نئی تحقیق میں ہاتھ دھونے کا صحیح طریقہ بتایا گیا ہے جس میں انگلیوں، ہاتھ کی پشت، لیکوئیڈ ہینڈ سوپ اور سینیٹائزر کی مقدار سے متعلق بات کی گئی ہے۔
نئی تحقیق کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ الکوحل پر مبنی ہینڈ سینیٹائزرز کی مقدار جو عام طور پر ہاتھوں کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے وہ کافی نہیں ہے، ہاتھ دھونے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہینڈ سینیٹائزر یا صابن کی صحیح مقدار لے کر اِسے اپنی انگلیوں اور ہاتھوں کی پشت پر 30 سے 35 سیکنڈ تک مَلا جائے۔
ہر سال 5 مئی، ہاتھ کی حفظان صحت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، نئی تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج بھی ایک رپورٹ کی شکل میں گزشتہ 5 مئی کو جرنل Antimicrobial Resistance & Infection Control میں شائع کیے گئے ہیں۔
اس رپورٹ میں بوڈاپیسٹ سیملویس یونیورسٹی اور اوبودا یونیورسٹی کے محققین نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں ہزاروں افراد اسپتالوں میں انفیکشن کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، محققین نے ہاتھ دھونے سے متعلق بین الاقوامی سطح پر فراہم کی جانے والی رہنمائی کو بھی ناکافی قرار دیا ہے۔
محققین نے مشاہدہ کیا ہے کہ ہاتھوں کو جراثیم سے پاک کرنے کے عمل کے دوران اکثر انگلیوں اور ہاتھوں کے پچھلے حصے کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
محققین کے مطابق سینیٹائزر جیل کی شکل میں ہو یا مائع کی شکل میں، دونوں ہاتھوں پر جراثیم اور بیکٹیریا کی کچھ مقدار صاف کیے بغیر چھوڑ دیتے ہیں۔
محققین کا بتانا ہے کہ جیل کا استعمال 7 فیصد تک جبکہ مائع پر مبنی سینیٹائزر 5.8 فیصد تک ہاتھوں کو گندا چھوڑ دیتا ہے۔
اس کے برعکس ہینڈ سینیٹائزر کی جیل اور مائع پر مبنی 3 ملی لیٹر کی مقدار ہاتھوں کی صفائی بہتر انداز میں کرتی ہے، اس سے کم مقدار ہاتھوں کو مکمل طور پر جراثیم کش بنانے میں ناکام رہتی ہے۔
محققین نے نئی رپورٹ میں ہاتھ دھونے سے متعلق ڈبلیو ایچ او کے موجودہ اصولوں کو بھی ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہتھیلی میں سینیٹائزر کی 3 ملی لیٹر مقدار لےکر کم از کم 20-30 سیکنڈ تک رگڑنا چاہیے۔
مطالعے میں یہ بھی کہا گیا ہے حفظان صحت میں ہاتھ کا حجم بھی اہم ہے، ہر ہاتھ کے لیے 1.5 ملی لیٹر کی مقدار مناسب نہیں ہے، بڑے ہاتھ کے افراد کو 3 ملی لیٹر یا پھر اپنے ہاتھوں کے حجم کے مطابق سینیٹائزر استعمال کرنا چاہیے جس سے اِن کے ہاتھوں کی پشت، انگلیاں، انگلیوں کا اندرونی حصہ اور پورے (فنگر ٹپس) مکمل طور پر تر ہو جائیں اور دُھل جائیں۔
Comments are closed.