چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی، وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اسد مجید اپنی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں، غیر ذمے دارانہ کام خان صاحب نے کیا، غلطی عمران کرے اور سزا اسد مجید کو دوں یہ نا انصافی ہو گی۔
’’الیکشن کا مطالبہ کرنے والا متاثرینِ سیلاب کی زندگی سے کھیل رہا ہے‘‘
واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص اس وقت سیاست کر رہا ہے، الیکشن کا مطالبہ کر رہا ہے وہ متاثرینِ سیلاب کی زندگی سے کھیل رہا ہے، پاکستان کا ایک تہائی حصہ اس وقت ڈوبا ہوا ہے، اس وقت پاکستان کو بڑی تباہی کا سامنا ہے، حکومت اور اپوزیشن مل کر اس کا مقابلہ کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ خان صاحب نے جگہ جگہ ہماری خارجہ پالیسی معیشت اور عوام کو نقصان پہنچایا، خان صاحب کے مطالبات یہ نہیں کہ جمہوریت بحال ہو، سویلین بالا دستی ہو، خان صاحب کا مطالبہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کردار ادا کر کے دوبارہ انہیں اقتدار میں لائے، خان صاحب کے ان بیانات کی مذمت کرتا ہوں۔
’’سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ نے سیلاب کو سرِ فہرست رکھا‘‘
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم اب درست سمت میں چل رہے ہیں، پاکستان میں متاثرینِ سیلاب کے لیے بہت کام کرنا ہے، سیکریٹری جنرل نے اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے موقع پر سیلاب کو سرِ فہرست رکھا، امریکا کے دورے پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کی دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئیں، امریکا کے دورے کا اوّلین مقصد متاثرینِ سیلاب کی مدد رہا ہے، سیلاب کے علاوہ ہمارا ایجنڈا امریکا کے ساتھ تعلقات کی بہتری تھا۔
انہوں نے کہا کہ تجارت، زراعت، صحت اور دیگر شعبوں میں مزید پیش رفت کا امکان ہے، موسمیاتی تبدیلی کا شکار 10 بڑے ملکوں کو مل کر آواز اٹھانا ہو گی، مسائل اپنی جگہ، بھارت اور پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے، موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کر کے اپنے عوام کو بچائیں، آپس میں دوسرے معاملات پر لڑنے کے لیے بہت وقت پڑا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے مسائل پر اتفاق نہ ہوا تو نقصان دنیا کو ہو گا، موسمیاتی تبدیلی کا واحد حل دنیا کو ایک ہو کر کام کرنا ہو گا۔
’’ ابھی ہم بحالی و تعمیرِ نو کے مرحلے پر نہیں پہنچے‘‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں جتنی بھی مدد ملی اس پر دنیا کے شکر گزار ہیں، متاثرینِ سیلاب کے لیے ہم جتنا بھی کریں وہ ناکافی ہے، ابھی ہم بحالی و تعمیرِ نو کے مرحلے پر نہیں پہنچے، ابھی ہم ریسکیو اور ریلیف کے مرحلے میں ہیں، کورونا اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے دنیا کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا اور پھر سیلاب آ گیا، ہماری 6 ماہ کی حکومت میں خارجہ معاملات میں بہتری نظر آئے گی، آج کے اور 6 ماہ پہلے کے پاکستان میں واضح فرق نظر آ رہا ہے، امریکا سے تعلقات کی اپنی تاریخ ہے۔
’’سیلاب سے 30 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا‘‘
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جو اس وقت سیاست کر رہا ہے وہ متاثرینِ سیلاب کی زندگی سے کھیل رہا ہے، متاثرینِ سیلاب کی مدد پہلا اور سیاست بعد کا کام ہے، ابھی تک اندازے کے مطابق سیلاب سے 30 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا، یہ نقصانات 30 ارب ڈالرز سے بڑھ بھی سکتے ہیں، حکومت اور اپوزیشن کو مل کر سیلاب کا مقابلہ کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت نے جو وعدے کیے انہیں پورا کرنا چاہیے، امن و امان سے متعلق صورتِ حال پر طالبان کو انگیج کرنا چاہیے، سرحد پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ہمیں ذمے دارانہ پالیسی اختیار کرنا ہو گی، ہمارے سفیروں اور بیورو کریٹس نے محنت کر کے پاکستان کی عزت کو بحال کیا۔
’’تجویز ہے کہ ہمارے قرضے امداد میں تبدیل کر دیے جائیں‘‘
چیئرمین پی پی پی نے مزید کہا کہ ہماری تجویز ہے کہ ہمارے قرضے امداد میں تبدیل کر دیے جائیں، ہمارا معاشی قرض ہے اور ان کا موسمیاتی تبدیلی کا قرض ہے، باقی ممالک جو موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہیں وہ پیسے کو سبز انفرااسٹرکچر پر استعمال کریں، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور فرانسیسی صدر مل کر ہمارے لیے ایک کانفرنس کا انعقاد کریں گے، اس کانفرنس میں ہم بحالی و تعمیرِ نو سے متعلق بات کریں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیلاب سے 40 لاکھ ایکڑ پر فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، ہمیں اجناس کے بحران کا بھی سامنا ہے، اب ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں، ہماری اس وقت اوّلین ترجیح سیلاب کا مقابلہ کرنا ہے۔
Comments are closed.