مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت میں نیب کو دلائل دینے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت مل گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ سماعت نے کی۔
کیس کی سماعت کے آغاز پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ روسٹرم پر آگئے اور دلائل میں کہا مریم نواز کے خلاف رابرٹ ریڈلے بطور گواہ پیش ہوئے تھے، جے آئی ٹی نے رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ پر ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی قرار دیا۔
وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ فائنڈنگ دی گئی کہ کیلبری فونٹ اس وقت نہیں تھا جب ٹرسٹ ڈیڈ تیار ہوئی، میں نے عدالتی معاونت کیلئے پیپر بکس تیار کی ہیں، نیب کے شواہد میں مریم نواز کی حد تک واحد چیز رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ تھی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے رابرٹ ریڈلے سے متعلق ہی دو صفحات تیار کیے ہیں۔
وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ ایک ایکسپرٹ کی رائے کو اس کیس میں بنیادی شواہد کے طور پر لیا گیا ہے، ایکسپرٹ کی رائے کبھی بھی بنیادی شہادت نہیں ہوتی، محض ایک ایکسپرٹ کی رائے پر سزا سنا دینا درست نہیں۔
وکیل کے مطابق جرح میں بتایا گیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی تاریخ سے قبل یہ فونٹ ڈاؤن لوڈ کرکے استعمال کیاچکا تھا، وہ خود اس بات کا اعتراف بھی کرچکا ہے کہ وہ فونٹ ایکسپرٹ بھی نہیں۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیے کہ پھر تو سارا ثبوت ہی ختم ہوگیا، وکیل امجد پرویز نے کہا کہ اس ٹرسٹ ڈیڈ کی بنیاد پر اس خاتون نے فائدہ کیا لیا؟ کچھ بھی نہیں، کسی کا اثاثہ کبھی بھی نہیں چھپ سکتا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم اس ڈاکیومنٹ کے وجود کو مانتے ہیں، مریم نواز کو اس ٹرسٹ ڈیڈ کی بنیاد پر سزا بھی نہیں دی گئی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جو بھی فونٹ بنتا ہے وہ کہیں رجسٹر تو ہوتا ہوگا، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا کیلبری کے رجسٹر ہونے سے متعلق کوئی چیز ریکارڈ پر آئی کہ کب ہوا؟
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ یہ ریکارڈ پر لانا نیب کی ذمہ داری تھی ہماری نہیں، رابرٹ ریڈلے نے خود کہا وہ اپریل 2005 میں خود یہ فونٹ استعمال کرچکے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پھر تو یہ کیس ختم ہی ہوگیا ہے، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ریڈلے نے جرح میں مانا کہ وہ کمپیوٹر ایکسپرٹ ہی نہیں ہے۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ وہ ایکسپرٹ نہیں تو پھر اس کے شواہد ہی ختم ہو جاتے ہیں، ٹرسٹ ڈیڈ درست ہے تو اس کا اثر کیا پڑتا ہے؟
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کوئی اثر نہیں پڑتا، اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھایا گیا، پراپرٹی اسی فیملی کی تھی،اسی میں رہنی تھی، ابھی تک اسی کو بھگت رہے ہیں۔
وکیل مریم نواز نے کہا کہ میری مؤکلہ نہ کبھی وہاں رہیں نہ ہی کبھی انہیں کوئی کرایہ آیا، جبکہ پراسیکیوشن مریم نواز کو بینیفشل مالک کہہ رہی ہے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ مریم نواز پرجرم میں معاونت کا الزام لگایا گیا، جس پرجرم کا الزام ہے وہ اس کیس میں اشتہاری ہے، معاونت تو تب آئے گی جب پہلے جرم بھی ثابت ہو۔
جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ ابھی مرکزی اپیل ہمارے سامنے نہیں کیونکہ وہ اشتہاری ہے، وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ نیب نے کہا جرم 1993 میں ہوا تھا، مریم نواز کو 2006 میں ایک دستاویز پر سائن کرنے کا کہا گیا اس جرم میں معاونت کی، یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی اتنے سال بعد معاونت کیسے ہوئی۔
وکیل امجد پرویز نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس پر نیب کا پرانا قانون لگائیں یا نیا، بنتی برییت ہی ہے، آمدن کے جائز ذرائع آج تک کسی رپورٹ، ریفرنس، فرد جرم یا ججمنٹ میں نہیں بتائے گئے، ایون فیلڈ ریفرنس میں قیمت کا بھی آج تک تعین نہیں کیا گیا جبکہ اثاثے کی مالیت اور آمدن کے ذرائع ڈسکس کرنا ضروری ہے ورنہ ملزم پر بار ثبوت نہیں آئے گا۔
نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی روسٹرم پر آئے، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ نیب کو دلائل کے لیے کتنا وقت چاہیے؟ دلائل کے لیے ایک گھنٹہ چاہیے 2 گھنٹے چاہئیں؟
اس کے بعد عدالت نے نیب کو دلائل کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے دیتے ہوئے سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کردی
Comments are closed.