گاربالوجی: کوڑا کرکٹ سے ہمیں لوگوں کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے
- کِرس بارانیوک
- برائے بی بی سی
گندگی سے اٹا اٹ بھرے ہوئے گندے نالے کے اوپر لٹکتے ہوئے ایک بیزار کن حد تک لمبے ہینڈل کے سرے پر مچھلی پکڑنے والا ایک چھوٹا سے جال لگا ہوا تھا۔ امریکی شہر بالٹیمور کی میونسپلٹی کے ملازم نے اپنے اس آلے کو فضلے سے آہستہ آہستہ باہر نکلا تو اسے جال میں وہ چیز پھنسی دکھائی دی جس کی اس کو تلاش تھی، ایک استمعال شدہ کنڈوم۔
یہ بات ہے سنہ 1980 کے عشرے کی جب امریکہ میں ایڈز کی وبا پھیل چکی تھی اور محکمۂ صحت کی ایک ٹیم اس بات کا جائزہ لے رہی تھی کہ آیا کتنے لوگ خود کو اور اپنے جنسی ساتھیوں کو اس بیماری سے بچانے کے لیے محفوظ سیکس کی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں۔ چانچہ بالٹیمور کے اس ٹیم نے یہ حساب لگانا شروع کر دیا کہ لوگ کتنے کنڈوم استعمال کر کے اپنے فلش سسٹم میں پھینک رہے ہیں جو آخر کار واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ تک پہنچ جاتے ہیں جہاں فضلے کو کیمیائی عمل سے ذریعے بائیو گیس اور کھاد وغیرہ بنائی جاتی ہے۔ سنہ 1988 کے شروع کے دنوں میں اس پلانٹ سے روزانہ 200 سے 400 تک کنڈوم ملا کرتے تھے۔
ان دنوں ایسوی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے ایڈز پر نظر رکھنے والی ٹیم کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ ‘ یقیناً یہ کوئی صاف ستھرا کام نہیں ہے، لیکن یہ ایک اہم کام ہے۔‘
امریکہ کے بعد، کئی دیگر ممالک میں بھی سرکاری حکام ایڈز کی مانیٹرنگ کے لیے یہی طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔ مثلاً سنہ 2006 میں اسواتینی (سابقہ سوازی لینڈ) کے سیوریج ورکروں کے اندازے کے مطابق ملک میں کنڈوم کے استعمال میں 58 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔
نہ صرف یہ بلکہ حکام کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ استعمال شدہ کنڈوم گندے نالوں کے پہلی جالی سے گزر جاتے لیکن جب وہ اگلے فِلٹر تک پہنچتے ہیں تو وہ قدرے باریک جالی میں پھنس جاتے ہیں۔ ورکر اسی جال میں پھنسے ہوئے کنڈوم کو گِن لیتے ہیں۔ سنہ 2015 میں جب دارالحکومت کے نکاسی آب کا نظام ہزاروں کنڈوم پھنسنے کی وجہ سے بند ہو گیا تھا تو زیمبیا کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ ملک میں کنڈوم کے استعمال میں زبردست اضافہ ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ چیز جو ایک شخص کے لیے غلاظت ہوتی ہے، وہی چیز یں ایک دوسرے شخص کے لیے نہایت کارآمد معلومات بن جاتی ہیں۔ کوڑا کرکٹ اور غلاظت، چاہیے وہ فلش میں بہائی جائے یا گندگی کے ڈھیر پر پھینک دی جائے، اس سے ہمیں لوگوں کی عادات و اطوار کا خوب اندازہ ہو جاتا ہے۔
وہ لوگ جو کوڑے اور انسانی غلاظت کے ڈھیر کی جانچ پڑتال کرنے کی ہمت رکھتے ہیں انھیں ‘گاربالوجسٹ’ کہتے ہیں، یعنی گاربِج کے ماہرین۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے کام سے ہمیں لوگوں کی صحت اور کھانے پینے کی عادات سے لیکر زیر زمین سیاسی گروہوں تک، ہماری معاشرتی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کے بارے میں معلوم ہو جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف اوسلو سے منسلک علم بشریات کے ماہر، تھامس ایرکسن کہتے ہیں کہ ‘کوڑا کرکٹ پر تحقیق کرنے کا ایک اپنا مزا ہے۔ اس سے آپ کو لوگوں کی روز مرہ زندگی میں جھانکنے کا ایک نادر موقع ملتا ہے۔’
‘گاربالوجی’ کا لفظ پہلی مرتبہ سنہ 1970 کے عشرے میں ایک امریکی مصنف اور سماجی کارکن نے استعمال کیا تھا، لیکن یہ ماہر بشریات ولیم راتھی تھے جنھوں نے چند برس بعد گاربالوجی کو ایک باقاعدہ سائنسی اصطلاح بنا دیا۔ انھوں نے ‘دی ٹسکن گاربِج’ کے عنوان سے ایک تحقیق کی تھی جو اب بہت مشہور ہو گئی ہے۔
اس سائنسی تحقیق میں ولیم راتھی کے ساتھیوں نے ریاست ایریزونا کے شہر ٹسکن کے نواح میں کوڑے کرکٹ کے بڑے بڑے گڑھوں کو کھود کر وہاں سے نہ صرف ناکارہ اشیاء کو نکالا بلکہ مختلف گروپس میں تقسیم کر کے دیکھا کہ لوگ قسم کی چیزیں کوڑا کرکٹ میں پھینکتے ہیں۔ ولیم راتھی نے اپنی تحقیق میں کئی گھروں کے کوڑے کے ڈبوں میں پھینکی ہوئی اشیاء کا بھی تجزیہ کیا اور پھر اس کا موازنہ ان ہی گھروں کے باسیوں کے بیانات سے کیا۔ اپنے سوالنامے میں ولیم راتھی نے لوگوں سے ان کی کھانے پینے کی عادات کے بارے میں پوچھا تھا اور پھر ان کے کوڑے دان سے نکلنے والی چیزوں سے موازنہ کر کے دیکھا۔ اکثر لوگوں کا دعویٰ تھا کہ وہ مضرِ صحت مشروبات (فِزی ڈرنکس) اور شراب کم ہی پیتے ہیں، لیکن ان کے کوڑے دانوں سے برآمد ہونے والی خالی بوتلیں اور مشروبات کے کینز کچھ اور ہی کہانی سنا رہے تھے۔
چین کے کلچرل ریوولوشن یا تہذیبی انقلاب کے دنوں میں پھینکے گئے ردّی کاغذ تاریخ دانوں کے لیے علم کا خزانہ ثابت ہوئے
ولیم راتھی کی تحقیق کے بعد کے عشروں میں سیاسیات اور تاریخ کے کچھ ماہرین نے بھی گاربالوجی کی مدد سے تحقیق کی۔
پچھلی صدی کے آخری برسوں اور پھر اس صدی کے ابتدائی برسوں میں کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ وہ مختلف مقامی لوگوں اور سرکاری محکموں کے کوڑے کرکٹ میں پھینکے ہوئے کاغذات کی مدد سے چین کے مشہور ثقافتی انقلات (کلچرل ریوولوشن) کی تاریخ کو منظر عام پر لا سکتے ہیں۔
کینیڈا کی سائمن فریزر یونیورسٹی کے مورخ جیریمی براؤن بھی ان محققین میں شامل تھے۔ پرانی تاریخی سرکاری دستایزات تک محدود رسائی سے بیزار ہو کر، وہ ہر ہفتے مشہور تیانمن سکوائر جاتے اور وہاں پر فروخت ہونے والے ردی کاغذات کی جانچ پڑتال کرتے رہتے۔
ایک بار جب ٹھیلے والوں کو معلوم ہو جاتا کہ جیریمی کس چیز کی تلاش میں ہیں تو وہ اپنے ردی کے ڈھیروں میں اسی قسم کے سرکاری کاغذات تلاش کرنے لگ گئے۔۔
ان لوگوں کی مدد سے جیریمی کچھ ایسے کاغذات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ کلچرل ریوولوشن کے لیے کس طرح مقامی حکومتوں کے ذریعے چینی عوام کو شہروں سے دیہی علاقوں کی طرف بھیجنے کا انتظام کیا گیا تھا۔
‘یہ ایک بہت بڑی دریافت تھی جو مقامی ٹھیلے والوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھی، کیونکہ اگر وہ ان دستاویزات کو ردی سے نہ نکالتے تو تمام کاعذات ہمیشہ کے لیے ضائع ہو چکے ہوتے۔’
حالیہ عرصے میں گاربالوجی سے وہ افراد بھی مستفید ہوئے جو چین سے بھی زیادہ صیغۂ راز میں رہنے والے ملک، شمالی کوریا پر تحقیق کرنا چاہتے تھے۔
اس سال فروری میں، برطانوی اخبار ‘دی گارڈین’ میں ایک خبر شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ جنوبی کوریا کے ایک پروفیسر نے شمالی کوریا کی مخلتف مصنوعات کے ڈبوں پر چپکے ہوئے 1400 مومی کاغذ (ریپرز) جمع کیے ہیں جو سمندر میں بہہ کر جنوبی کوریا کے ساحل تک پہنچ گئے تھے۔ مذکورہ پروفیسر کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ بات بڑی دلچسپ تھی کہ شمالی کوریا سے بہہ کر آنے والے ریپرز میں سے حال ہی میں متعارف کرائے جانے والے ریپرز زیادہ رنگیں اور نفیس تھے۔ یہ ریپرز ایک ایسے ملک میں بڑی معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں لوگوں کی زندگی پر بہت پابندیاں ہیں۔
مختلف مصنوعات کے ڈبوں پر لگے رنگا رنگ لیبلز سے لگتا ہے کہ گزشتہ برسوں میں شمالی کوریا میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔
اسی طرح پولینڈ میں ایک ماہرِ آثار قدریمہ بھی چند ایسے مقامات پر تحقیق کر رہے ہیں جہاں کبھی سوویت دور میں جوہری ہتھیار رکھے جاتے تھے۔ گرزیگور کیارسز کو امید ہے کہ ان مقامات پر کھدائی سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ سوویت دور میں یہاں کس قسم کی خفیہ کارروائیاں ہوا کرتی تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مذکورہ مقامات پر تحقیق کے لیے انھوں نے ریموٹ سینسِنگ کی تکنیک استعمال کی، جن میں فضا سے تصویریں اتارنا، لیزر سکینِنگ سمیت سنہ 1960 اور 1070 کے عشروں میں مصنوعی سیارے سے اتاری جانی والی تصویروں کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ یہ مواد اپنی جگہ، لیکن گرزیگور کہتے ہیں کہ ان مقامات پر بکھری ہوئی ناکارہ چیزوں اور کوڑے کرکٹ کی مدد سے انہیں یہ جاننے میں بہت مدد ملی کہ برسوں پہلے ان جوہری ٹھکانوں پر رہنے والے فوجیوں اور دیگر عملے کی روز مرہ زندگی کیسی تھی۔
مثلاً ان مقامات پر بکھرے ہوئے کوڑے سے گھریلو استعمال کی بہت سی اشیاء ملیں، جن میں شیو کرنے ریزر، لِپ سٹک، مسکارا، اور خشک دودھ کے بہت سے خالی ڈبوں کے علاوہ بچوں کے کھلونے بھی شامل تھے۔ اس کوڑے کرکٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد فوجیوں کو ان اڈًوں کو چھوڑ کر بھاگنا پڑا تو فوجیوں بیوی بچے بھی ان کے ہمراہ یہاں رہ رہے تھے۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ بچوں کے کھلونوں میں ’لیگوز‘ جیسے قدرے مہنگے کھلونے بھی تھے، جو کمیوسنٹ دور میں پولینڈ میں دستیاب نہیں ہوتے تھے۔
’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوویت افسران کے پاس غیر ملکی کرنسی ہوتی تھی جس سے وہ اس قسم کی مغربی ممالک کی مصنوعات خرید سکتے تھے۔‘
پولینڈ میں سوویت دور کی متروک جوہری تنصیبات سے ملنے والی اشیاء وہاں رہنے والے فوجیوں اور ان کے خاندانوں کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہیں۔
کوڑا کرکٹ اور ردی پھینکنے والے لوگ جلد ہی بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے کوڑے دان میں کیا کچھ پھینکا تھا، لیکن اس سے اس معاشرے کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہو جاتا ہے۔ یونیورسٹی آف سویڈن سے منسلک ماہرِ آثارِ قدیمہ، لیلیٰ پوپولی یزدی نے یہ جاننے کے لیے کہ تہران کی آبادی میں کس قسم کے مختلف لوگ اور طبقات رہتے ہیں، گاربالوجی کے علم سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔
شہر کی سڑکوں اور گلیوں کی نکڑ پر رکھے ہوئے کوڑے کے ڈبوں میں پھینکی جانے والی گھریلو استعمال کی اشیاء کی جانچ پڑتال سے انھیں واضح اندازہ ہو گیا کہ شہر کے مختلف محلوں اور علاقوں میں کس قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ مثلاً انھیں کم آمدنی والے علاقوں میں اس بات کے خاصے ثبوت ملے کہ وہاں منشیات کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ لیلیٰ اور ان کی ٹیم کو اس وقت بہت حیرت ہوئی جب انھیں معلوم ہوا کہ تہران کے ایک علاقے میں لوگ معمول سے بہت زیادہ ردی کاغذ پھینک رہے تھے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ گزشتہ کچھ برسوں میں اس علاقے کی آبادی بہت بدل چکی ہے اور اب وہاں غریب لوگوں کی بجائے متسوط طبقے کے لوگ آ گئے ہیں جو اخبار خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
اس تبدیلی کا احاطہ کرتے ہوئے سنہ 2021 میں لیلیٰ نے لکھا تھا کہ اس علاقے میں آنے والے ’نئے لوگ زیادہ تر وہ تھے جو پڑھے لکھے تھے، جن میں ٹیچر، بیروزگار ملازمین اور کاروباری لوگ تھے جو دیوالیہ ہو گئے تھے۔ گزشتہ عشرے کے معاشی بحران کے بعد ان لوگوں کے لیے شہر کے مہنگے علاقوں میں بڑے گھر کرائے پر لینا ممکن نہیں رہا تھا۔‘
کاروباری دنیا اور بازاروں کا کوڑا کرکٹ
محققین اور تجزیہ کاروں کے علاوہ گاربالوجی کا علم کاروباری دنیا میں مقبول ہو رہا ہے اور کمپنیاں اس سے بہت کچھ سیکھ رہی ہیں۔
1970 کی دہائی میں، سِکی نامی دہی کا ایک برانڈ برطانیہ میں مقبول تھا، لیکن اسے اپنے حریف برانڈز ‘پرائز’ اور ‘کُول کنٹری، سے مقابلے کا سامنا تھا۔ ان دنوں سٹیفن لوگو، سِکی کے سینیئر پراڈکٹ مینیجر ہوا کرتے تھے۔ انھیں یاد ہے کہ سِکی نے کیسے ‘آڈٹ گریٹ بریٹن’ نامی ایک کمپنی کی خدمات حاصل کی جو برطانیہ کے ہزاروں گھروں کے کوڑے کرکٹ کا ‘آڈٹ’ کر رہی تھی۔
کمپنی نے لوگوں کو کچھ پیشے ادا کر کے کہا تھا کہ وہ گھریلو استعمال کی مختلف مصنوعات کے خالی ڈبے اپنے کوڑے والے ڈرم میں پھینکنے کی بجائے الگ رکھا کریں۔ ان مصنوعات میں دہی کے خالی ڈبے بھی شامل تھے۔کمپنی کے کارکن ہر ہفتے آتے اور اور دہی کے خالی ڈبے لیجاتے تاکہ دیکھا جا سکے کہ برطانیہ میں دہی کے کون کون سے برانڈ مقبول ہیں۔
سٹیفن کہتے ہیں ‘اس تحقیق میں کوئی پوشیدہ بات نہیں تھی اور گنتی لوگوں کے سامنے ہو رہی تھی۔ چونکہ لوگوں کو پتہ تھا کہ ان کے کوڑے کرکٹ کا ہر ہفتے جائزہ لیا جائے گا، تو ہو سکتا وہ خالی پیکٹ کوڑے میں پھینکنے وقت سوچ رہے ہوں کہ فلاں برانڈ کا ڈبہ پھینکیں یا نہیں، لیکن سٹیفن کو جو اعداد و شمار درکار تھے وہ انھیں مل گئے۔ ‘ہمیں صاف پتہ چل گیا کہ ہمارا دہی (سِکی) سب سے زیادہ فروخت ہو رہا ہے۔’
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہمارے کوڑے کرکٹ سے بِخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم کس قسم کی چیزیں خریدنا پسند کرتے ہیں
اب چونکہ تقریباً ہر چیز کے ڈبے پر ‘بار کوڈ’ ہوتا ہے، اس لیے اب یہ معلوم کرنا آسان ہو گیا کہ لوگ کیا خریدتے ہیں۔ بلکہ انٹرنیٹ پر خریداری (آن لائن شاپِنگ) کے رجحان میں اضافے کے بعد یہ کام مزید آسان ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مارکیٹِنگ کی دنیا میں کام کرنے والے لوگ گاربالوجی کے علم کو اپنے لیے بہت مفید سمجھتے ہیں اور وہ اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ مثلاً امریکہ کی میزوری یونیورسٹی کی مارکٹِنگ کی پروفیسر، ڈارتھا ڈارمن کہتی ہیں کہ جب وہ کنسلٹنٹ کی حیثیت سے کام کرتی تھی تو وہ کبھی کبھی کمپنیوں کو کہتی تھیں کہ اگر وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ لوگ کون سی مصنوعات استعمال کرتے ہیں، تو انھیں بھی گاربالوجی کا استعمال کرنا چاہیے۔
پروفیسر ڈارتھا اور ان کے ساتھی گاربالوجی کے علم کو اپنی تدریس میں بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس طریقہ تعلیم میں ان کے طلبہ اپنے اپنے ہاسٹل کے کمروں سے ڈسٹ بِن یا کوڑا دان یونیورسٹی لیکر آتے تھے۔ باقی طلبہ کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ کوڑا دان ان کے کس ساتھی کا ہے۔ طلبہ کوڑے دان میں پڑی ہوئی چیزوں سے اندازہ لگاتے تھے کہ یہ کوڑا پھینکنے والا شخص کون ہو سکتا ہے۔ پروفیسر ڈارتھا کہتی ہیں کہ یہ بات حیرت انگیز تھی کہ طلبہ کیسے اندازہ لگا لیتے تھے کہ یہ کوڑا کرکٹ ان کے کس ساتھی کا ہے۔
کوڑا دیکھ کر اپنے کسی ساتھی کی عادات کا اندازہ لگانا تو آسان ہو سکتا ہے، لیکن کوڑے میں پھینکی ہوئی چیزوں کی بنیاد پر کوئی کاروباری فیصلہ کرنا شاید اتنا آسان کام نہیں۔ مثلاً سنہ 2011 میں مشہور کمپنی پراکٹر اینڈ گیمبل کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب وہ گاربالوجی کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ لوگ پی اینڈ جی کے شیمپو زیادہ استعمال کرتے ہیں یا ‘یونی لیور’ کے شیمپو۔ اگرچہ پی اینڈ جی کا اصرار تھا کہ کمپنی کوئی غیرقانونی کام نہیں کر رہی لیکن کمپنی کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ انھوں نے کاروباری مسابقت کے قوانین پر پوری طرح عمل نہیں کیا تھا۔
لوگوں کی بدلتی ہوئی عادات کے بارے میں بھی ان کی پھینکی ہوئی چیزوں سے بہت کچھ معلوم ہو سکتا ہے
قطع نظر اس خطرے کے کہ گاربالوجی کو دوسرے ملکوں میں سراغرسانی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، گاربالوجی کے حوالے سے ایک پریشان کن بات یہ ہے اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے دنیا بھر میں کوڑے کرکٹ کے پہاڑ جتنے اونچے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ کئی ممالک میں جہاں کوڑے کرکٹ کو بڑے بڑے گڑھوں میں پھینکا جاتا ہے وہاں بھی ایسے ہزاروں گڑھے کوڑا کرکٹ سے بھر چکے ہیں۔ ماہر بشریات، ایرکسن کہتے ہیں کہ کرڑا کرکٹ کی اتنی بڑی مقدار درصل یہ ظاہر کرتی ہے کہ ‘جدیدیت ‘ کا عمل کس تیزی سے جاری ہے اور اس عمل میں کس قدر تونائی خرچ ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تجارت سے لیکر کوڑا کرکٹ تک، ہر چیز میں اتنی تیزی آ چکی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے عالمی سطح پر انسانی تہذیب کو کیسے بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے اور ‘ایسی بے شمار چیزیں ہیں جو انسانی کنٹرول سے باہر ہو چکی ہیں۔’
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے منسلک ماہر بشریات، جیریمیاہ موک کوڑے کرکٹ سے پھیلنے والے زہریلے مادوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کوڑے کے کسی پہاڑ کو کھودنے کی ضرورت نہیں، بلکہ آپ لوگوں کے گھروں کے باہر پڑے ڈرم کو الٹ کر دیکھیں تو اس کے اندر آپ کو سگریٹ اور دیگر مضر صحت کیمیائی مادے نظر آئیں گے۔
حتی کہ ‘انیمل کراسنگ’ جیسی ویڈیو گیمز میں لوگ ایسی چیزیں پھینک جاتے ہیں جن کے مطالعے سے ہم لوگوں کی عادات اور ترجیحات کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں
گزشتہ کچھ برسوں سے کوڑے کرکٹ کا مسئلہ صرف ہمارے ارد گرد کے ماحول کو متاثر نہیں کر رہا، بلکہ اب تو انٹرنیٹ کی دنیا یا سائبر سپیس میں بہت سا کوڑ کباڑ پھینکا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی آف اوریگن سے منسلک صحافی اور محقق، جیرڈ جیسن روزانہ کئی گھنٹے انٹرنیٹ پر بچوں کی گیم ‘انیمل کراسنگ’ دیکھتے رہتے ہیں جس میں وہ ان چیزوں کا کھوج لگاتے ہیں جو لوگ سائبر سپیس میں پھینک جاتے ہیں۔
جیسن بتاتے ہیں کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لوگ انیمل کراسنگ کھیلتے کھیلتے کتنے دور نکل جاتے ہیں اور کھیل میں آگے جانے کے لیے کتنا کوڑ کباڑ راستے میں پھینکتے جاتے ہیں۔
ان کے بقول ‘میں ان چیزوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ لوگ اتنی زیادہ چیزیں کیوں پھینک گئے ہیں۔’ آج کل کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ وہ کوئی شے ردّی میں کیوں پھینک رہا ہے۔ گاربالوجی اس لحاظ سے ایک زبردست چیز ہے کہ اس سے آپ کو کسی شخص یا معاشرے کے بارے میں بہت معلومات ملتی ہیں۔اور گابالوجسٹ ان چند لوگوں میں سے ہیں جو کوڑے کرکٹ میں چھلانگ لگانے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہماری پھینکی ہوئی چیزوں کو اکھٹا کر کے پوچھ سکتے ہیں کہ ‘اس تمام کوڑا کرکٹ کا مطلب کیا ہے؟’
Comments are closed.