برطانیہ کی ’سب سے کم عمر مشتبہ دہشتگرد‘ لڑکی جس کے جنسی استحصال کا ’ایم آئی فائیو‘ کو علم تھا

  • مصنف, ڈینیئل ڈی سیمون اور علی ونسٹن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

ریانن رڈ

،تصویر کا ذریعہFamily Handout

بی بی سی کی ایک تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ برطانوی انٹیلیجنس ادارے ’ایم آئی فائیو‘ کو ایسے شواہد دیے گئے تھے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سکول کی لڑکی کا جنسی استحصال کیا گیا مگر ان شواہد کے باوجود اس لڑکی پر دہشتگردی کے الزامات کے تحت قانونی کارروائی شروع کی گئی اور فرد جرم عائد ہوئی۔

تاہم جب محکمہ داخلہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ریانن رڈ جنسی استحصال سے متاثرہ لڑکی ہیں تو اس کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی روک دی گئی۔

15 برس کی ریانن برطانیہ میں دہشتگردی کے الزامات کا سامنا کرنے والی سب سے کم عمر لڑکی تھیں مگر بعدازاں انھوں نے بچوں کی ایک پناہ گاہ میں خودکشی کر لی تھی۔

ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ تفتیش کاروں کو چاہیے تھا کہ ان کی بیٹی سے نرم سلوک کرتے ’نہ کہ دہشتگرد جیسا۔‘

14 برس کی عمر میں ریانن رڈ دائیں بازو کی انتہا پسندی کے دلدل میں دھنس گئی تھیں۔ ان کی والدہ ایمیلی کارٹر کو یاد ہے کہ ان کی بیٹی ایک ’پیاری بچی تھی‘ جسے گھوڑوں سے لگاؤ تھا۔ مِس کارٹر کے مطابق بعد میں انھوں نے نسل پرستانہ اور یہودی مخالف عقائد کا اظہار شروع کر دیا تھا۔

ان کی والدہ کہتی ہیں کہ ’وہ کہتی تھی کہ اگر آپ کے سنہرے بال یا نیلی آنکھیں نہیں، جسے وہ آریائی نسل کہتے تھے، تو وہ آپ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیں گی۔ وہ آپ کو کم تر نسل سمجھتی تھی جسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی انتہا پسند خیالات کے دلدل میں ’پھنستی جا رہی تھی۔‘

’وہ خود کو بدل رہی تھی۔ یہ ریانن نہیں تھی کیونکہ وہ ایسی بچی تھی جسے چیزوں سے لگاؤ ہو جاتا تھا۔‘

ریانن کی پیدائش ایسکس میں ہوا مگر بعد میں وہ ڈربی شائر منتقل ہوگئیں۔ مِس کارٹر کے مطابق انھیں تعلقات بنانے میں مشکل پیش آتی تھی اور وہ زندگی میں مشکلات سے دوچار تھیں۔ ان میں آٹزم کی بھی تشخیص ہوئی تھی۔

ریانن ماضی میں گھر سے بھاگ چکی تھیں اور ان کے خاندان میں سوشل سروس کی مداخلت رہی تھی۔ ان کی والدہ تسلیم کرتی ہیں کہ ان سے غلطیاں ہوئیں مگر ’انھوں نے ہمیشہ اپنی بچی کے لیے بہترین سوچا۔‘

ستمبر 2020 میں مِس کارٹر کو ریانن کی ذہنیت کے بارے میں اس قدر تشویش ہوئی کہ انھوں نے پریوینٹ نامی حکومتی ادارے سے رجوع کیا جو انتہا پسندی کے خلاف ایک سکیم ہے۔ اس بچی نے تسلیم کیا تھا کہ اس نے بم بنانے کے طریقوں پر دستاویزات ڈاؤن لوڈ کی تھیں۔

کرسٹوفر کُک

،تصویر کا ذریعہMONTGOMERY CITY SHERIFF

،تصویر کا کیپشن

14 سال کی ریانن امریکی انتہا پسند کرسٹوفر کُک سے آن لائن رابطے میں تھی

ایک ماہ کے اندر اندر ریانن کو انسداد دہشتگردی کے تفتیش کاروں نے گرفتار کر لیا۔ ان سے تفتیش کی گئی، پھر انھیں دہشتگردی کے ملزم کے طور پر ضمانت ملی جس کے بعد انھیں سکول جانے کی بھی اجازت نہ تھی۔

کچھ دیر کے لیے وہ آن لائن معمر لوگوں سے بات چیت کرتی پائی گئیں جن میں امریکی شہری کرسٹوفر کُک شامل تھے۔ وہ نیو نازی طرز کی دہشتگردی کو فروغ دیتے تھے اور انھوں نے حملہ آور دستے کا سیل قائم کیا تھا۔

شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریانن کی والدہ کے سابقہ پارٹنر نے بھی انھیں متاثر کیا تھا۔ مِس کارٹر کہتی ہیں کہ یہ بات ان سے چھپائی گئی تھی۔

ان کے پارٹنر امریکی شہری ڈیکس ملابرن کچھ دیر کے لیے امریکہ میں سفید فام نسل پرست قیدی گروہ کا حصہ رہ چکے تھے۔ وہ ریانن کی والدہ سے قیدیوں کے لیے قائم کیے گئے پین پال سسٹم کے ذریعے ملے تھے جس میں عام لوگ قیدیوں کو خط لکھ سکتے ہیں۔

ریانن کی گرفتاری سے قبل ملابرن کا مِس کارٹر سے تعلق ٹوٹ چکا تھا اور وہ امریکہ لوٹ گئے تھے۔ تاہم بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ کُک اور ملابرن دونوں رابطے میں تھے۔ کُک نے ملابرن سے کہا تھا کہ ریانن کو ’صحیح راستہ سکھاؤ۔‘

پولیس انٹرویوز کے مطابق ریانن کو باقاعدہ دباؤ میں لا کر تیار کیا گیا جس میں ان کا جنسی استحصال بھی کیا گیا۔

انھوں نے اپنی جنسی نوعیت کی تصاویر کُک کو بھیجی تھیں۔ حکومتی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ جس تشدد کی وہ بات کر رہی تھیں وہ ان کا استحصال تھا۔

غلامی کے جدید قوانین کے مطابق پولیس جیسے ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ممکنہ متاثرین کے بارے میں محکمہ داخلہ کو آگاہ کریں۔

تاہم ریانن پر فرد جرم عائد کرنے سے قبل کئی مہینوں تک متعلقہ اداروں نے ان کے بارے میں محکمہ داخلہ کے کسی ماہر کو آگاہ نہیں کیا تھا۔

اور ایسا بھی نہیں تھا کہ معلومات کی عدم رسائی کی بنیاد پر ایسا کیا گیا ہو۔

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ ریانن کی گرفتاری کے وقت پر ایم آئی فائیو کے پاس ایسے شواہد تھے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کُک نے ان کا جنسی استحصال کیا۔

ایف بی آئی کی تحقیقات میں پتا چلتا ہے کہ کُک کی ڈیوائس میں ایسے پیغامات موجود ہیں جن میں ریانن کو تیار کرنے، انھیں دباؤ میں لانے اور ان کا استحصال کرنے کی تصدیق ہوتی ہے۔ ایف بی آئی نے یہ تمام مواد ایم آئی فائیو کے حوالے کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ڈیکس ملابرن

،تصویر کا ذریعہFACEBOOK

،تصویر کا کیپشن

ملابرن کُک سے رابطے میں تھے

فرد جرم عائد کیے جانے کے چھ ماہ تک ریانن اپنی ضمانت کا انتظار کرتی رہیں۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ اس دوران ریانن کی ذہنی صحت متاثر ہوئی۔ انھوں نے خود کو نقصان پہنچایا، گھر سے بھاگنے کی کوشش کی اور خودکشی کی بھی کوشش کی۔ ڈربی شائر کی سوشل سروسز کو معاملے میں مداخلت کرنا پڑی اور انھیں بچوں کی پناہ گاہ منتقل کر دیا گیا۔

اپریل 2021 میں گرفتاری کے چھ ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد ان پر دہشتگردی کی چھ دفعات عائد کی گئیں جن میں دھماکہ خیز مواد اور ہتھیاروں کی تیاری کی ہدایات رکھنے کا الزام شامل تھا۔ استغاثہ نے الزام لگایا کہ ان ہدایات کا تعلق ایک ممکنہ حملے کی منصوبہ بندی سے تھا۔

فرد جرم عائد کیے جانے کے کئی روز بعد نئے تعینات کردہ وکلا نے مداخلت کی اور ڈربی شائر کونسل نے ریانن کا کیس محکمہ داخلہ کو بتایا کہ وہ استحصال کی متاثرہ لڑکی ہیں۔

ان کے حق میں فیصلہ آنے میں مزید سات ماہ لگے۔ محکمہ داخلہ اس نتیجے پر پہنچا کہ انھیں سمگل کیا گیا اور ان کا استحصال ہوا تھا۔

دسمبر 2021 میں ان کے خلاف قانونی کارروائی روک دی گئی۔

ریانن اس رجحان کا حصہ ہیں جس میں آئن لائن دائیں بازو کی انتہا پسندی میں ملوث بچوں کے خلاف ایم آئی فائیو اور پولیس تحقیقات کرتے ہیں۔

گذشتہ دو برسوں میں دو بچوں کو سزائیں ہوئی ہیں: 14 سال کا لڑکا شامل جو اپنا آن لائن سیل چلاتا تھا اور ڈارلنگٹن سے تعلق رکھنے والا 13 سال کا لڑکا۔

ایک دوسرے لڑکے کے کیس میں سزا سے قبل رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہیں قانونی ماہرین نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ انھیں اپنی سرگرمیوں کے اثرات کا علم نہیں تھا۔

بچوں سے متعلق یہ کیس پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ایک بچے کو شاید تیار کیا جاتا ہے اور اس کا استحصال ہوتا ہے۔ تاہم اس بات کا خدشہ موجود ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

امیگریشن سے متعلق ایسے مقدمات پر بھی سمگلنگ اور استحصال کی بحث ہوتی ہے جس میں کسی نوجوان لڑکی کو نام نہاد دولت اسلامیہ میں شمولیت کے لیے شام لے جایا گیا ہو۔

جیسے شمیمہ بیگم کے کیس میں ہوا جو صرف 15 برس کی تھیں جب انھوں نے یہ سفر کیا تھا۔ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔ تاہم ان کے وکلا کہتے ہیں کہ ان کی سمگلنگ ہوئی اور ان کا جنسی استحصال کیا گیا۔

دہشتگردی کے مقدمات کا سامنا کرنے والے بہت کم بچوں کو قید کی سزا ہوئی ہے۔ تحقیقات، گرفتاری اور قانونی کارروائی میں کئی ماہ بھی لگ سکتے ہیں۔ کچھ کیسز میں ایک سال سے زیادہ عرصہ لگا ہے۔

ریانن رڈ

،تصویر کا ذریعہFamily Handout

،تصویر کا کیپشن

ریانن رڈ

دہشتگردی سے متعلق قوانین کی نظرثانی پر آزادانہ طور پر مامور وکیل جوناتھن ہال کے سی نے کہا ہے کہ 2020 اور 2021 میں دہشتگردی کے الزام میں صرف ایک بچے کو قید کی سزا ہوئی جبکہ باقیوں کو غیر حراستی سزائیں سنائی گئیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس پر سوال ہونا چاہیے کہ آیا یہ حکمت عملی مؤثر ہے۔ وہ تجویز دیتے ہیں کہ قانون میں تبدیلی ہونی چاہیے تاکہ پولیس دہشتگردی میں ملوث بچوں سے کہہ سکے کہ وہ قانونی کارروائی کا سامنا کریں یا پھر ایسی سرگرمیاں چھوڑ دیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں بچوں کے موبائل فون کے استعمال کو محدود کیا جا سکتا ہے یا پھر نگرانی کے سافٹ ویئر اور دیگر طریقوں سے ان پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ ’یہ بہت جلد ہو سکتا ہے تاکہ انھیں جرائم اور انصاف کے نظام سے مکمل طور پر دور رکھا جا سکے۔‘

ریانن کی والدہ کا خیال ہے کہ ان کی بیٹی پر کبھی فرد جرم عائد نہیں ہونی چاہیے تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ پولیس پر شواہد کی بنیاد پر تحقیقات لازم ہے تاہم ایسے کیسز کو مختلف انداز سے حل کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ان سے دہشتگرد کی بجائے متاثرین جیسا سلوک ہونا چاہیے تھا۔ وہ بچی تھی، آٹزم سے متاثرہ بچی۔

انھیں ایسی بچی سمجھنا چاہیے تھا جسے مخصوص مقاصد کے لیے تیار کیا گیا اور جنسی استحصال سے گزارا گیا۔‘ ایک حکومتی ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایم آئی فائیو اس حوالے سے ان لوگوں کی سنجیدہ ذمہ داری لیتا ہے جنھیں نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔‘

’حکومت کی طویل پالیسی کے تحت ایم آئی فائیو کسی انفرادی کیس میں ملوث ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتا۔‘ اس بیان میں کہا گیا کہ ’قومی سلامتی کے تحفظ میں اگر ایم آئی فائیو کسی فرد کے بارے معلومات حاصل کرتا ہے تو اسے متعلقہ حکام تک پہنچایا جاتا ہے۔‘

کُک، جنھوں نے ریانن کا استحصال کیا، نے امریکہ میں نیو نازی دہشتگردی کے منصوبے کا اعتراف کیا تھا۔ ان کا مقصد دوسروں کے ساتھ مل کر ایک توانائی کے مرکز کو تباہ کرنا تھا۔ وہ سزا سنائے جانے کے منتظر ہیں۔

تاہم بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ اوہائیو کی عدالت اب تک اس بارے میں لاعلم تھی کہ کُک نے ریانن کا استحصال کیا تھا۔

یہ معاملہ کیس کا حصہ نہ تھا جبکہ ایف بی آئی کو اس کا علم تھا۔

عدالت کو جب ان کے اس رویے کا علم ہوا تو انھیں سزا ملنے سے قبل دسمبر میں دوبارہ تحویل میں لے لیا گیا۔

قانونی کارروائی کے بعد ریانن کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ انھوں نے نوٹنگھم شائر کے شیلٹر ہوم میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا اور پریوینٹ کی سکیم کے ساتھ رابطہ شروع کر دیا۔

مگر ایسی علامات موجود تھیں وہ ٹھیک نہیں۔

کارٹر

،تصویر کا کیپشن

ریانن کی والدہ نے حکام کو متنبہ کیا تھا کہ وہ اپنی جان لے سکتی ہیں

ان کی موت سے قبل کے ہفتوں کے دوران ریانن نے اپنی والدہ سے کہا کہ ان کا امریکہ میں ایک نیو نازی انتہا پسند سے رابطہ کرایا جائے۔ انھوں نے اس کی خبر شیلٹر ہوم میں دی جسے نجی کمپنی بلیو ماؤنٹین ہومز چلاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے سوشل سروسز کو بتایا۔ یہ غیر واضح ہے کہ آیا ان کا رابطہ ہو پایا تھا۔

ان کی والدہ نے ڈربی شائر کونسل کو متنبہ کیا تھا کہ ان کی بیٹی اپنی جان لے سکتی ہے۔ سوشل ورکرز کو 2021 میں کی گئی ای میل میں انھوں نے کہا تھا کہ ’میں نہیں چاہتی وہ اکیلی اپنے کمرے میں خود کو مار دے۔‘

انھوں نے ای میلز میں بتایا تھا کہ ریانن کی تاروں تک رسائی ہے۔ مِس کارٹر کہتی ہیں کہ انھوں نے ریانن کی موت سے چند روز قبل ان سے ملاقات کی تھی۔ وہ ان کے حلیے کے بارے میں تشویش کا اظہار شیلٹر ہوم سے کر چکی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے عملے کو متنبہ کیا تھا کہ ان کی بیٹی ’کچھ کرنے والی ہے‘ اور انھوں نے اس پر نظر رکھنے کا کہا تھا۔ مینیجر نے جواب میں کہا تھا کہ وہ اس کا پتا چلائیں گے اور انھیں فکر نہیں کرنی چاہیے۔

وہ کہتی ہیں کہ لیکن اسی ہفتے تین پولیس افسران نے ’انھیں گھر آ کر بتایا کہ ان کی بیٹی نے پھندا لگا کر اپنی جان لے لی ہے۔‘

شیلٹر ہوم میں ریانن کے کمرے میں تاروں پر پابندی لگا دی گئی تھی تاکہ خودکشی کا خطرہ کم ہو سکے مگر پھر بھی وہ ان کی پہنچ میں آ گئی تھیں۔

مئی کے دوران 16 برس کی عمر میں ان کی موت ہوئی۔

ان کی موت کے حوالے سے ابھی تحقیقات ہونا باقی ہے۔ اس کی کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی۔

بی بی سی نے اس حوالے سے اداروں سے رابطہ کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ تحقیقات کی تکمیل تک اس بارے میں معلومات نہیں دے سکتے۔

BBCUrdu.com بشکریہ