ایشیا کپ: ایسا ٹورنامنٹ جس میں کرکٹ سے زیادہ انڈیا پاکستان تعلقات حاوی رہے
- عبدالرشید شکور
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں وہ سب کچھ ہوتا رہا ہے جسے دیکھنے کی خواہش شائقین کرتے ہیں۔ سنتھ جے سوریا کی جارحانہ بیٹنگ، مرلی دھرن اور اجنتھا مینڈس کی جادوئی بولنگ اور سب سے بڑھ کر دنیا کو اپنے سحر میں مبتلا کر دینے والے پاکستان اور انڈیا کے درمیان دلچسپ مقابلے۔
کرکٹ کے یہ دو روایتی حریف اسی ماہ ایک مرتبہ پھر متحدہ عرب امارات میں مدِمقابل ہوں گے۔ انھیں یہ موقع پندرہویں ایشیا کپ میں ملنے والا ہے جو 27 اگست سے 11 ستمبر تک منعقد ہو گا۔
ایشیا کپ کا انعقاد سری لنکا میں ہونا تھا لیکن وہاں کے معاشی حالات کے سبب اسے متحدہ عرب امارات منتقل کیا گیا ہے تاہم اس کا میزبان سری لنکا ہی ہو گا۔
چونکہ یہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سال ہے لہٰذا ایشیا کپ بھی ٹی ٹوئنٹی کے فارمیٹ کے تحت کھیلا جائے گا۔
یہ دوسرا موقع ہو گا کہ ایشیا کپ کے میچز ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے تحت ہوں گے۔ اس سے قبل سنہ 2016 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل ایشیا کپ بھی 20 اوورز کی طرز کرکٹ کے تحت ہوا تھا۔
ایشین کرکٹ کونسل یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ جس سال جس فارمیٹ کا عالمی کپ ہو گا اسی فارمیٹ کو ایشیا کپ میں بھی اپنایا جائے گا۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ایشیا کپ میں پاکستان اور انڈیا کے مقابلے کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ آسٹریلیا میں منعقدہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل دونوں ٹیموں کے روایتی مقابلے کا شائقین کو انتظار ہے۔
دس ماہ کے اندر دونوں ٹیمیں متحدہ عرب امارات میں دوبارہ آمنے سامنے ہوں گی۔ گذشتہ اکتوبر میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دبئی میں ہونے والےمیچ میں پاکستان نے انڈیا کو دس وکٹوں سے شکست دی تھی۔
ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں اس وقت انڈیا پہلے نمبر پر جبکہ پاکستان کا نمبر تیسرا ہے۔
کسی بھی ٹورنامنٹ میں پاکستان اور انڈیا کی موجودگی اس کی قسمت بدل دیتی ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ 38 سال گزر جانے کے باوجود ایشیا کپ حالات کےرحم و کرم پر رہا اور اسے وہ مقام نہیں مل سکا جو اسے ملنا چاہیے تھا۔
انڈیا پاکستان تعلقات اثرانداز
ایشیا کپ کو پاکستان اور انڈیا کے سیاسی تعلقات نے بہت حد تک متاثر کیا ہے۔
سنہ 1990 میں انڈیا چوتھے ایشیا کپ کا میزبان تھا لیکن اس زمانے میں پاکستان اور انڈیا کے تعلقات بہت خراب تھے چنانچہ پاکستان نے اس ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں لیا تھا۔
سنہ 1993 میں پاکستان اور انڈیا کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ایشیا کپ کا انعقاد ہی ممکن نہ ہو سکا۔
دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات ایک بار پھر اس وقت سامنے آئے جب سنہ 2018 کا ٹورنامنٹ انڈیا کی بجائے متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوا حالانکہ بی سی سی آئی کے اس وقت کے سیکریٹری انوراگ ٹھاکر نے اسے انڈیا میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ایشین کرکٹ کونسل کو حالات دیکھ کر ان میچوں کو دبئی اور ابوظہبی لے جانا پڑا تھا۔
ایسا نہیں کہ ایشیا کپ پر صرف پاک انڈیا تعلقات ہی اثرانداز ہوئے ہیں بلکہ سنہ 1986 میں انڈیا نے دوسرے ایشیا کپ کا بائیکاٹ سری لنکا سے ناراض ہو کر کیا تھا۔ اس ناراضی کی وجہ سنہ 1985 میں سری لنکا میں انڈیا اور سری لنکا کے درمیان کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز تھی جس میں امپائرنگ کے کئی فیصلے انڈیا کے خلاف تھے اور اس کا کہنا تھا کہ مبینہ جانبدارانہ امپائرنگ کی وجہ سے اسے ٹیسٹ سیریز میں شکست ہوئی تھی۔
انڈیا کی طاقتور حیثیت
ایک عام تاثر یہ ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں انڈیا کی انتہائی طاقتور پوزیشن کے اثرات ایشین کرکٹ کونسل میں بھی نظر آتے ہیں اور یہ ادارہ انڈیا کی مرضی کے برخلاف کوئی بھی قدم نہیں اٹھاتا۔
اس کی تازہ ترین مثال ایشین کرکٹ کونسل کی صدارت ہے جو اس وقت انڈین کرکٹ بورڈ کے پاس ہے۔
عام طور پر رکن کرکٹ بورڈ کا چیئرمین ایشین کرکٹ کونسل کا صدر ہوتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے صدر سورو گنگولی ہیں لیکن ایشیئن کرکٹ کونسل کی صدارت انڈین کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری جے شاہ کے پاس ہے جو حکمران جماعت بی جے پی کے وزیر امیت شاہ کے بیٹے ہیں۔
ایشیئن کرکٹ کونسل کس قدر انڈیا کے کنٹرول میں ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چند روز قبل جب ایشیا کپ کی سری لنکا سے متحدہ عرب امارات منتقلی کی باتیں ہو رہی تھیں تو اس کا باقاعدہ اعلان ایشین کرکٹ کونسل کی طرف سے آنے سے پہلے ہی بی سی سی آئی کے صدر سورو گنگولی کی طرف سے سامنے آ گیا۔
اس سے قبل گذشتہ سال بھی اسی طرح کی صورتحال سامنے آئی تھی جب سورو گنگولی نے ایشیا کپ پاکستان کے بجائے دبئی میں ہونے کی بات کی تھی اور اگلے ہی روز احسان مانی نے اس بات کی تردید کر دی تھی۔
ایشین کرکٹ کونسل کے رکن ممالک میں سری لنکا اور بنگلہ دیش، انڈیا کے زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں تاہم ایک اہم رکن کی حیثیت سے پاکستان نے انڈیا کو کبھی بھی فری ہینڈ نہیں دیا۔
وہ احسان مانی ہوں یا شہریار خان ایشین کرکٹ کونسل کے پلیٹ فارم پر پاکستان کا کردار بہت اہم رہا ہے۔
وہ وقت بھی یاد رکھا جاتا ہے جب پاکستان اور انڈیا کے تعلقات بہت اچھے تھے اور جب نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کراچی میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد دورہ ختم کر کے اپنے وطن واپس چلی گئی تھی اور بعد میں بھی آنے کے لیے تیار نہ تھی تو ایشین کرکٹ کونسل کے پلیٹ فارم سے جگ موہن ڈالمیا نے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) توقیر ضیا کا ساتھ دیتے ہوئے نیوزی لینڈ اور دیگر سفید فام ممالک کو باور کروا دیا تھا کہ اگر وہ پاکستان آ کر نہیں کھیلیں گے تو ایشیائی ٹیمیں بھی ان کے ملکوں میں جا کر نہیں کھیلیں گی۔
ظاہر ہے انڈیا کو کون ناراض کر سکتا تھا اسی لیے نیوزی لینڈ کی ٹیم ایک سال بعد ہی ون ڈے سیریز کھیلنے پاکستان آ گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
ایشیا کپ کی فاتح ٹیمیں
ایشیا کپ میں انڈین کرکٹ ٹیم نے اپنی بالادستی قائم رکھی ہے۔ انڈین ٹیم اب تک سات مرتبہ ایشیا کپ جیت چکی ہے۔
سری لنکا واحد ٹیم ہے جس نے اب تک تمام 14 ایشیا کپ ٹورنامنٹ میں حصہ لیا ہے اور پانچ مرتبہ یہ ٹورنامنٹ جیتا۔
پاکستانی ٹیم دو مرتبہ فاتح بنی ہے۔ اس نے پہلی مرتبہ سنہ 2000 میں ڈھاکہ میں منعقدہ ایونٹ جیتا تھا۔
اس نے فائنل میں سری لنکا کو 39 رنز سے شکست دی تھی۔ کپتان معین خان فائنل میں چار چھکوں اور تین چوکوں کی مدد سے بنائی گئی 56 رنز ناٹ آؤٹ کی جارحانہ اننگز کی وجہ سے مین آف دی میچ رہے تھے۔
پاکستانی ٹیم نے دوسری مرتبہ سنہ 2012 میں ڈھاکہ ہی میں مصباح الحق کی قیادت میں یہ ٹورنامنٹ جیتا تھا۔
اس نے فائنل میں بنگلہ دیش کو ڈرامائی انداز میں صرف دو رنز سے شکست دی تھی جس میں اعزاز چیمہ کی تین وکٹوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔
بنگلہ دیش نے تین مرتبہ فائنل کھیلے ہیں لیکن اسے تاحال پہلی جیت کا انتظار ہے۔
Comments are closed.