کیا پوتن یوکرین جنگ ہار سکتے ہیں؟ کیا روس ٹوٹ سکتا ہے؟

فائل فوٹو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کیا صدر ولادیمیر پیوتن کی مقبولیت آسمان کو چھو رہی ہے

  • مصنف, زبیر احمد
  • عہدہ, نامہ نگار بی بی سی

مارچ 2000 میں، بی بی سی کے چینی سروس کے میرے ایک ساتھی اور میں رات کے کھانے کے لیے ماسکو کے ایک مشہور ریستوراں میں گئے۔ وہاں کچھ نوجوان لڑکیاں باری باری ایک ایک لوک گیت پر رقص کر رہی تھیں اور ہر میز سے ایک روسی نوجوان کو ڈانس فلور پر لا کر اسے فوجی وردی پہنا رہی تھیں۔

موضوع جنگ اور روسی فوجیوں کی بہادری کی لوک داستانوں پر مبنی تھا۔ گاؤں کے روایتی لباس میں ملبوس لڑکیاں لڑکوں کو جنگ کے لیے تیار کر رہی تھیں، جیسا کہ پرانے زمانے میں کیا جاتا تھا۔

بعد ازاں ایک روسی ساتھی نے ہمیں اس کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ روس میں گھروں اور دیہاتوں سے نوجوانوں کو میدان جنگ میں بھیجنا حب الوطنی کی روایتی مثال ہے اور ملک کے لیے قربانی دینا لوک کہانیوں کا حصہ ہے۔

اس کا عکس یوکرین پر روسی حملے میں شامل روسی فوجیوں میں ملتا ہے جو روس کے کئی صوبوں، دیہاتوں اور شہروں سے فوج میں شامل ہوئے ہیں۔ روس سے باہر کے لوگوں کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی کی وجہ سے صدر ولادیمیر پیوتن کی مقبولیت آسمان کو چھو رہی ہے۔

ان کی یہ مقبولیت 22-23 سال قبل چیچنیا کی بغاوت کو کچلنے میں ان کا جو کردار تھا اس وقت بھی محسوس کی جا سکتی تھی۔

دراصل، ہم 2000 میں صدارتی انتخابات کی رپورٹنگ کے لیے روس گئے تھے۔

ولادیمیر پیوتن چیچنیا میں بغاوت کو کچلنے کے بعد قومی ہیرو بن گئے تھے اور ان کا صدر منتخب ہونا محض ایک رسمی بات تھی۔ انہوں نے بھاری ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ لیکن اب 23 سال بعد پیوتن کے ناقدین نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ان کے دور میں ملک میں جمہوریت بہت کمزور اور آمریت مضبوط ہو گئی ہے۔

گزشتہ سال فروری میں یوکرین پر حملے کے بعد سے مغربی ممالک میں روسی ماہرین نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پیوتن کا فوجی اقدام ملک کے لیے خودکش ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول یوکرین میں شکست کے بعد سائز کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک روس اسی طرح بکھر سکتا ہے جس طرح 1991 میں سوویت یونین ٹوٹ گیا تھا۔

پیوتن

،تصویر کا ذریعہEPA

کیا روسی فیڈریشن ٹوٹ سکتی ہے؟

روسی امور کے ماہر اور مصنف جانوس بوگاسکی نے گزشتہ سال کے آخر میں اپنی کتاب’فیلڈ سٹیٹ: اے گائیڈ ٹو رشیاز ریپچر‘ شائع کی، جس میں وہ کہتے ہیں، اس بات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ولادیمیر پیوتن نے روس کو ٹوٹنے سے روکنے کے لیے اقتدار سنبھالا تھا لیکن اب شاید انھیں ملک کے زوال کے لیے یاد کیا جائے گا‘۔

خود روسی صدر پیوتن نے بھی گزشتہ ایک سال کے دوران مغربی ممالک اور نیٹو پر روسی فیڈریشن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور اسے چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کرنے کے کئی سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے آواخر میں سرکاری ٹی وی چینل ’روسیا‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر پیوتن نے کہا تھا کہ یہ سازش سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے جاری ہے۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پیوتن ایک طرف مغربی ممالک پر روس کے ٹکڑے کرنے کا الزام لگا رہے ہیں اور دوسری جانب اپنے ملک کا حجم بھی بڑھاتے جا رہے ہیں۔

گزشتہ سال ستمبر میں صدر پیوتن نے ماسکو میں ایک رنگا رنگ تقریب میں یوکرین کے چار صوبوں یعنی ڈونیٹسک، کھیرسن، لوہانسک اور زپوریزیا کو روس میں شامل کیا۔ انہوں نے ان صوبوں میں نام نہاد ’ریفرنڈم‘ کا انعقاد کیا تھا۔ کریمیا کا بھی 2014 میں اسی طرح کے ’ریفرنڈم‘ کے بعد ’غیر قانونی طور پر‘ الحاق کیا گیا تھا۔

روسی فیڈریشن کی سرحدیں مشرقی یورپ سے مغربی ایشیا تک ہیں اور یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ لیکن 15 کروڑ کے ساتھ اس کی آبادی تقریباً ریاست بہار کے برابر ہے۔ روس کی معیشت دنیا میں نویں نمبر پر ہے۔ پہلا روسی فیڈریشن 83 علاقوں، ریاستوں، شہروں اور صوبوں پر مشتمل تھا۔ اب ان کی تعداد 89 ہو گئی ہے۔ ان میں سے 21 صوبے ایسے ہیں جن کا تعلق غیر روسی نسلی اقلیتی برادریوں سے ہے۔

جوناتھن پرلمین ’آسٹریلین فارن افیئرز‘ کے ایڈیٹر اور اپنے ملک کے سینئر صحافی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’ایسے کوئی اشارےنہیں ہیں کہ امریکہ روسی فیڈریشن کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پیوتن نے گزشتہ فروری میں یوکرین پر حملہ کیا تھا، امریکہ اور مغربی ممالک اب یوکرین کی حمایت کر رہے ہیں جس کا مقصد روس کو اس پر قبضے سے روکنا ہے۔

صدر پوتن

،تصویر کا ذریعہRUSSIAN PRESIDENCY

،تصویر کا کیپشن

روسی فیڈریشن کی سرحدیں مشرقی یورپ سے مغربی ایشیا تک ہیں

اجے پٹنائک جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی میں سینٹر فار رشین اینڈ سینٹرل ایشین اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔

بی بی سی ہندی کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’میرے حساب سے روس نہیں بکھر سکتا۔ روس کو توڑنے کے لیے یا تو ان کے اپنے ملک میں جنگ ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ ہار جائے۔ ویتنام کی جنگ میں شکست کے بعد امریکہ بکھرا نہیں تھا۔ جنگ ہارنے کے بعد قیادت بدل سکتی ہے، لیکن روس کے ہارنے کا امکان نہیں ہے، اگر جنگ اختتام کو پہنچ جاتی ہے یا کچھ علاقوں میں روس کو شکست بھی ہوتی ہے تو اس کا اثر معمولی ہوگا‘۔

اجے پٹنائک کے مطابق روس میں قیادت کی تبدیلی کا امکان بھی کم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جنگ روس کے اندر نہیں ہو رہی۔ اگر روس کو علاقائی نقصان ہوا تو بھی یوکرین میں ہو گا۔ دوسرے روس پر لگائی گئی پابندیاں اس پر زیادہ اثر انداز نہیں ہو رہی ہیں۔ کوئی اقتصادی بحران پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ روس میں اگر روسی فوجی بڑی تعداد میں مرنا شروع کر دیں تو ملک میں احتجاج ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے قیادت بدل سکتی ہے‘۔

تیسری وجہ وہ مہاجرین ہیں جو یوکرین سے روس آئے۔ ان کی تعداد 27 لاکھ ہے۔ اس وقت روس آنے والے زیادہ تر مہاجرین کا تعلق یوکرین سے ہے جو روسی زبان بولتے ہیں اور روسی نژاد ہیں اور یہاں تک کہ وہ اسی تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں، وہ پیوتن کے ساتھ ہیں‘۔

سینئر صحافی جوناتھن پرلمین بی بی سی انڈیا کے ساتھ ایک ای میل انٹرویو میں کہتے ہیں، ’اگر روس جنگ ہار جاتا ہے تو یہ پیوتن کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ جاننا مشکل ہے کہ ان کا کوئی متبادل ہے یا نہیں، لیکن روسی فیڈریشن کا ٹوٹنا ممکن نہیں ہے‘۔

’یہ بات قابل غور ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ روس کو اُس طرح کے معاشی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو سیاسی بحران کا باعث بن سکتا ہے۔ روس تیل اور گیس فروخت کر کے کافی رقم کما رہا ہے۔ اس کی معیشت پر بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود وہ کسی پریشانی کا شکار نہیں ہے‘۔

فائل فوٹو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ماہرین کے مطابق روس میں قیادت کی تبدیلی کا امکان بھی کم ہے

کریملن ایک مرکزی طاقت کا محور ہے

مغربی ممالک کے روسی ماہرین کے مطابق پیوتن کی وجہ سے اس بہت بڑے ملک کی طاقت کا مرکز اب کریملن تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

دور دراز کے صوبوں میں بھی کریملن کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن امریکی مصنف جانوس بوگاسکی نے خبردار کیا ہے کہ روسی فیڈریشن متزلزل بنیادوں پر قائم ہے، جسے یوکرین کی جنگ نے اور بھی کمزور کر دیا ہے، اور کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہے۔

بی بی سی ہندی سے گفتگو میں ان کا کہنا ہے کہ ’ایک مضبوط ریاست کےپردے میں روس کی بہت سی کمزوریاں چھپی ہوئی ہیں، جنہیں دور کرنے کے لیے اب تک کوئی کام نہیں کیا گیا، یہ کمزوریاں یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے اور بھی واضح ہو گئی ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی کتاب میں ان کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے، چاہے وہ کمزور بنیادوں پر استوار قومی شناخت ہو، یا قوم کی تعمیر، یا عمومی معاشرہ، یا نسلی معاشرہ، یہ سب صرف کریملن کے طاقت کے مرکز سے ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔ جس پر پہلے کمیونسٹ پارٹی کا کنٹرول تھا اور اب یہ پیوتن کے کنٹرول میں ہے‘۔

بوگاسکی کہتے ہیں، ’سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے، ہم یہ الزامات سنتے آ رہے ہیں کہ مغربی ممالک روسی فیڈریشن کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں‘۔ لیکن ان کے مطابق، امریکہ یا یورپ کا کوئی رہنما نہیں چاہتا کہ روسی یونین ٹوٹ جائے۔

’تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ روسی فیڈریشن کے ٹوٹنے کے بہت سے فائدے ہیں۔ اس سے پڑوسی ممالک کی سلامتی میں اضافہ ہوگا اور روسی فیڈریشن میں رہنے والے لوگوں کو غلامانہ ذہنیت سے آزادی مل جائے گی‘۔

واشنگٹن کی کیتھولک یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر مائیکل سی کِمیج امریکہ اور روس کے تعلقات اور سرد جنگ کی تاریخ کے ماہر ہیں اور 2014 سے 2016 تک روس اور یوکرین کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کے ماہر رہے ہیں۔

فائل فوٹو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اگر روسی فیڈریشن ٹوٹ جاتی ہے تو وسیع ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ بنانا انتہائی مشکل ہو جائے گا:ماہرین

انہوں نے کہا، ’پیوتن نے گزشتہ 20 سالوں میں مضبوط فوجی اور خفیہ سروسز کے ادارے بنائے ہیں۔ ان میں سے کچھ انہیں سوویت یونین سے وراثت میں ملے ہیں۔ اور مجھے نہیں لگتا ہے کہ یہ ادارے اچانک گر جائیں گے‘۔

’شمالی قفقاز کے صوبوں داغستان، چیچنیا، یا مشرق بعید میں بھی روس سے علیحدگی کے لیے ٹھوس کوششوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ روس کے پاس مستقبل قریب میں اپنی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنے کی طاقت ہے‘۔

فلپ واسیلویسکی امریکہ کے فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ وہ کئی دہائیوں تک امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے میں کام کر چکے ہیں۔

اپنے ایک مضمون میں یوکرین میں روس کی شکست کے ممکنہ نتائج کی تصویر کشی کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں، ’اگر روس کی مرکزی حکومت، شکست خوردہ فوج اور کمزور سکیورٹی سروسز کے ساتھ مسلح طاقت کی لڑائی میں الجھ جاتی ہے، تو یہ صورت حال اندر کی کچھ نسلی جمہوریہ کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے اور علیحدگی کی کوشش کرنے کے لیے تحریک دے سکتی ہے ۔ یہ صورت حال روسی فیڈریشن کو اور بھی زیادہ افراتفری میں ڈال دے گی‘۔

سینئر آسٹریلوی صحافی جوناتھن پرلمین کے مطابق جوہری ہتھیاروں سے لیس روس کے زوال سے مغرب اور دنیا بھر کے ممالک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں گے‘ اگر روسی فیڈریشن ٹوٹ جاتی ہے تو وسیع ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ بنانا انتہائی مشکل ہو جائے گا‘۔

پیوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاریخ میں روس کے ٹوٹنے یا بکھرنے کی مثالیں

جیسا کہ پروفیسر مائیکل کِمیج نے دلیل دی کہ روسی فیڈریشن کے ٹوٹنے کا امکان بہت کم ہے، لیکن ایک ہی وقت میں، ایک مورخ ہونے کے ناطے، وہ روس کے ٹوٹنے کے امکان کو مکمل طور پر رد بھی نہیں کرتے۔

وہ کہتے ہیں،’یقینا آپ تاریخ کی آخری دو مثالوں پر نظر ڈال سکتے ہیں۔ پہلی مثال 1991 کی ہے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان میں روسی شکست کی وجہ سے سوویت یونین ٹوٹ گیا‘۔

’یہ صرف ماسکو میں حکومت کی تبدیلی نہیں تھی، بلکہ اصل میں ایک نیا نقشہ تیار ہوا تھا، جہاں سوویت یونین کو 15 آزاد ممالک میں تقسیم کیا گیا تھا، لیکن اس کی نظیر 1917 کی ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں روس کو مکمل طور پر شکست نہیں ہوئی تھی۔

پہلی جنگ عظیم میں اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے 1917 میں ایک انقلاب آیا، اور اس انقلاب کے ساتھ ایک خانہ جنگی شروع ہوئی، جو روسی سلطنت کے مکمل خاتمے کا باعث نہیں بنی، بلکہ ایک بڑی تعمیر نو کا سبب بنی‘۔

روسی امور کے ماہر بوگاسکی نے روس سے باہر بھی ملک کے ٹکڑے ہونے کی مثال دی ہے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس کا زوال آہستہ ـہستہ ہوا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کی وجہ سے 1918 اور 1922 کے درمیان ترکی کا زوال ہوا تھا۔

بوگاسکی کا کہنا ہے کہ روسی فیڈریشن کا انہدام ناگزیر ہے، لیکن یہ آہستہ آہستہ ہو گا، یہ راتوں رات نہیں ہو گا۔ یہ ایک ایسا عمل ہو گا جس میں وقت لگے گا۔ یاد رہے کہ یوگوسلاویہ کو ٹوٹنے میں دس سال لگے تھے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ زوال ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔یاد رکھیں ہم ایک بڑے ملک کی بات کر رہے ہیں، میں کہوں گا کہ یوکرین میں جنگ یقینی طور پر اس عمل کو تیز کرے گی کیونکہ روسی ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں‘۔

جے این یو کے پروفیسر پٹنائک کے خیال میں جو ممالک بکھرے ہوئے ہیں ان کا سیاق و سباق مختلف ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’دراصل 1917 میں روس جنگ میں مغربی ممالک کے ساتھ تھا۔ ان کی شکست کی وجہ انکی معیشت تھی۔ فوجیوں کے پاس پہننے کے لیے بوٹ تک نہیں تھے، وردی نہیں تھی اور 1991 میں جو سوویت یونین بکھرا وہ کسی جنگ کا نتیجہ نہیں تھا، روس، بیلاروس اور یوکرین نے اسے توڑ دیا وہ راتوں رات سوویت یونین سے الگ ہو گئے، وسط ایشیا کے ممالک نے کہا بھی کہ یونین سے نہ نکلیں فارمولہ تیار کیا گیا ’کامن ویلتھ آف انڈپینڈن سٹیسٹں‘۔

فائل فوٹو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یوکرین جنگ کے بعد سے خطے میں چین پر روس کا انحصار بڑھ گیا ہے

روس کا زوال کیا چین کے لیے اچھی خبر ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ روسی فیڈریشن کے ٹوٹنے یا اس کے کمزور ہونے سے چین کو وسطی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد ملے گی۔ امریکی محکمہ خارجہ میں کام کرنے والے کیتھولک یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل کِیمج کہتے ہیں کہ چین کا اثر و رسوخ وسطی ایشیا میں پہلے ہی بڑھ چکا ہے۔

ان کے مطابق چین کے لیے وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ کام کرنے کا راستہ کھلا ہے، ’میں نہیں جانتا کہ چین کے عزائم کس حد تک ہیں، لیکن آپ ان کے لیے زیادہ امکانات دیکھ سکتے ہیں‘۔

پروفیسر مائیکل کِیمج کہتے ہیں، ’میرے خیال میں یہ جنگ چین کے لیے فائدہ مند رہی ہے کیونکہ اس سے خطے میں چین پر روس کا انحصار بڑھ گیا ہے۔ دوسری طرف یورپ اور امریکہ، یوکرین کی جنگ میں بہت زیادہ وسائل حرچ کر رہے ہیں۔

مصنف بوگاسکی کا خیال ہے کہ چین کی نظریں روس کی کمزوری پر جمی ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’چین کی نظریں صرف وسطی ایشیا کے ممالک پر ہی نہیں رہیں گی بلکہ روس کے مشرقی بحرالکاہل کے علاقے، سرحدی علاقے جو 19ویں صدی میں چین کا حصہ تھے، ان علاقوں کو روسی زار نے چین سے چھین لیا تھا‘۔

اس بارے میں بیجنگ میں اب بھی کافی ناراضگی ہے۔ یہ ناراضگی اس وقت سامنے آیے گی جب روس کمزور ہونا شروع ہو گا۔ چین نہ صرف مشرقی علاقوں بلکہ سائبیریا اور مشرق بعید کے وسائل سے مالا مال علاقوں کے ساتھ ساتھ شمالی سمندری علاقوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے‘۔

چین کو روکنے کے لیے مغربی طاقتوں کو انڈیا کی ضرورت ہوگی، جیسا کہ جانوس بگاسکی کہتے ہیں، ’تشدد اور تصادم کا سہارا لیے بغیر چین کے عزائم کو کیسے روکا جائے، یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا لیکن خطے میں ہمارے بہت سے اتحادی ممالک ہیں اور میں اس میں انڈیا کو بھی شامل کروں گا کیونکہ انڈیا مغربی ممالک کو خطے میں استحکام لانے میں مدد دے سکتا ہے‘۔

صدر پوتن، وزیر اعظم نریندر مودی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پروفیسر اجے پٹنائک کا کہنا ہے کہ وسطی ایشیا کے پانچوں ممالک میں گزشتہ 20 سالوں میں چین کا کردار بڑھ گیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’چین کی اقتصادی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ چین نے ان ممالک میں بنیادی ڈھانچے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ چین اقتصادی طور پر ان ممالک میں کافی اندر تک گھس گیا ہے۔ صدر یلسن کے دور میں وسطی ایشیا کو نظر انداز کیا گیا‘۔

’لیکن پیوتن کے آنے کے بعد روس نے دوبارہ اس خطے پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ روس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس خطے میں ایک قابل اعتماد پارٹنر ہے۔ 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے تاجک افغان سرحد کی حفاظت روسی فوجی ہی کرتے رہے ہیں۔ روس نے تاجکستان کو خانہ جنگی اور بنیاد پرست قوتوں سے بچایا ہے‘۔

انڈیا کا کیا کردار ہو سکتا ہے ؟

ایک شکست خوردہ اور ممکنہ طور پر منتشر روسی فیڈریشن کا خطے میں انڈیا کی خارجہ پالیسی پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟پروفیسر پٹنائک کہتے ہیں، ’وسطی ایشیا کے پانچ ممالک باہر سے مسلط کی گئی جمہوریت کی کوششوں کو پسند نہیں کرتے۔ وہاں کے سیاسی مزاج میں ایسے مضبوط لیڈروں کو پسند کرنا شامل ہے جو لوگوں کا خیال رکھ سکیں‘۔

’انڈیا نے ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کا صحیح فیصلہ کیا ہے۔ تمام وسطی ایشیائی ممالک ہمارے لیے اقتصادی طور پر اہم ہیں۔ وسطی ایشیا اور یوریشیا میں انڈیا کے لیے ٹرانسپورٹ کوریڈور دستیاب نہیں ہیں۔ روس، قازقستان، کرغزستان، بیلاروس اور آرمینیا ایک یونین ہے جسے یوریشیا یونین کہا جاتا ہے اور جس میں آپس میں سامان کی آزادانہ نقل و حرکت ہے۔

انڈیا ٹرانسپورٹ کوریڈور کے ذریعے اس بازار تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے بات چیت جاری ہے‘۔ واشنگٹن کی کیتھولک یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر مائیکل سی کیمج کے مطابق غیر جانبدار رہنا انڈیا کی مجبوری ہو سکتی ہے لیکن ان کے مطابق امریکی انتظامیہ انڈیا اور دیگر ممالک سے یوکرین کی حمایت کی توقع کرنا چاہے گی۔

وہ کہتے ہیں، ’میں نے امریکی محکمہ خارجہ میں کام کیا ہے اور میرا جواب بہت واضح ہے۔ آپ نے پہلے ہی کئی بار امریکی حکومت کی طرف سے یہ دلیل سنی ہو گی کہ یہ انڈیا غلطی کر رہا ہے۔ یوکرین کا تنازعہ بہت اہم ہے اور یہ آنے والے سالوں اور کئی دہائیوں تک عالمی سطح پر بین الاقوامی ترتیب کا تعین کرے گا‘۔

BBCUrdu.com بشکریہ