انڈونیشیا کے مسلمان ٹرانسجینڈرز جو اپنے مستقبل کے لیے فکرمند ہیں
- مصنف, تریشا ہوسادا اور سلوانو حاجد مولانا
- عہدہ, بی بی سی نیوز انڈونیشیا
انڈونیشیا میں ٹرانسجینڈر رہنما شنتا راتری کی فروری میں موت کے بعد سے خواتین ٹرانسجینڈر کے واحد اسلامی کمیونٹی سینٹر کا مستقبل خطرے میں ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس کی مدد نہیں کر سکتی۔
ٹرانسجینڈرز کے الفتح کمیونٹی سنٹر میں 63 خاتون ٹرانسجینڈرز باقاعدگی سے آتی ہیں اور یہاں وہ عبادت کرتی ہیں، قرآن سیکھتی ہیں، دیگر ہنر سیکھتی ہیں اور یہ جگہ انھیں ان کی شناخت پر وضاحت دیے بنا سماجی طور پر مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
رینی کالینگ ان خواتین ٹرانسجینڈرز میں سے ایک ہیں۔
ہر صبح جاگنے کے بعد، وہ ہینڈ بیگ پکڑ کر تاریخی شہر یوگیکارتا کی سڑکوں پر گھومنے سے پہلے میک اپ اور اپنی پسندیدہ کالی وگ پہنتی ہیں۔
وہ روزانہ میلوں پیدل چلتی ہیں، اپنے بلیو ٹوتھ سپیکر سے موسیقی بجاتی ہیں اور روزی کمانے کے لیے گاتی ہیں۔ لیکن اتوار کو وہ دوپہر کو قرآن کا مطالعہ کرنے کے لیے الفتح سینٹر آتی ہیں۔
سنہ 2014 سے یہاں آنے والی رینی کہتی ہیں کہ ’یہ وہ محفوظ جگہ ہے جہاں ہم اپنی عبادت کر سکتے ہیں۔‘
رینی بچپن میں ہمیشہ لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے میں زیادہ آرام محسوس کرتی تھیں۔ وہ لڑکیوں جیسا لباس زیب تن کرتی، باورچی خانے کے کھلونوں سے کھیلتیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل میں دلہن بننے کا روپ دھارتی تھیں۔
ٹرانس ویمن کی شناخت اختیار کرنے کے بعد ان کے والدین اور نو بڑے بہن بھائیوں نے ان کی شناخت کو قبول کیا۔ اب سڑکوں پر لوگ انھیں پہنچانتے ہیں جو اسے گاتے اور ناچتے دیکھتے ہیں۔
وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں یہاں کی سلیبرٹی ہوں۔‘
رینی نے پہلی مرتبہ ٹرانس خواتین کے لیے الفتح اسلامی سینٹر کا ذکر اپنی ایک دوست سے سنا تھا جو خود بھی مذہبی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔
اس وقت رینی کو یہ علم ہوا کہ ان کی برادری کی تمام خواتین میں ہی ایسا جذبہ موجود ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب کبھی وہ مسجد میں نماز پڑھنے جاتی تھیں تو اکثر انھیں عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا، ’لازمی نہیں کہ وہ ہمیں قبول کریں لہٰذا میں نے شنتا راتری کے گھر جانا شروع کر دیا۔‘
اس مرکز کی نگران نور آیو کہتی ہیں کہ ’بہت سے اسلامی سینٹرز ٹرانسجینڈرز کو آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن یہاں ہمیں آزادی حاصل ہے، ہم یہاں مرد و عورت یا جس میں بھی پرسکون محسوس کریں اس شناخت کے ساتھ آ سکتے ہیں۔‘
شنتا راتری الفتح کمیونٹی سینٹر کے بانیوں میں سے ایک تھیں۔ سنہ 2014 سے ایک مشہور کارکن اور مرکز کی رہنما شنتا راتری نے انڈونیشیا میں ٹرانسجینڈرز کے حقوق کو مزید آگے بڑھانے کے لیے کئی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا۔ لیکن مارچ میں وہ ہسپتال میں داخل ہونے کے تین دن بعد دل کا دورہ پڑنے سے 60 سال کی عمر میں فوت ہو گئی تھیں۔
ان کی موت کے نقصان کو الفتح اسلامی سینٹر کے ارکان نے شدت سے محسوس کیا ہے۔
نور آیو کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمارے لیے ایک روشنی کی مانند رہنما تھیں، اور بطور خاندان سب سے قریب تھیں۔ ان کے بغیر سینٹر ’ویران اور خالی محسوس ہوتا ہے۔‘
شنتا راتری کی موت نے کمیونٹی سینٹر کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ عمارت مرحوم رہنما کے خاندان کی ملکیت ہے اور انھوں نے الفتح مرکز کو یہاں سے ختم کرنے کا کہا ہے۔ نور کہتی ہیں کہ ’ہمیں شنتا کے بغیر رہنے کے قابل اور خود مختار ہونا ہو گا۔
اسلامک سنٹر کے سیکریٹری، وائی ایس البوچری بتاتی ہیں کہ انھیں مقامی اور عالمی سطح پر کمیونٹی کے دوستوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے کچھ تعاون حاصل ہوا ہے۔
لیکن انڈونیشیا کے مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں ٹرانس کمیونٹی کی قبولیت بہت مشکل اور محدود ہے۔
ملک میں ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ریاست کبھی ان کی مخالف نہیں رہی اور اس نے انھیں اپنے وجود کی اجازت دی ہے، لیکن وہ براہ راست کوئی مدد فراہم نہیں کرتی ہے۔
انڈونیشیا کی وزارت مذہبی امور میں اسلامی مراکز کے ڈائریکٹر واریونو عبدالغفور کا کہنا ہے کہ وہ اس مرکز کی حالت زار سے آگاہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لیکن حکام اس سینٹر کی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ریاستی ضوابط کے تحت ایک جائز اسلامی مرکز کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔
انھوں نے بی بی سی نیوز انڈونیشیا سے فون کال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وسیع نقطہ نظر میں ریاست ’تمام مثبت سرگرمیوں کی حمایت کرتی ہے۔ لوگ عبادت کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کیوں منع کیا جائے؟‘
لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ اب بھی ٹرانسجینڈرز کی سماجی اور مذہبی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا ہے‘۔ وزارت مذہبی امور کبھی بھی الفتح کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں رہی اور نہ ہی اس کی کسی بھی سرگرمی میں سہولت فراہم کی ہے۔
اس سینٹر کی ایک اور رہنما رولی مالے کا کہنا ہے کہ الفتح سینٹر کو جو بھی قانونی حیثیت دی گئی ہے اس کے لیے ہم شکر گزار ہیں۔‘
وہ پرامید ہیں کہ ایک دن، ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو انڈونیشیا جیسے متنوع ملک میں زیادہ قبولیت ملے گی اور یہ امید انھیں اور ان کے دوستوں کو مرکز کو چلانے کی ترغیب دیتی ہے۔
رولی اصرار کرتی ہیں کہ ’اسلام کسی کو بھی مذہبی آزادی سے عبادت کی اجازت دیتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں ریاست کی طرف سے تحفظ ملتنا کافی اچھی بات ہے۔ اور ہم پر امید ہیں کہ مستقبل میں ملک (تنوع میں اتحاد) کے قومی نعرے کے طور پر ہمیں تسلیم کرے گا‘۔
لیکن اب اس مرکز کے ارکان کے لیے نئی مشکل ایک نئی جگہ تلاش کرنا اور اس کے لیے پیسے اکٹھے کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس جگہ ہو ایک ایسے علاقے میں ہونا چاہیے جہاں انھیں قبول بھی کیا جا سکے۔
یوگیاکارتا میں موجودہ علاقے کے لوگ ان کے لیے اچھے رہے ہیں۔
ان میں سے ایک رشیدہ ہیں جو یہاں کی مقامی آبادی سے ہیں۔ وہ ٹرانسجینڈر نہیں ہیں۔ انھیں اس سینٹر کا اس وقت پتا چلا تھا جب اس کے کچھ ارکان نے ان سے اس کا راستہ پوچھا تھا۔ اب وہ وہاں تقریباً ایک سال سے پڑھا رہی ہیں۔
رشیدہ کا کہنا ہے کہ ’میں بہت مصروف تھی لیکن تجسس کے باعث میں اس مرکز کو دیکھنے چلی گئی تھی۔‘
اور بالآخر شنتا نے ان سے کہا کہ کیا وہ رضاکارانہ طور پر اس مرکز میں پڑھائیں گی۔ رشیدہ اپنے خاندان کی اجازت کے بعد اس پر آمادہ ہو گئیں تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں ان سے قدرے خوفزدہ تھی، لیکن یہاں آنے کے بعد۔ یہاں پڑھانے کے بعد، میں نے دیکھا کہ یہ لوگ بہت پرسکون ہیں، خاص طور پر شنتا وہ بہت صبر کرنے والی، کبھی ناراض نہ ہوتی اور بس مسکراتی رہتی تھی۔‘
ٹیگہو ریدھو ایک اور رضاکار ہیں جو اس مرکز میں مقدس کلمات کا بنیادی پارہ ’اقرا‘ پڑھاتے ہیں، وہ طالب علموں کے دور دور سے سفر کر کے یہاں آنے کے عزم کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔
’حالانکہ ہمارے پاس قرآن سیکھنے کے لیے صرف ایک گھنٹہ ہوتا ہے لیکن وہ اس کے لیے بہت دور دور سے آتے تھے۔‘
اس مرکز کو علاقے کے لوگوں کا دل جیتنے میں کافی وقت لگا۔
البوچری یاد کرتے ہوئے سنہ 2016 کے ایک واقعے کے بارے میں بتاتی ہیں جب انتہاپسند اسلامی گروہ کے ارکان نے ان کے مرکز پر دھاوا بولا تھا اور انھیں دھمکیاں دی تھیں۔
’انھوں نے کہا تھا کہ تم لوگ جہاں بھی چلے جاؤ ہم لوگ تمھارا پیچھا کریں گے جب تک کہ تم توبہ نہ کر لو اور واپس مرد کی شناخت نہ اپنا لو۔‘
اس وقت شنتا راتری ہی تھیں جنھوں نے مرکز کھولے رکھنے کے لیے متعدد غیر سرکاری تنظمیوں کی مدد سے جدوجہد کی تھی جب تک کہ انھیں مقامی پولیس سے تحفظ کی ضمانت نہیں مل گئی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ان ٹرانسجینڈرز خواتین کی زندگیاں اس وقت سے بہتر ہو گئی ہے جب سے وہ اس مرکز میں آ رہی ہیں۔ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اخلاقی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کرتی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں سکول میں شامل ہونے اور خدا کو دوبارہ جاننے کے بعد، زندگی کچھ زیادہ منظم ہو جاتی ہے۔ اور کمیونٹی ایک دوسرا خاندان بن جاتی ہے۔‘
اس لیے وہ امید کرتی ہیں کہ کمیونٹی سینٹر ان جیسی ٹرانس خواتین جو خود کو خدا کے قریب لانا چاہتی ہیں کے لیے مذہبی کلاسز اور رہنمائی فراہم کرتا رہے گا۔
’مجھے اب بھی خدا کی ضرورت ہے۔ میں عبادت کیے بغیر نہیں رہ سکتی، مجھے یقین ہے کہ دوسرے ٹرانس جینڈر دوستوں کی بھی اپنی وجوہات ہیں۔‘
البوچری کا ماننا ہے کہ ان کی زندگی کا ایک بڑا مقصد ہے ’خدا کی مخلوق کی حیثیت سے صرف ٹرانس خاتون بن کر کام کرنا اور زندہ رہنا ہی مقصد نہیں ہے۔‘
Comments are closed.