سونے کے ذخائر جو سوڈان کے لیے ’زحمت‘ کا باعث بنے

gold

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سوڈان میں گذشتہ ہفتے کے آخر میں ایک ہلاکت خیز ہنگامہ برپا ہوا جس کے نتیجے میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک اور 1100 کے قریب زخمی ہوئے۔

مختلف بین الاقوامی اداروں کے مطابق یہ ہلاکتیں فوج اور ملیشیا گروہ ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں ہوئیں۔ اب تک زیادہ تر جھڑپیں ملک کے دارالحکومت خرطوم میں ہوئی ہیں۔

تاہم اس تصادم کے پسِ منظر میں متعدد واقعات، تناؤ، تنازعات اور سیاسی جدوجہد کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے جس نے اپریل 2019 میں عمر البشیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آنے دیا۔

تازہ ترین تشدد کے واقعات کی وجوہات میں سے ایک دراصل دو اہم فوجی رہنماؤں کے درمیان بات چیت کا فقدان ہے جو ملک کو جمہوریت کی طرف لے جانے کے لیے اقتدار میں رہے۔ ان میں آر ایس ایف کے سربراہ حیمدتی کے نام سے مشہور محمد حمدان دگالو اور فوجی سربراہ اور ملک کے صدر عبدالفتاح البرہان شامل ہیں۔

تاہم سوڈان میں کشیدگی کا باعث بننے والے تمام عوامل میں ایک اہم عنصر یہ ہے کہ افریقی ملک کے پاس براعظم میں سونے کے سب سے زیادہ ذخائر ہیں۔

سال 2022 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سوڈان کی برآمدات ڈھائی ارب ڈالر کے قریب تھیں، جو 41.8 ٹن سونے کی فروخت کے برابر ہے۔

ملک کی زیادہ تر منافع بخش کانوں پر حیمدتی اور آر ایس ایف ملیشیا کا کنٹرول ہے، جو نہ صرف حکومت بلکہ پڑوسی ممالک کو بھی قیمتی دھات فروخت کر کے اپنے کاموں کی مالی اعانت فراہم کرتے ہیں۔

سوڈانی بحران کے ماہر شیوٹ ولڈیمائیکل بی بی سی منڈو کو بتاتے ہیں کہ ’سونے کی کانیں بہت سے معاشی مسائل والے ملک کے لیے آمدنی کا بنیادی ذریعہ بن گئی ہیں۔ تناؤ کے اس دور میں یہ ایک تزویراتی مقصد بن جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ آر ایس ایف کے لیے فنڈنگ کا ایک ذریعہ رہا اور فوج اسے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اس کے ساتھ بڑے پیمانے پر کان کنی نے کانوں کے آس پاس کے علاقوں میں منفی اثرات کا ایک سلسلہ پیدا کیا، جس میں نہ صرف بارودی سرنگوں کے گرنے سے بلکہ استعمال ہونے والے پارے (مرکری) اور آرسینک کی پانی میں ملاوٹ سے بھی بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔‘

سوال یہ ہے کہ سوڈان میں اس وقت جو پرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں ان میں ملک میں موجود سونے کے ذخائر کا کیا کردار ہے؟

gold

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سوڈان اور اس کے سونے کے ذخائر

سنہ 1956 میں برطانیہ سے سوڈان کی آزادی کے بعد تنظیم نو کا ایک مشکل عمل شروع ہوا جو اتار چڑھاؤ سے بھرا ہوا تھا۔ آغاز میں ملک کو تیل کی پیداوار کی صورت میں اپنے اخراجات پورے کرنے کا ایک طریقہ مل گیا تھا۔

تاہم سنہ 1980 کی دہائی کے وسط میں ملک کے جنوب میں آزادی کا عمل شروع ہوا جو 2011 میں ایک شدید تنازع اور مشکل سیاسی فیصلوں کے بعد، جمہوریہ جنوبی سوڈان کے قیام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

جمہوریہ جنوبی سوڈان کے قیام کے بعد سوڈان نے بیرون ملک خام تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا دو تہائی حصہ کھو دیا۔

یوں وسائل میں کمی نے ملک میں ایک ساتھ رہنے والے مختلف قبائل، ملیشیا اور مسلح گروہوں کے درمیان اندرونی کشیدگی میں اضافہ کیا۔

سنہ 2012 میں یہ سراغ ملا تھا کہ ملک کے شمال میں جبل امیر نامی علاقے میں ملک کی مشکل معاشی صورتحال کو دور کرنے کے لیے سونے کے ذخائر ہو سکتے ہیں۔

ٹفٹس یونیورسٹی سوڈان کے تجزیہ کار ایلیکس ڈی وال نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’یہ خبر یقینی طور پر خدا کی طرف سے مدد کی مانند تھی کیونکہ ملک نے جنوبی سوڈان کی صورت میں بہت کچھ کھویا تھا تاہم یہ جلد ہی ایک زحمت بن گئی کیونکہ اس کے باعث مختلف جماعتوں کے درمیان علاقائی کنٹرول کے لیے جدوجہد تیز ہو گئی اور ہر کوئی سونا حاصل کرنے کی لڑائی کا حصہ بن گیا۔‘

general

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سرکاری اعداد و شمار اور خود ڈی وال کے مطابق لاکھوں نوجوان چھوٹی بارودی سرنگوں اور روایتی آلات کے ذریعے اپنی قسمت آزمانے کے لیے ملک کے اس حصے میں پہنچ گئے۔ کچھ نے سونا حاصل کیا اور امیر ہو گئے، دوسرے کان گرنے کے باعث ہلاک ہو گئے یا پارے اور آرسینک کی آلودگی کے باعث بیمار پڑ گئے۔

یہ دونوں کیمیکل خام سونے کو پراسیس کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ سنہ 2021 میں مغربی کورڈوفن کے علاقے میں سونے کی ایک ناکارہ کان منہدم ہونے سے 31 افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح 31 مارچ کو ملک کے شمال میں ایک اور کان گرنے سے مزید 14 افراد ہلاک ہوئے۔

سوڈان یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مطابق سنہ 2020 میں ایسے علاقوں میں پانی پر تحقیق کی گئی جو سونے کی کانوں کے قریب تھے۔ اس تحقیق میں پارے اور آرسینک کی زیادہ مقدار پائی گئی۔

خرطوم کی بحری یونیورسٹی میں ماحولیاتی قانون کے پروفیسر ایل جیلی حمودہ صالح نے مقامی ریڈیو کو بتایا کہ ’سائنائیڈ اور مرکری کا استعمال یقینی طور پر ملک میں ماحولیاتی تباہی کا باعث بنے گا۔ ملک میں سونے کی کان کنی کی 40 ہزار سے زیادہ ویب سائٹیں ہیں۔‘

’سوڈان کی 13 ریاستوں میں سونے کی پراسیسنگ کرنے والی تقریباً 60 کمپنیاں کام کر رہی ہیں، جن میں سے 15 جنوبی کوردوفان میں ہیں۔ ان میں سے اکثر ماحولیات کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتیں۔‘

تاہم یہ صرف وہ واحد چیز نہیں، جس نے معاملات کو اس نہج تک پہنچایا۔

موسیٰ حلیل کے نام سے مشہور اور البشیر کے وفادار قبائلی رہنما نے ایک قبائلی قتل عام کے بعد علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا جس میں اس علاقے میں رہنے والے 800 سے زائد افراد کی جانیں گئیں۔

حلیل نے سونے کی کان کنی شروع کی اور انھوں نے یہ سونا نہ صرف خرطوم حکومت نہیں کو بلکہ دوسرے خریداروں کو بھی فروخت کیا۔

تاہم سنہ 2017 میں سنگین جرائم کے ملزم موسیٰ حلیل کو جب بین الاقوامی حکام کے حوالے کیا گیا تو آر ایس ایف کے رہنما اور البشیر کی حفاظت کے لیے خود کو وقف کرنے والے حیمدتی سے سونے کا کنٹرول سنبھال لیا۔

اس دوران سونے کی فروخت سے ہونے والی آمدنی ملک کی برآمدات کا تقریباً 40 فیصد تھی۔

ڈی وال کا کہنا ہے کہ ’سونے نے حیمدتی کو ملک میں معدنیات کا سب سے بڑا تاجر بنا دیا اور اس کی وجہ سے انھوں نے چاڈ اور لیبیا کے ساتھ سرحد پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا۔‘

gold

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سوڈان کی جمہوریت کی راہ

فوجی بغاوت کے باعث سنہ 2019 میں عمر البشیر کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک کو دو لوگوں کے ہاتھ میں چھوڑ دیا گیا جنھوں نے مسلح گروہوں کا کنٹرول سنبھالا ہوا تھا ایک حیمدتی اور دوسرے البرہان۔

ڈی وال کہتے ہیں کہ ’سونے کی پیداوار کو کنٹرول کرنے، 70,000 فوجیوں اور 10,000 سے زیادہ ٹرکوں کے ساتھ ہتھیاروں سے لیس آر ایس ایف اب سوڈان کی نوجوان فوج بن گئی تھی جو دارالحکومت خرطوم کی سڑکوں کو کنٹرول کرنے والی واحد طاقت کے طور پر ابھری تھی۔‘

سنہ 2021 میں دونوں رہنماؤں نے ایک ’کمزور‘ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ایک ایسا عمل شروع کرنے کا اعادہ کیا گیا تھا جو سوڈان میں ایک سول اور جمہوری حکومت کی موجودگی یقینی بنائے۔

وولڈ مائیکل کہتے ہیں کہ ’گذشتہ دسمبر کو منظور کیے گئے اس معاہدے میں یہ واضح تھا کہ سونے کی پیداوار ایک منتخب سویلین حکومت کے حوالے کر دی جائے گی تاہم واضح طور پر، حیمدتی کی بڑھتی ہوئی طاقت نے البرہان کے قریبی افراد کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ آر ایس ایف کی کارروائیوں کو کنٹرول کرنے میں کردار ادا کریں۔‘

تاہم وہ بتاتے ہیں کہ ایسی بہت سی قوتیں ہیں جو شمالی سوڈان میں سونا کنٹرول کرنے میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے نتیجے میں، البرہان کے زیرِ کنٹرول فوج نے سکیورٹی سیکٹر میں اصلاحات کے حوالے سے مذاکرات کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔

یہ ان بہت سے عوامل میں سے ایک تھا جس نے ہفتے کے آخر میں کشیدگی کو پرتشدد جھڑپوں میں بدل دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر لیبیا میں لڑائی کم ہوتی ہے، تو توقع تھی کہ مزید جنگجو جو لیبیا میں لڑ رہے تھے، واپس لوٹیں گے اور سونے کی کانوں سمیت وسائل کے لیے لڑائی جاری رکھیں گے۔‘

تجزیہ کاروں کے نزدیک امن کا زیادہ انحصار ملک میں تشدد کے استعمال کی مذمت کے بین الاقوامی نتائج پر ہو گا۔

ماہرین کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ فریقوں کو مکمل فتح حاصل ہو گی، لہٰذا بدقسمتی سے تمام فریقوں کی ہلاکتیں بڑھ سکتی ہیں اور اس طرح ملکی اور اس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر مذمت کی جاتی ہے، میرے خیال میں آخر کار بات مذاکرات تک جائے گی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ