ایک صدی قبل بچھڑے خاندانوں کو ملانے والے شمشو دین: ’یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کو ایک بار پھر محبت ہو جائے‘

  • مصنف, سوامی ناتھن نٹراجن
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس

شمشو دین

،تصویر کا ذریعہShamshu Deen

’جب بھی میں بچھڑے ہوئے خاندانوں کو ڈھونڈ نکالتا ہوں تو میں بہت پرجوش اور جذباتی محسوس کرتا ہوں اور میرے اندر کامیابی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔‘

کریبین ملک ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے شمشو دین نے گزشتہ صدی کے آخری چوتھائی عرصے میں جغرافیہ کے استاد سے ماہر ارضیات (جیولوجسٹ) بن کر کیریبین میں ایسے 300 سے زیادہ انڈین خاندانوں کو تلاش کر کے ان کے رشتہ داروں سے ملوا دیا جن کا طویل عرصے سے اتا پتا ہی نہ تھا۔

شمشو دین نے اپنی ان کاوشوں میں جن افراد کو اپنے خاندان سے ملوایا ان میں دو سابق وزرائے اعظم اور ان کے اپنے خاندان کے دو افراد شامل ہیں۔ اپنی کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا۔

’یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کو ایک بار پھر محبت ہو جائے۔ جب آپ کو پتا چلے کہ آپ کے خاندان کا کوئی ایسا فرد بھی ہے جس کے بارے میں آپ لا علم ہیں تو آپ فوری طور پر اس سے اپنائیت کا ایک تعلق قائم کر لیتے ہیں۔‘

انڈیا میں برطانوی راج کے دوران غلامی کو تو ختم کر دیا گیا تھا لیکن لیبر(مزدوروں) کی کمی کو جواز بناتے ہوئے انڈیا کے غریب عوام کو برطانوی سلطنت میں سستے مزدور کے طور پر استعمال کیا گیا۔

انڈیا کے بے شمار افراد نے 1838 سے 1917 کے درمیان باغات پر کام کرنے کے لیے انڈیا سے کیریبین، جنوبی افریقہ، ماریشس اور فجی تک کا سفر کیا جس کے اثرات اب بھی دنیا بھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسے بے شمار انڈین آج بھی ان ممالک میں آباد ہیں۔

اگرچہ ان میں سے زیادہ تر مزدور اپنی مرضی سے گئے تھے تاہم ممکنہ طور پر ناخواندہ یا پڑھے لکھے نہ ہونے کے باعث ان کو نہ ہی وہاں کے حالات سے مکمل آگاہی تھی اور نہ ہی وہ ان معاہدوں کی باریکیوں سے واقف تھے جن پر دستخط کر کے وہ ان ممالک میں جا کر آباد ہوئے۔

انہی میں کچھ ایسے بھی تھے جنھیں زبردستی دوسری کالونیز میں لے جایا گیا۔

بہت سے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس ملک میں کام کرنے جا رہے ہیں۔ کچھ مؤرخین نے انڈینٹڈ لیبر سسٹم (لاکھوں غریب انڈین مزدوروں کو جبری سستی مشقت کے لیے یورپ بھیجنے کا معاہدہ) کو’غلاموں کی نئی تجارت‘ قرار دیا۔

اب کیریبین میں اس جبری مشقت سے گزرنے والوں کی تیسری نسل واپس انڈیا کا رخ کر رہی ہے اور شمشو دین کی مدد سے وہ اپنے ایسے رشتہ داروں کو تلاش کر رہے ہیں جن کے بارے میں وہ کبھی آگاہ ہی نہیں تھے۔

مزدور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

انڈیا میں برطانوی راج کے دوران غلامی کو تو ختم کر دیا گیا تھا لیکن مزدوروں کی کمی کو جواز بناتے ہوئے انڈیا کے غریب عوام کو برطانوی سلطنت میں سستے مزدور کے طور پر استعمال کیا گیا

جبری مشقت برداشت کرنے والوں کے خاندان نئی نسل سے مل پائے

دیگرافراد کے خاندانوں کا سراغ لگانے کے دوران شمشو دین کا تجسس اس وقت بڑھ گیا جب دستاویزات کی چھان بین کے دوران ان کے سامنے ایسا شجرہ نسب (فیملی ٹری ) آیا جس میں ان کے اپنے خاندانی نام موجود تھے اوروہ نام ان کے طالب علمی کے زمانے میں ان کے سکول ریکارڈ پر بھی موجود تھے۔

شمشو دین نے بتایا ’جس زمین پر ہمارا گھر بنایا گیا تھا وہ منرہ دین نے خریدی تھی اور وہ میرے دادا کے دادا تھے تاہم خاندان کے موجودہ افراد میں سے کوئی بھی ہمیں ان کے بارے میں مزید کچھ نہیں بتا سکتا تھا۔‘

تعلیم مکمل کرنے کے بعد شمشو دین نے کینیڈا جا کے ملازمت کر لی۔ سنہ 1972 میں ٹرینیڈاڈ کے اپنے پہلے سفر کے دوران، وہ ریڈ ہاؤس گئے جو بعد میں امور قانون کی وزارت بن گیا تھا۔

اس سفر میں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ، ان کا بھائی اور بھابھی بھی تھیں۔ انھوں نے وہاں ایک کوٹھری میں رکھے کاغذات کے ڈھیر میں منردین کا سراغ لگانا شروع کیا اور تقریباً چار گھنٹے کی چھان بین کے بعد انھیں کامیابی کی ایک جھلک ملی۔

’میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی جب میں نے دیمک زدہ کتاب کے آخری صفحے میں منرہ دین کا نام لکھا پایا۔‘

انھوں نے ہسنتے ہوئے بتایا کہ ’وہ پانچ جنوری 1858 کو کلکتہ سے نکل کر اور 10 اپریل کو یہاں پہنچے تھے۔‘

اس کامیابی کے بعد شمشو دین نے منرہ دین کے بارے میں تفصیلات جاننے کے لیے دیگر دستاویزات کا استعمال کیا۔ ’ہم جانتے ہیں کہ منرہ دین پڑھے لکھے تھے اور انگریزی بولتے تھے۔‘

انھوں نے پہلے باغات پر نوکری کی اور بعد میں ترجمہ کا کام شروع کیا۔ اپنا معاہدہ پورا ہونے کے بعد، منرہ دین ایک استاد بن گئے اور اس کے بعد انھوں نے دو دکانیں کھول لیں۔ ان کی دو بیویاں اور پانچ بچے تھے۔

وہ جس گھر میں رہتے تھے ان کی وفات کے بعد وہ ان کے بچوں کو وراثت میں مل گیا تاہم بعد میں وہ آگ لگنے کے واقعے میں تباہ ہو گیا تھا۔

بھونگی

،تصویر کا ذریعہShamshu Deen

،تصویر کا کیپشن

بھونگی 1872 میں انڈیا سے ایک مزدور کے طور پر کیریبین پہنچی تھیں

رشتے داروں سے ملاقات

منرہ دین جیسے کئی دیگر افراد اپنے معاہدوں کی پابندی کے مطابق مزدوری کر کے اپنے خاندانوں کی گزر بسر کا سامان کرتے رہے اور آخر کاراپنے وطن سے دور انھی زمینوں پر مزدوری کرتے کرتے مرگئے۔ اس تحقیق کے دوران شمشو دین اپنے خاندان کی تین نسلوں کا سراغ لگانے میں کامیاب رہے۔

’1852 میں میرے والد کی دادی کے والد مکتی، کلکتہ کی بندرگاہ سے روانہ ہوئے تھے۔‘

مکتی ان کے خاندان میں وہ سب سے بزرگ شخص تھے جنھیں وہ پہچان پائے۔ منرہ دین کی عمر اس وقت محض 23 سال تھی۔ 1859 کی دستاویزات میں صرف ان گاوں اور قصبوں کے نام شامل تھے جہاں سے وہ آئے تھے لیکن کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ ان میں سے منرہ دین کا تعلق کس گاؤں یا قصبے سے ہے۔

انھوں نے اپنی والدہ کا شجرہ نسب کھنگالنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ والدہ کی جانب سے خاندانی بزرگ 1865 سے 1875 کے درمیانی عرصے میں وہاں منتقل ہوئے تھے جس میں ان کے اصل گاوں یا علاقے کا نام جاننا سہل تھا۔

’میرے نانا کی نانی جوسیمیا 1870 میں اگست سے نومبر کے دوران سفر کر کے وِلٹ شائر پہنچیں اور میں نے ان کے بھائی جمن جولاہا کی اولادوں کو اتر پردیش میں ڈھونڈ لیا۔‘

شمشو دین انڈیا کی ان دستاویزات میں جوسیمیا کو تو تلاش نہیں کر پائے لیکن ان کی موت کے اندراج کا ڈیٹا انھیں اپنے خاندان کے گمشدہ افراد کی جانب ضرور لے گیا۔

اس کے بعد ان کی تلاش آگے بڑھتی گئی اور آخر کار وہ اپنے خاندان کی آخری فرد بھونگی کے آباؤ اجداد تک پہنچنے میں کامیاب رہے جو 1872 میں انڈیا سے ایک مزدور کے طور پر کیریبین پہنچی تھیں۔

شمشو دین کو کیریبین اور انڈیا دونوں جگہ بھونگی کے رشتہ داروں سے ملنا انتہائی اچھا لگا۔

’میرے پاس بھونگی کی صرف ایک تصویر ہے جو 1949 میں وفات پا گئی تھیں۔ اس وقت جب میں صرف تین سال کا تھا۔ وہ اپنے پڑپوتے اور پڑ پوتیوں کے ساتھ رہتی تھیں۔‘

شمشو دین

،تصویر کا ذریعہShamshu Deen

،تصویر کا کیپشن

شمشو دین کو انڈین ہائی کمیشن نے 10 ہندواور 10 مسلمان خاندانوں کا کھوج لگانے کے لیے باقاعدہ سکالرشپ دیا

مشغلہ جو کیریئر میں تبدیل ہو گیا

شمشو دین آگے چل کر جغرافیہ کے استاد بن گئے لیکن لوگوں کو اپنوں سے ملانے کا ان کا شوق بڑھتا گیا یہاں تک کے انڈین ہائی کمیشن نے 10 ہندواور 10 مسلمان خاندانوں کا کھوج لگانے کے لیے باقاعدہ سکالرشپ دیا۔

انھوں نے کم از کم 300 ایسے خاندانوں کی مدد کی جو انڈینٹڈ لیبر سسٹم سے متاثر ہوئے تھے۔ بعد میں انھوں نے اس کام کو ہی اپنا پیشہ بنا لیا اور وہ ایک ماہر جینیولوجسٹ (خاندانوں کا شجرہ نسب ڈھونڈنے کے ماہر) بن گئے اور ٹرینیڈاڈ اور انڈیا دونوں ملکوں میں تحقیق کاروں کی مدد کر کے معاوضہ حاصل کیا۔

انھوں نے اپنے اس کام کے دوران جن خاندانوں کو ملایا ان میں ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگوکے دو وزرائے اعظم باس دیو پانڈے اور کملا پرساد بسیسر شامل ہیں۔

اگرچہ نقشہ جات اور تاریخی ریکارڈز تک ڈیجیٹل رسائی کی وجہ سے آج لوگوں کا سراغ لگانا ماضی کے مقابلے میں اب قدرے آسان ہے تاہم شمشو دین کا کہنا ہے کہ چیلنجز اب بھی باقی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق کامیابی کی شرح تقریباً 80 فیصد ہے۔

’میں ہر کسی کا نسب تلاش نہیں کر سکتا۔ کچھ معاملات میں، دستاویزات میں معلومات بھی غلط دی گئی تھیں۔‘

وہ مزدور جنھوں نے گاؤں میں زمین خریدی اور بڑا سکول تعمیر کیا

شمشو دین نے بالی اور لیلا مہاراج کے انڈیا کا دورہ کر کے ان کے آباو اجداد کا تعمیر کیا ہوا اس سکول کو دیکھنے میں بھی مدد فراہم کی

،تصویر کا ذریعہShamshu Deen

،تصویر کا کیپشن

شمشو دین نے بالی اور لیلا مہاراج کے انڈیا کا دورہ کر کے ان کے آباو اجداد کا تعمیر کیا ہوا اس سکول کو دیکھنے میں بھی مدد فراہم کی

بدقسمتی سے انڈیا سے ٹرینیڈاڈ جاتے ہوئے کچھ انڈینٹڈ ورکرز کی موت بھی واقع ہوگئی تھی۔ اس کے تحت کام کرنے والوں کو اکثر سخت اور مشکل حالات کا سامنا رہتا تھا تاہم انھی میں کامیابی کی کچھ کہانیاں بھی شامل ہیں۔

شمشو دین بتاتے ہیں کہ بہت سے کارکن دراصل رضاکارانہ طور پر اپنا معاہدہ ختم ہونے کے بعد ٹرینیڈاڈ میں واپس آ گئے تھے اور آزاد شہری کے طور پر زندگیاں گزارنے میں کامیاب رہے تھے۔

وہ ٹرینیڈاڈ سے بالی اور لیلا مہاراج کے فیملی ٹری کو ڈھونڈنے میں مدد کو بھی یاد کرتے ہیں جس کے باعث وہ ان کے آباؤ اجداد کی چھان بین کے دوران ان کے خاندان کے بزرگ پلٹو پرساد کو ڈھونڈ پائے، جنھوں نے معاہدہ مکمل ہونے کے بعد آزادی حاصل کر کے انڈیا میں واقع اپنے گاؤں میں زمین خریدی اور وہاں ایک بڑا سکول تعمیر کیا۔

شمشو دین نے بالی اور لیلا مہاراج کے انڈیا کا دورہ کر کے ان کے آباو اجداد کا تعمیر کیا ہوا اس سکول کو دیکھنے میں بھی مدد فراہم کی۔

شمشو دین کہتے ہیں کہ انھیں اس تلاش اور چھان بین کے دوران خوشی کے وہ جذباتی لمحات بھی مل جاتے ہیں جو انمول ہوتے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے ڈیوڈ لکھن اور اس کے خاندان کی مثال دی۔

ڈیوڈ لکھن کہتے ہیں کہ ’اپنے سکول کے زمانے سے ہی مجھے یہ جاننے کی خواہش تھی کہ میرے آباو اجداد کہاں سے آئے ہیں۔ میرے پڑدادا 1888 صرف 22 سال کی عمر میں یہاں آئے تھےاور دستاویز میں ان کی تفصیلات میں صرف ایک نام لکھن درج تھا تاہم میں ان کے اتنے طویل سفر کے فیصلے کے پیچھے جذبے کی کہانی جاننا چاہتا تھا۔‘

شمشو دین نیشنل آرکائیوز سے ان کی نقل مکانی کی، وہ دستاویزات نکالنے میں کامیاب ہو گئے جس میں لکھن کے بھائی، والد، ذات اور اس کے گاؤں کی تفصیلات درج تھیں۔

انڈیا میں اپنے مقامی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے وہ ڈیوڈ لکھن کے طویل عرصے سے گمشدہ رشتہ داروں کا پتا لگانے میں کامیاب ہو گئے جنھوں نے 2020 میں انڈیا میں اس خاندان کے ملاپ کے لیے راہ ہموار کی اور 132 سال میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔

’یہ سب ایک خواب کے سچ ہونے جیسا تھا‘

ڈیوڈ لکھن کا خاندان

،تصویر کا ذریعہGeeta Lakhan

،تصویر کا کیپشن

شمشو دین اپنے مقامی ذرائع سے ڈیوڈ لکھن کے طویل عرصے سے گمشدہ رشتہ داروں کا پتا لگانے میں کامیاب ہو گئے

ڈیوڈ لکھن نے اس کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا تجربہ قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ’ یہ سب ایک خواب کے سچ ہونے جیسا تھا تاہم یہ رابطہ حقیقی تھا۔ اس دوران میں بہت رویا۔ مجھے اپنے خاندان کے بارے میں جان کر بہت اچھا لگا اور یہ زندگی بدلنے والا اچھا تجربہ تھا۔‘

لکھن کے خاندان کے دیگر افراد نے گاؤں جانے سے پہلے ان سے وارانسی میں ملاقات کی جو مقدس شہر سمجھا جاتا ہے۔

ڈیوڈ کی بیوی گیتا لکھن اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہمیں توقع نہیں تھی کہ پورا گاؤں باہر نکل کر ہمارا استقبال کرے گا۔ انھوں نے بھرپور استقبال کرتے ہوئے ہمیں ہار پہنائے۔‘

ڈیوڈ لکھن نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ’عجیب بات یہ ہے کہ ہمیں پوری امید تھی کہ ہم انھیں ڈھونڈ نکالیں گے اور وہ بھی ایسا ہی محسوس کر رہے تھے جیسے کوئی انھیں ڈھونڈنے کو بے چین ہے۔ وہ لکھن کے غازی پور میں ہی رہ جانے والے بھائی کے پڑپوتوں سے بھی ملے، جنھوں نے لکھن کے گھر کو نئے سرے سے تعمیر کروایا تھا۔

ان خاندانوں نے حقیقی زندگی میں ملنے سے پہلے ویڈیو کال کے ذریعے ایک دوسرے سے بات کی تھی اور اب وہ اسی طرح نہ صرف باقاعدگی سے بات چیت کرتے ہیں بلکہ زبان ترجمے کے ٹولز کا استعمال کر کے ایک دوسرے کی بات چیت بآسانی سمجھتے ہیں۔

گیتا لکھن نے بتایا کہ انھیں اپنے انڈین رشتہ داروں کے ساتھ بہت سی قدریں مشترک ملی ہیں۔

’میری امی کے بنائے جانے والے کھانوں سے جو خوشبو آتی تھی، وہ ایسی ہی تھی جیسے ہمیں انڈیا میں ملی۔ ہم ایک ہی جیسی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ میرے والدین ہندی زبان میں بات کرتے تھے۔ میں ہندی میں بات نہیں کر پاتا لیکن میں ہندی میں عبادت کرتی ہوں۔‘

گیتا اور ڈیوڈ لکھن اب اپنے سات سالہ پوتے کو اپنے ساتھ انڈیا کا سفر کرواتے ہوئے اس کے اندر بھی وہ سب جاننے کا تجسس بڑھا رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ وہ خاندان کے اس کے ورثے میں دلچسپی لے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

شمشو دین

،تصویر کا ذریعہShamshu Deen

،تصویر کا کیپشن

شمشو دین کو کیریبین اور انڈیا دونوں جگہ بھونگی کے رشتہ داروں سے ملنا انتہائی اچھا لگا

’ہر کہانی جیسے نیا معمہ ہے‘

جہاں تک شمشو دین کا تعلق ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اس کام سے جڑے ہوئے ہیں۔ 1996 میں وہ چھ ماہ کے لیے انڈیا گئے، جہاں انھوں نے مزید 14 خاندانوں کا سراغ لگایا۔

شمشو دین اب 76 سال کے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ وہ جو کام کرتے ہیں وہ اب بھی انھیں ’خوشی اور توانائی‘ دیتا ہے۔

’ہر کہانی ایک معمہ ہے۔ کوئی دو معاملات ایک جیسے نہیں۔ جب تک جسمانی طاقت اور یادداشت میرے ساتھ ہے، میں یہ مشن جاری رکھوں گا۔ اس سے مجھے آگے بڑھنے میں مدد ملتی ہے‘

اور اب جانیے کہ شمشو دین اپنی خاندانی تاریخ جاننے کے سفر کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

’میرا گھر ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو ہے۔ میرے بچے اور پوتے کینیڈا میں رہتے ہیں، جو ٹرینیڈاڈ اور انڈیا دونوں کے ساتھ نسلی اور ثقافتی روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔‘

’میرا خیال ہے کہ تمام انسانوں کی طرح، ہم سب بھی تارکین وطن ہیں۔ افریقہ سے انڈیا، ٹرینیڈاڈ، کینیڈا اور آگے اس سے دور لیکن انڈین ورثے کی یہ ڈور بہت مضبوط ہے، جس نے ہمیں جوڑے رکھا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ