مشرف دور میں قید دو بھائی امریکی جیل گوانتاناموبے سے رہا، ’20 برس کا بیٹا پہلی بار والد سے گلے ملا‘
- مصنف, جارج رائیٹ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
امریکہ کی فوجی جیل گوانتاناموبے میں تقریباً 20 سال سے قید پاکستانی دو بھائیوں کو بغیر کسی الزام کے رہا کر دیا گیا ہے۔
عبدل اور محمد احمد ربانی کو سنہ 2002 میں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔
امریکہ کے محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا کہ عبدالربانی القاعدہ کا ایک ’سیف ہاؤس‘ کا منتظم تھا جبکہ ان کا بھائی اس تنظیم کے رہنماؤں کے لیے سفری انتظامات اور فنڈز کا اہتمام کرتا تھا۔
بھائیوں نے الزام لگایا کہ گوانتاناموبے منتقل کرنے سے قبل سی آئی اے افسران نے ان پر تشدد کیا۔
دونوں بھائیوں کو اب پاکستان واپس بھیج دیا گیا ہے۔
پرویز مشرف کے دور میں دونوں بھائیوں کو سنہ 2002 میں کراچی سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا
ان دو بھائیوں کو پاکستان کی سکیورٹی سروسز نے ستمبر 2002 میں کراچی شہر سے گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد انھیں افغانستان میں سی آئی اے کے حراستی مرکز میں رکھنے کے بعد گوانتاناموبے منتقل کرنے میں تقریباً دو سال کا عرصہ لگا۔
سنہ 2013 میں احمد ربانی نے بھوک ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کیا جو سات سال تک جاری رہا۔ وہ غذائی سپلیمنٹس پر زندہ رہے، بعض اوقات انھیں زبردستی ٹیوب کے ذریعے کھانا کھلایا جاتا تھا۔
تھری ڈی سینٹر کے وکیل کلائیو سٹافورڈ سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ دونوں بھائیوں کی حراست پر مقدمہ کرنے کی کوشش کریں گے ’لیکن ان کے معاوضے کے امکانات بہت کم ہیں۔ نہ ہی انھیں معافی ملے گی۔‘
دونوں بھائیوں کی سنہ 2021 میں رہائی کی منظوری دی گئی تھی۔ مگر ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اس کے بعد بھی کیوں قید رہے۔
احمد ربانی کی گرفتاری کے وقت ان کی اہلیہ حاملہ تھیں اور صرف پانچ ماہ بعد ان کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی۔ احمد ربانی اپنے بیٹے سے کبھی نہیں ملے۔
احمد ربانی کی پینٹنگز: چائے کے منظر میں خاندان سے دوبارہ ملنے کی خواہش کا اظہار
’انھوں نے ایک بیٹے، ایک شوہر اور ایک باپ کے خاندان کو لوٹا‘
وکیل سٹافورڈ کے مطابق ’میں احمد کے بیٹے جواد سے رابطے میں رہا، جو اب 20 سال کا ہے۔ ان کے مطابق جواد اپنے والد سے کبھی نہیں ملے بلکہ انھیں چھوا تک نہیں کیونکہ احمد کے اغوا کے وقت ان کی ماں حاملہ تھی۔ سٹافورڈ کا کہنا تھا کہ ’میں جواد سے کئی بار ملا ہوں، اور میری خواہش ہے کہ میں باپ اور بیٹے کے پہلی بار گلے ملنے کے موقع پر وہاں خود موجود ہوتا اور یہ جذباتی منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتا۔
وکیل کے مطابق گوانتاناموبے میں دوران قید احمد ربانی نے ایک ماہر فنکار کے طور پر اپنا ایک نام پیدا کیا۔ سٹافورڈ سمتھ نے مزید کہا کہ مئی میں کراچی میں ان کی ایک نمائش کا منصوبہ ہے جس میں 12 مزید ایسے پاکستانی فنکار حصہ لیں گے جو احمد کی تخلیقی صلاحیتوں سے متاثر ہیں۔
’جسٹس چیریٹی ریپرائیو‘ کی ڈائریکٹر مایا فوا، جنھوں گذشتہ برس تک احمد ربانی کی عدالت میں نمائندگی کی تھی، نے ان کی دو دہائیوں کی قید کو ایک ’المیہ‘ قرار دیا، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے دور میں امریکہ اپنے بنیادی اصولوں سے کس حد تک بھٹک گیا تھا۔‘
مایا کے مطابق ’انھوں نے ایک بیٹے، ایک شوہر اور ایک باپ کے خاندان کو لوٹا۔ اس ناانصافی کا کبھی ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ تباہ کن ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا مکمل حساب تب ہی شروع ہو سکتا ہے جب گوانتاناموبے کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے
گوانتاناموبے جیل بند کرنے کی امریکی کوششوں کی حمایت پر پاکستان کی تعریف
کیوبا میں قائم گوانتاناموبے کیمپ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے سنہ 2002 میں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر 9/11 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد دہشتگردی کی کارروائیوں میں مشتبہ غیر ملکی افراد کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ جیل امریکی بحریہ کے ایک اڈے کے اندر واقع ہے۔
لیکن کیمپ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں اپنے تفتیش کے طریقوں کی وجہ سے جنگی جرائم کی علامت کا روپ دھار گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ تشدد کے مترادف ہے کیونکہ یہاں شک کی بنیاد پر غیر ملکیوں کو طویل عرصے تک بغیر مقدمہ چلائے رکھا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت اس قیدخانے میں صرف 32 قیدی ہیں۔ سنہ 2003 میں اپنے عروج پر اس جیل میں ایک وقت میں 680 قیدی تھے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ اس جیل کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے گا۔ امریکہ محکمہ دفاع نے بھی اس جانب واضح اشارہ کیا ہے کہ اس جیل کو بند کر دیا جائے گا۔
پینٹاگون نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’امریکہ حکومت پاکستان اور دیگر اتحادیوں کی جانب سے قیدیوں کی تعداد کو ذمہ داری کے ساتھ کم کرنے اور بالآخر گوانتاناموبے جیل کو بند کرنے پر مرکوز امریکی کوششوں کی حمایت کو سراہتا ہے۔‘
Comments are closed.