سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرا جیسے لڑکی کے مبینہ اغواء اور زبردستی نکاح کے ایک اور کیس کا فیصلہ سنا دیا۔
لڑکی کے والد نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ اس کی بیٹی امِ ہانی کو 21 مئی کو حیدر آباد سے اغواء کیا گیا۔
پولیس نے لڑکی اور لڑکے کو عدالت میں پیش کر دیا۔
اس موقع پر لڑکی امِ ہانی نے بیان دیا کہ مجھے کسی نے اغواء نہیں کیا، میری آفتاب سے شادی ہوئی ہے۔
لڑکی کے والد نے عدالت میں بیان میں کہا کہ امِ ہانی کی عمر 11 سال ہے، اغواء کرنے کے بعد اس سے شادی کی گئی۔
عدالتِ عالیہ نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے سامنے گمشدگی کا کیس تھا، لڑکی عدالت میں پیش ہو چکی ہے، کیس میں اب مزید کچھ نہیں کر سکتے۔
لڑکی کے والد نے عدالت کو بتایا کہ بیٹی چھٹی کلاس میں پڑھتی ہے، یہ لوگ مافیا سے تعلق رکھتے ہیں، اسے بیچ دیں گے۔
سندھ ہائی کورٹ نے ہدایت کی کہ آپ کو جو بھی تحفظات ہیں ان کے حوالے سے ٹرائل کورٹ سے رجوع کریں۔
لڑکی کے والد نے کمرۂ عدالت میں آہ و بکا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے انصاف نہیں مانگیں گے تو کہاں جائیں گے؟
عدالت نے دعا زہرا کیس کا تذکرہ کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ ہم نے بڑے کیسز میں ایسا نہیں کیا تو اس میں کیسے کر دیں گے؟حالانکہ وہ کیس میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہائی لائٹ ہو رہا تھا۔
عدالت نے لڑکی کے والد کو ہدایت کی کہ جو طریقۂ کار ہے وہی اختیار کیا جائے۔
لڑکی کے والد نے لڑکی کے اسکول اور امتحانی سرٹیفکیٹس بھی عدالت میں پیش کر دیے اور کہا کہ اسکول سرٹیفکیٹس کے مطابق امِ ہانی کی پیدائش کا سال 2010ء ہے، جبکہ نکاح نامے پر لڑکی کی عمر 18 سال درج ہے۔
عدالت نے پولیس کو لڑکی کا بیان لینے کے بعد لڑکے کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔
Comments are closed.