متنازع ٹوئٹ پر گرفتار پی ٹی آئی رہنما اور سینیٹر اعظم سواتی کو مزید ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کےحوالے کر دیا گیا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی ایف آئی اے کی درخواست منظور کر لی۔
اداروں کے خلاف متنازع ٹوئٹس کے الزام میں گرفتار سینیٹر اعظم خان سواتی کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ محمد بشیر کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
اعظم سواتی کے وکیل بابر اعوان اور علی بخاری عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور کمرۂ عدالت میں اپنے موکل سے ملاقات کی۔
دوران سمات ایف آئی اے نے عدالت سے اعظم سواتی کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، جس پر جج نے استفسار کیا کہ اس کیس کی فائل کدھر ہے؟
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج کے استفسار پر ایف آئی اے حکام نے فائل جج کے حوالے کی۔
اسپیشل پراسیکوٹر رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ اعظم سواتی کے مصدقہ اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کیاگیا تھا جس پر پیکا کی سیکشن 20 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ مصدقہ اکاؤنٹ سے شدید ہتک آمیز الفاظ استعمال کیے گئے جو کہ ثابت شدہ ہے۔ صرف ایک ٹوئٹ نہیں بلکہ ان کے اکاؤنٹ سے پہلے بھی ایسے ٹوئٹس ہوتے رہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اعظم سواتی کے اکاؤنٹ سے طویل عرصے سے منظم ٹوئٹس ہوتے رہے ہیں جن کا ریکارڈ موجود ہے۔ عدالت پندرہ دن کاجسمانی ریمانڈ دے سکتی ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ابھی پاس ورڈ ریکور کرنا ہے، اعظم سواتی تفتیش کے دوران تعاون بھی نہیں کر رہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی کے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کے حق میں ریکارڈ پرکچھ آیا تو وہ بھی عدالت میں پیش کریں گے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ اعظم سواتی نے ٹوئٹ کیا اسے ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن قانون میں کور بھی ہے، کن کن لوگوں نے کس کس کے بارے میں کیا کہا وہ میں بتاؤں گا۔
عدالت نے سوال کیا کہ کیا وہ موبائل ریکور ہوا ہے جس سے ٹوئٹ ہوئی؟
عدالت کے استفسار پر اعظم سواتی نے جواب میں کہا کہ میں نے وہ موبائل گھر سے باہر پھینک دیا تھا اس میں بیٹی کے گھر کی تصویریں ہیں، میں جب مان رہا ہوں ٹوئٹ میں نے کیا تو پھر ان کو کیا چاہیے!۔
عدالت نے اعظم سواتی کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا منظور کرتے ہوئے پی ٹی آئی سینیٹر کا ایک روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔
Comments are closed.