’گھر کیوں تباہ کرنا پڑے؟ کیا ان معذوروں نے راکٹ فائر کیے ہیں؟ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں‘
’گھر کیوں تباہ کرنا پڑے؟ کیا ان معذوروں نے راکٹ فائر کیے ہیں؟ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں‘
رحمہ نبہان اور اس کا خاندان اب اپنے تباہ شدہ گھر کے باہر سو رہے ہیں۔
- مصنف, ٹام بیٹ مین
- عہدہ, غزہ سے بی بی سی مشرق وسطیٰ کے نامہ نگار
کمال نبہان زور زور سے چیخ رہا تھا جب اس نے اپنا فون اپنے کزن کے ہاتھ میں تھمایا تھا، اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ گمنام کال کرنے والا اُسے کیا کہہ رہا تھا۔
یہ لوگ ابھی جبلیہ پناہ گزین کیمپ میں عصر کی نماز کے لیے جانے کے لیے تیار ہوئے ہی تھے۔ لیکن اس انتباہی فون کال کے بعد ان کی معمول کی زندگی عین اس وقت ایک پُرتشدد موڑ مڑنے والی تھی۔
کمال کا کزن عاطف اپنے رشتہ دار کے پاس پہنچا۔
عاطف کہتا ہے کہ ’میں نے اس سے فون لیا اور لائن پر موجود کسی شخص سے بات کی۔ اس نے کہا کہ وہ اسرائیلی انٹیلیجنس سے ہے، اور آپ کے پاس گھر خالی کرنے کے لیے پانچ منٹ ہیں۔‘
اس کے بعد وہ تیزی سے واپس عمارت کی جانب دوڑے۔ عاطف کہتا ہے کہ ’اُس نے اسرائیلی انٹیلیجنس کے افسر کو کہا کہ شاید آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، یہ عمارت معذور افراد سے بھری ہوئی ہے۔ (اسرائیلی انٹیلیجنس افسر) نے انہیں کہا کہ فوری طور پر گھر خالی کرو‘۔
یہ گزشتہ نو مہینوں میں غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کا پانچواں دن تھا۔ نام نہاد ٹارگٹڈ قتل کی مہم میں فلسطینی سرزمین کی دوسری سب سے طاقتور عسکریت پسند تنظیم اسلامی جہاد کے کم از کم چھ سرکردہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
لیکن حملوں میں صرف پہلی رات ہی 10 شہری مارے گئے تھے، جن میں کچھ فلسطینی رہنماؤں کی بیویاں اور بچے بھی شامل تھے۔ یہ لوگ گھروں میں سو رہے تھے۔ اس حملے کے بعد اس گروپ نے اسرائیلی شہروں پر راکٹوں کے حملوں سے جوابی کارروائی کی، جس سے دسیوں ہزار افراد کو بموں کی پناہ گاہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔
اسرائیل نے کہا کہ اس کی کارروائی اسلامی جہاد کی طرف سے بار بار راکٹ فائر کرنے کے جواب میں ہو رہی ہے، جس کے جواب میں فلسطینیوں کی جانب سے کہا گیا کہ اُن کی کارروائی مقبوضہ مشرقی بیت المقدس (مشرقی یروشلم) میں مسجد اقصیٰ پر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی پولیس کے چھاپوں اور اسرائیلی کی زیرِحراست بھوک ہڑتالی فلسطینی رہنما خادم عدنان کی جیل میں حالیہ موت کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
گزشتہ ہفتے کی لڑائی میں غزہ میں 33 فلسطینی اور اسرائیل میں دو افراد مارے گئے، جن میں ایک اسرائیلی تھا جبکہ دوسرا فلسطینی تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق، حالیہ تصادم کی وجہ سے 1,200 سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں۔
نبہان خاندان کی عمارت پر اسرائیل نے اپنی وارننگ پر عمل کیا۔ اسرائیل کے ایک ہی میزائل نے پورے بلاک کو دھماکے سے اڑا دیا۔
دھماکے نے نبہان خاندان کے گھر کو نیست و نابود کردیا۔
ہفتے کے روز دیر سے جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق ہونے سے عین کچھ دیر پہلے، اسرائیل نے اسی طرح کے حالات میں عمارتوں پر بمباری کرنے سے پہلے رہائشیوں کو انخلا کی وارننگ دیتے ہوئے کئی دیگر رہائشی بلاکس تباہ کیں۔ یہ حملے جو پورے اپارٹمنٹوں کے پورے بلاکس کو گرا دیتے ہیں، اسرائیلی فوج کے حربوں کے طور مشہور ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے جن عمارتوں کو نشانہ بنایا وہ اسلامی جہاد نے راکٹ لانچ کرنے کے لیے ’کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز‘ کے طور پر استعمال کی جا رہی تھیں۔ اس نے کہا کہ اس کی انتباہی کالوں کا مقصد غیر ملوث شہریوں کو کسی فوجی کارروائی سے محفوظ رکھنا تھا۔
مقامی ذرائع کا خیال ہے کہ عمارت میں ایک عسکریت پسند رہتا تھا لیکن وہاں کوئی آپریشنل مرکز نہیں تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ایسے حملوں کی مذمت کرتی ہیں کیونکہ پورے رہائشی بلاک کو تباہ کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
اسی موقع پر ایک اور رہائشی جس کو انتباہی کال موصول ہوئی تھی وہ اسرائیلی فورسز سے سے التجا کرتے ہوئے فلمایا گیا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسرائیل فوج میزائل کے حملے کو ’مجرموں‘ کے فلیٹ تک محدود رکھے تاکہ باقی رہائشیوں کو نقصان نہ پہنچے۔
غزہ کے کیمپ جبالیہ میں یہ عمارت اپنی ہی بنیادوں میں گر کر دھنس گئی ہے۔ ایک پوری سیڑھی جس نے کئی خاندانوں کے لیے ہنگامی صورتِ حال میں فرار کا راستہ فراہم کیا وہ ایک ٹوٹی ہوئی دیوار کے حصے پر جا گری۔ اس عمارت کی چھت کی باقیات اب زمین سے چند میٹر اوپر ہیں، جو سابق رہائشیوں کے لیے واحد سایہ تھی۔‘
پڑوسی آٹھ خاندانوں کے تقریباً 50 افراد کو باہر نکالنے میں کامیاب رہے۔ امدادی گروہوں کا کہنا ہے کہ ان میں وہ پانچ افراد بھی شامل ہیں جو پٹھوں کی بیماریوں کی وجہ سے معذور ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان میں کچھ کے پاس وہیل چیئرز تھیں، خصوصی طور پر تبدیل شدہ بستر اور مخصوص دوائیں بھی تھیں جو فضائی حملے میں تباہ ہو گئیں۔
غزہ میں قائم سوسائٹی برائے بحالی معذوران کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جمال الروزی، جو متاثرہ خاندانوں کی مدد کے لیے آئے تھے، کہتے ہیں کہ ان کا گروپ خوراک اور طبی آلات سمیت امداد فراہم کرے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے غصہ آتا ہے اور میں درد محسوس کرتا ہوں کیونکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، کم از کم عام شہریوں کے لیے نہیں، خاص طور پر معذور افراد کے ساتھ تو بالکل ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
کمال نبہان کے ایک اور رشتہ دار نے بھی اس ملبے میں پناہ لے رکھی ہے۔ رحمہ نبہان اور ان کا شوہر یاسر تباہ شدہ چھت کے نیچے بیٹھے ہیں، اپنی بچی جوری کو ایک دوسرے کی گود میں دے کر اُسے چُپ کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عاطف نبہان کو اسرائیلی فضائیہ کے میزائل کے حملے سے اپنے مکان سے باہر نکل جانے کے لیے صرف پانچ منٹ ملے تھے۔ اور پھر اس کا مکان زور دار دھماکے سے ملبے میں تبدیل ہو گیا۔
رحمہ کہتی ہیں کہ ’میری نند معذور ہے، (جب انھیں بچایا گیا تھا) تو وہ بغیر سر ڈھانپے باہر آنے پر مجبور تھی۔ ان کی وہیل چیئر گھر کے نیچے دب گئی تھی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’سب نے معذور افراد کو بھاگتے دیکھا۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ ’گھر کیوں تباہ کرنا پڑے؟ کیا ان معذوروں نے راکٹ فائر کیے ہیں؟ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘
جب ہم اس عمارت کے ملبے کب دیکھنے گئے تو رحمہ نے اپنی بیٹی جوری کو گود پکڑے ہوئے ہمیں تباہ شدہ عمارت دکھائی، اس کا فلیٹ اوپر کی منزل پر تھا۔ وہاں اب صرف گتے کے نشانات ہیں جو رہائشیوں نے کنکریٹ کے ملبے پر نصب کیے ہوئے تھے تاکہ پتہ چل سکے کہ کون کس فلٹ میں رہتا تھا۔
رحمہ کہتی ہے کہ ’ہم کہیں نہیں جا رہے، ہم دھوپ میں رہیں گے، دھوپ میں سوئیں گے، ہم گھر سے نہیں نکل رہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم بین الاقوامی تنظیموں اور (فلسطینی صدر محمود عباس) سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں اور اس گھر کو دوبارہ تعمیر کریں کیونکہ ہمارے پاس جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
مصر کی ثالثی میں ہفتے کی رات طے پانے والی جنگ بندی بڑی حد تک برقرار ہے۔ لیکن حالات بہت کشیدہ ہیں، مقبوضہ مغربی کنارے میں مہینوں کے تشدد کے بعد سے اب یہ کشیدگی غزہ میں بھی پھیل چکی ہے۔ یہ کشیدگی مئی سنہ 2021 کی جنگ کے بعد سے مختلف وجوہات کے بنا پر بڑھتی جا رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے کے حملوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے سیاسی طور پر حوصلے بڑھا دیے ہیں۔ وہ با آسانی اس سے بھی بڑے کسی تصادم کا آغاز کرسکتے ہیں، درحقیقت وہ جنگ بندی کے باوجود بھی کارروائی کر سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے لڑائی کو غیر معمولی گھریلو بدامنی اور اپنے اتحاد میں مذہبی انتہا پسندوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیشِ نظر اپنی مخلوط حکومت کے لیے اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
دوسری طرف اپنے نقصانات کے باوجود اسلامی جہاد نے اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کے موجودہ موقع کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے، جبکہ غزہ میں غالب عسکری قوت رکھنے والی تنظیم، حماس، فوجی کارروائی کے معاملے میں عملی طور پر علحیدہ رہی ہے۔
اس نے فلسطینی دھڑوں کی طرف سے ’متحد‘ پوزیشن کے حصے کے طور پر راکٹ فائر کی عوامی حمایت تو کی لیکن مؤثر طریقے سے خود راکٹ فائر کرنے کی کارروائیوں میں حصہ نہیں لیا۔ اسے اسرائیل۔مصری ناکہ بندی کے تحت غزہ کی آبادی کے لیے فلاحی اور سماجی خدمات کو بھی جاری رکھنا ہے۔ ایک بڑی جنگ کی وجہ سے عوامی رائے اس کے خلاف جا سکتی ہے۔
سنہ2021 سے اسرائیلی حکومت نے ہزاروں فلسطینی کارکنوں کو اسرائیل میں کام کاج کے لیے داخل ہونے کی اجازت دی ہے، جس سے غزہ کی معیشت میں بہتری آئی اور حماس کے لیے ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔
تاہم گروپ نے کشیدگی کی کیفیت کو برقرار رکھتے ہوئے جمعرات کو مقبوضہ مشرقی یروشلم کے مسلم علاقوں میں الٹرا نیشنلسٹ اسرائیلی فلیگ مارچ کے سالانہ منصوبوں کے خلاف خبردار کیا ہے۔
حماس اور اسلامی جہاد دونوں کو اسرائیل اور مغرب دہشت گرد تنظیمیں قرار دیتے ہیں۔
لیکن یہاں بہت سے فلسطینی محسوس کرتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری اب بھی اس خطے کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بات کرتی ہے، یعنی دو ریاستی حل، جسے اسرائیل کی قوم پرست حکومت اور فلسطینی مسلح گروپوں دونوں نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔
نبہان خاندان کے گھر پر پڑوسی اور غزہ میں مقیم دیگر خیراتی ادارے مکینوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک اجتماع کے لیے پہنچے۔ اتفاق سے یہ وہی دن بنتا ہے جب فلسطینی ’نکبہ‘ کی 75 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، جب 700,000 فلسطینیوں کو اسرائیل کی تخلیق کے ارد گرد کے تصادم کے واقعات کے دوران اپنے گھروں سے جبری طور پر بےدخل کردیا گیا تھا اور انھیں اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
بے گھر رہائشیوں نے ’ہماری حفاظت کریں‘ اور ’ہم مدد کے لیے پکارتے ہیں‘ کے پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں۔
عاطف نبہان جسے اسرائیلی انٹیلیجنس افسر سے انتباہی کال کی تھی، ملبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ اس کی درخواست سادہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس خاندان کو پناہ کی ضرورت ہے۔ ہم صرف انسانی حقوق کی تنظیموں سے کہتے ہیں کہ اس خاندان کا خیال رکھیں۔‘
Comments are closed.