’وہ گھر تک نہیں پہنچ سکے اور انھوں نے گاڑی میرے گھر سے دو سو فٹ دور کھڑی کی اور میری والدہ کو سٹریچر پر ڈال کر گلی کے نکڑ تک لے گئے۔‘

لوسیا کیپوٹے کو ہسپتال داخل کیا گیا اور بعدازاں بحالی مرکز منتقل کر دیا گیا لیکن وہ اس دن کے بعد کبھی گھر واپس نہیں لوٹی۔ ان کے بیٹے اس تلخ تجربے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ کبھی دوبارہ گھر نہیں آ سکیں۔‘

وہ اس بات کی مذمت کرتے ہیں کہ ہنگامی خدمات تک رسائی کے ان کے حق کی خلاف ورزی کی گئی کیونکہ ان کی گلی کو بلاک کر دیا گیا تھا۔ نیز یہ کہ ریسکیو سروس کو گھر تک پہنچے سے قبل پچھلی گلی میں غیر ضروری تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے ان کی والدہ کو بچانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ انھوں نے خبردار کیا کہ آگ لگنے کی صورت میں بھی ان کے گھر کے ارد گرد پڑے ملبے اور عملے نے ضوابط کی خلاف ورزی کی۔

گھر

،تصویر کا ذریعہMIAMI-DITY COUNTY

ان کا کہنا ہے کہ کورل گیبلز کی حکومتی عوامی سماعتوں میں ان کے دلائل، جن میں ڈویلپر نے بھی حصہ لیا، بغیر کسی جواز کے مسترد کر دیے گئے۔

جب بی بی سی نیوز منڈو نے اس کیس کے بارے میں پوچھا تو شہری حکومت نے کہا کہ ’ان مسائل کا بڑے پیمانے پر جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی چھان بین کی گئی ہے‘ اور یہ کہ ڈویلپر نے میامی ڈیڈ کاؤنٹی سے ضروری اجازت نامے حاصل کیے ہیں۔‘

لیکن وہ اسے زندگی کی ستم ظریقی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے دفتر کو میامی میٹرو ریل یونیورسٹی سٹیشن کی تنصیبات تک فائر فائٹرز کے لیے رسائی کا راستہ کھولنے کے لیے ایک پروجیکٹ تفویض کیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں پہنچا جہاں میری والدہ داخل تھیں تو وہاں میرے ساتھ کورل گیبلز فائر ڈپارٹمنٹ کی چیف تھے۔ وہی جن کو میں نے اپنی ماں کے گرنے سے قبل گلی کے راستے بند ہونے کی وجہ سے اتنے خطوط بھیجے تھے۔‘

میں نے کہا ’دیکھو، اور سوچو کے آپ کے لیے فائر ریسکیو ٹیم کے لیے راستہ بنانے کے لیے اتنے خط کس نے لکھے تھے۔ اندازہ لگاؤ کہ ایسا کس نے کیا؟’ مجھے نہیں لگتا کہ کورل گیبلز فائر ڈیپارٹمنٹ ذمہ دار ہے۔ لیکن یہ زندگی کی ستم ظریفی اور اتفاقات میں سے ایک تھا۔‘

گھر

’مجھے میرے گھر میں چھوڑ دو‘

ان مشکلات نے کیپوٹے کے اپنے گھر کے دفاع کے عزم کو مضبوط کیا۔

’وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں منھ پھٹ اور بے حیا ہو گیا ہوں؟ انھیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ میں کتنا منھ پھٹ ہو گیا ہوں۔ لیکن، ایک طرح سے، میں نے کبھی بھی اعتماد نہیں کھویا۔ آخر اس ملک میں قانون کا راج ہے اور آپ کو ان پر عمل کرنا ہو گا۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ شہر، کاؤنٹی، ملک تباہ کر دیں گے۔‘

تعمیراتی پریشانیاں تو ختم ہو گئیں۔ لیکن دیگر پیچیدگیاں باقی ہیں، جیسے کہ انھیں گھر کے پچھلے حصے تک رسائی کے لیے گلی میں داخل ہونے کے لیے پراپرٹی ڈویلپمنٹ سے اجازت لینی پڑی۔

آج صرف دوپہر کے وقت ان کے گھر میں سورج کی روشنی آتی ہے، جبکہ دن کے باقی تمام حصے میں اردگرد بنی بڑی بڑی عمارتوں کے سائے رہتے ہیں۔

ان کے باغ میں اس سال پھل نہیں آئے۔ اس کے علاوہ، انھیں اپنا کچرا جمع کروانے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا جو کورل گیبلز کے ہر رہائشی کا حق ہے۔

اور ان کی املاک سے چند انچ کے فاصلے پر ایک بار کھلنے والا ہے جو قانون کے مطابق رات گئے دو بجے تک کھلا رہ سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’اگر حکومت آپ سے کچھ لیتی ہے، تو اسے مناسب طریقہ کار کے ذریعے اور منصفانہ معاوضے کے ساتھ یہ سب کرنا ہوگا۔ آڈٹ نے صحیح طریقہ کار پر عمل نہیں کیا، انھوں نے ایک ایسے عمل میں ہمارا حق چھین لیا جو قانونی نہیں تھا۔ روشنی، ہوا اور نظارے کا کا حق ہم سے لے لیا گیا ہے۔‘

سب کچھ ہونے کے باوجود کیپوٹے کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہی رہیں گے کیونکہ جب تک وہ اپنا ٹیکس ادا کرتے رہیں گے اور کورل گیبلز کے قوانین کی تعمیل کرتے رہیں گے، جائیداد ان کی رہے گی اور کوئی اسے ان سے چھین نہیں سکتا۔ انھںی یقین ہے کہ ان کا گھر کبھی فروخت نہیں ہوگا۔

’مجھے میرے گھر رہنے دو، میری یادوں اور اس باغ کے ساتھ جس میں مزید آم نہیں اگتے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ