8 اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلے میں سات سال کی عمر میں لا پتہ ہونے والی آزاد کشمیر کے ضلع جہلم ویلی کی رہائشی ثانیہ سترہ سال بعد اپنے آبائی گھر پہنچ گئی۔
آٹھ اکتوبر 2005ء کا زلزلہ ایک طرف اپنے پیچھے اسی ہزار قبروں کا شہر خموشاں چھوڑ گیا تو دوسری جانب سیکڑوں لاپتہ افراد کی تلاش کی مہم بھی لاپتہ افراد کی موت کا اعلان کر کے دم توڑ گئی۔
ایسے میں آزادکشمیر کی وادیٔ جہلم کے علاقہ بانڈی لانگلہ کی لاپتہ 7 سالہ ثانیہ اور اس کے والد کو کون تلاش کرتا۔
والد کی موت کے بعد کسی نے ثانیہ کو لاوارث سمجھ کر کراچی کے ایک بے اولاد جوڑے کے حوالے کر دیا اس جوڑے نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اور اس شادی بھی کر دی۔
زلزلے سے متاثرہ ثانیہ اپنا گھر دل و دماغ سے نکال نہ سکی اور شوہر سمیت اس نے اپنے باپ کا گھر اور گاؤں تلاش کرنا شروع کردیا۔
سترہ سال بعد اپنے شوہر اور تین بچوں کے ہمراہ یادوں کے دھندلکوں سے ثانیہ نے آخر کار اپنا آبائی علاقہ ہٹیاں تلاش کر ہی لیا اس کا بھائی اس باقی خاندان اسے پہچان کر دیکھ کر ششدر رہ گئے۔
واضح رہے کہ آٹھ اکتوبر دوہزار پانچ کشمیر کی تاریخ کے بد ترین زلزلہ کو گزرے اٹھارہ سال مکمل ہوگئے۔
اس زلزلے سے کشمیر اور کے پی کے شمالی اضلاع میں آن کی آن میں اسی ہزار کے لگ بھگ انسان اپنے ہی ہاتھوں سے بنائی عمارتوں کے ملبے تلے دب کر جان بحق ہوگئے تھے صرف کشمیر کے سات اضلاع میں چھیالیس ہزار افراد لقمہ اجل بنے اور ایک لاکھ اڑتیس ہزار افراد زخمی ہوئے جبکہ ہزار وں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معذور ہوگئے تھے۔
Comments are closed.