
اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے کہا ہے کہ جسٹس منصور کے نوٹ کا دوسرا پیراگراف اہمیت کا حامل ہے، اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ دو ججز کے نوٹ سے اتفاق کرتے ہیں۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے ہمراہ سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے کہا کہ بڑی تیز رفتاری سے عدالتی کارروائی ہوئی، پرسوں صبح سے شام 6 تک سماعت چلی اور کل بھی 9 سے 6 عدالت چلی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے چیف جسٹس نے 9 ممبر بینچ بنایا، دو فاضل ججز جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اختلاف کیا، اختلافی نوٹ کے فٹ نوٹس میں کہا ہے کہ جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہرمن اللّٰہ کا نوٹ بھی کیس کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ اس طرح 4 ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے، یہ 7 میں سے 3 ججز کا فیصلہ ہے، کیس 9 ممبر بینچ سے شروع ہوا تھا، 23 فروری کو دو ممبران نے کیس کو مسترد کر دیا تھا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے 2 ججز کے نوٹ کو فیصلہ جان کر ان کو بینچ میں شامل نہیں کیا، آج 5 رکنی بینچ کے 3 ججز نے زمینی حقائق دیکھ کر 9 اپریل سے آگے لے جانے پر مشاورت کا کہا۔
انہوں نے کہا کہ دو ججز نے واضح کہا کہ جسٹس یحیٰ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ سے اتفاق کرتے ہیں، دو ججز نے کہا کہ یہ درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، یہ درخواستیں چار تین کے تناسب سے مسترد ہو گئی ہیں، دو ججز نے خود کیس سننے سے معذرت کی۔
وزیر قانون کا کہنا ہے کہ اس کیس میں نظرثانی اور تشریح کی ضرورت نہیں، جو آئینی اور قانون بات ہے وہی ہونی چاہیے، اس فیصلہ میں نظر ثانی والی بات نہیں ہے، فیصلہ واضح ہو تو نظرثانی والی بات نہیں ہوتی، دو ججز صاحبان کہہ چکے یہ کیس قابل سماعت نہیں، آج کے فیصلے میں تین ججز نے کہا کہ کیس قابل سماعت ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدالت نے کہا صدر اور الیکشن کمیشن مشاورت سے انتخابات کی تاریخ دے، ہمارا مؤقف ہے کہ یہ پٹیشن چار تین سے مسترد ہو گئی ہے، میری نظر میں تشریح طلب اور نظرثانی کی ضرورت نہیں ہے، اگر کسی کو اختلاف ہوا تو جا کر تشریح کرالیں گے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا ہے کہ صدر مملکت نے ایک فیصلہ تھوپ کر واپس لیا، صدر کے وکیل نے کہا کہ صدر نے اختیارات سے تجاوز کیا، پشاور ہائی کورٹ میں یہ انتخابات کا معاملہ زیر التوا ہے، صدر مملکت نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ صدر نے اپنی آئینی ذمے داری پوری کرنی ہے یا پھر پارٹی ورکر بن کر فیصلے کرنے ہیں، فاضل جج صاحبان نے فیصلہ دیا ہے کہ ہائی کورٹس فیصلہ کریں، انتخابات کی تاریخ اور انعقاد ہمیشہ آئین کے مطابق ہوتے رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ صوبوں میں انتخابات سے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی حلقہ بندی متاثر ہو گی، دو صوبوں میں سیاسی حکومتیں قائم ہو گئیں تو قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہو گی۔
Comments are closed.