صدر پوتن کی حمایت میں سرگرم ’چوری شدہ چہرے‘ جو روسی پراپیگنڈے کی ترویج کر رہے ہیں
انڈیا کی سوشل میڈیا انفلوئنسر ای آر یمینی نے اپنی زندگی میں کبھی ٹویٹ نہیں کی۔ وہ یوٹیوب اور انسٹاگرام کے ذریعے ہی اپنے فینز سے رابطے میں رہتی ہیں۔
لیکن مارچ کے اوائل میں، اُن کی تصویر والے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ کی گئی جس میں ہیش ٹیگ ’آئی سٹینڈ ود پوتن، اصلی دوستی‘ لکھا گیا تھا اور اس کے ساتھ ایک ویڈیو کلپ بھی موجود تھا جس میں دو شخص گلے مل رہے تھے۔ ان میں ایک شخص انڈیا کی نمائندگی کر رہا تھا اور دوسرا روس کی۔
یمینی کا کہنا ہے کہ وہ روس اور یوکرین جنگ میں کسی ایک بھی ملک کی حامی نہیں ہیں اور انھیں اس ٹویٹ کے بعد اپنے فینز سے متعلق فکر لاحق ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر وہ یہ ٹویٹ دیکھیں تو وہ میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟ کاش انھوں نے اس ٹوئٹر اکاؤنٹ پر میری تصویر استعمال نہ کی ہوتی۔‘
ان کی تصویر والا یہ جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹ اس نیٹ ورک کا حصہ تھا جو روسی صدر ولادیمیر پوتن کی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر حمایت پیدا کرنے کے لیے کام کر رہا تھا۔ اس نیٹ ورک نے اس کے لیے ٹوئٹر پر دو اور تین مارچ کو ’آئی سٹینڈ ود پوتن‘ اور ’آئی سٹینڈ ود رشیا‘ جیسے ہیش ٹیگز کا استعمال کیا تھا۔
ان ہیش ٹیگز کے استعمال نے دنیا کے مختلف خطوں خصوصاً جنوبی دنیا میں سوشل میڈیا ٹرینڈز بنائے جن میں انڈیا، پاکستان، جنوبی افریقہ اور نائجیریا جیسے ممالک میں روس کی یوکرین پر مسلط جنگ کی حمایت ظاہر کی گئی۔
سوشل میڈیا پر اس عمل کو اصلی اور ’آرگینک ٹرینڈز‘ کے طور پر دیکھا گیا یعنی زیادہ تر یہ تمام ٹویٹس اصل لوگوں نے کی تھیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ مختلف ممالک میں لوگ روس اور صدر پوتن کی حمایت کر رہے ہیں۔
لیکن بہت سے دیگر ٹوئٹر اکاؤنٹ غیر مستند یا جعلی ثابت ہوئے۔ ان اکاؤنٹس سے بہت زیادہ تعداد میں پیغامات کو ری ٹویٹ کیا گیا تھا، چند ٹویٹس بھی کی گئی تھیں اور یہ تمام اکاؤنٹس حال ہی میں بنائے گئے تھے۔
سوشل میڈیا اور آن لائن غلط معلومات کے حوالے سے کام کرنے والی کمپنی سی اے ایس ایم ٹیکنالوجی کے شریک بانی کارل ملر کا کہنا ہے کہ ’عمومی طور پر یہ اکاؤنٹ بوٹس تھے، جعلی اکاؤنٹ تھے یا ایسے اکاؤنٹس تھے جنھیں ہیک کیا گیا تھا جو مصنوعی طور پر ان ممالک میں پوتن کی حمایت بڑھانے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔‘
اس کمپنی نے 9907 ایسے اکاؤنٹس کا پتا لگایا جو دو اور تین مارچ کو مختلف زبانوں میں یوکرین جنگ کے لیے روس کی حمایت بڑھانے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔ سی اے ایس ایم کو یہ بھی علم ہوا کہ ان میں سے تقریباً ایک ہزار سے زائد اکاؤنٹس کی خصوصیات سپیم اکاؤنٹس جیسی تھیں۔
بی بی سی نے بھی بظاہر ایسے سینکڑوں جعلی اکاؤنٹس کے متعلق تحقیق کی۔ ہماری تحقیق بھی کارل ملر کی اس سوچ کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ اکاؤنٹس بظاہر اصلی اور مستند ظاہر کیے گئے تھے لیکن دراصل یہ جعلی اکاؤنٹس تھے۔
انٹرنیٹ پر تصاویر کی تلاش کے عمل ریورس امیج سرچنگ کے ذریعے ہمیں یہ علم ہوا کہ ان اکاؤنٹس کے لیے استعمال ہونے والی تصاویر کو مختلف سیلبریٹیز، انفلوئنسرز اور عام صارفین کے اکاؤنٹس سے چرایا گیا تھا اور انھیں اس بات کا علم بھی نہیں تھا کہ ان کی تصاویر کو یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کی حمایت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ہم یہ جاننے سے قاصر رہے کہ ان اکاؤنٹس کو کس نے بنایا تھا اور کیا ان کا روسی حکومت کے ساتھ کوئی تعلق تھا۔
مثال کے طور پر پریتی شرما کے نام سے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی بائیو میں لکھا گیا تھا کہ ’وہ ایک ماڈل اور کاروباری شخصیت ہیں جن کا تعلق انڈیا سے ہے لیکن اس وقت وہ میامی میں موجود ہیں۔ یہ اکاؤنٹ روس کے یوکرین پر حملے کے دو دن بعد 26 فروری کو بنایا گیا تھا۔
اس اکاؤنٹ کی ایک ری ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پوتن ایک اچھے انسان ہیں۔‘
لیکن اس اکاؤنٹ کے لیے استعمال کی جانے والی تصویر نکول تھورن کی تھی جو ایک آسٹریلین سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں اور ان کے انسٹاگرام پر 15 لاکھ فالورز ہیں۔
اسی طرح کے ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ کو انڈیا کے ایک گلوکار راجا گجر کے اکاؤنٹ کے طور پر ظاہر کیا گیا۔ اس اکاؤنٹ سے پہلی ٹویٹ 24 فروری کو کی گئی جس دن روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ اور اس اکاؤنٹ سے تمام 178 پوسٹ کو ری ٹویٹ کیا گیا جو اس کے بوٹ اکاؤنٹ ہونے کی جانب واضح اشارہ کرتا ہے۔
بی بی سی نے آسٹریلین سوشل میڈیا انفلوئنسر نکول تھورن اور انڈین گلوکار راجا گجر سے رابطہ کیا تو ان دونوں نے اس بات کی تصدیق کی یہ ٹوئٹر اکاؤنٹس اُن کے نہیں ہیں۔
حالانکہ بوٹ اکاؤنٹس جیسے ظاہر ہونے والے بہت سے اکاؤنٹس پر تحقیق کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان میں سے کافی غیر مستند نہیں تھے۔
جیسا کہ ایک اکاؤنٹ جسے فروری 2022 میں بنایا گیا اور اس سے دو مارچ کو ٹویٹس کرنا شروع کی گئی۔ جب بی بی سی نے اس کے متعلق تحقیق کی تو اس کے پروفائل پکچر میں نظر آنے والا شخص انڈین تھا اور اس کا لنکڈ ان پر بھی ایک اکاؤنٹ تھا۔
مگر یہ اکاؤنٹ اصلی تھا اور اسے سینتھل کمار نامی ایک ایروناٹیکل انجینیئر نے بنایا تھا۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ انھوں نے یہ اکاؤنٹ صرف روس حمایتی پیغامات کے لیے کیوں بنایا؟
تو ان کا کہنا تھا کہ ’عمومی طور پر میں ٹوئٹر کو اس لیے استعمال کرتا ہو تاکہ یہ جان سکوں کہ کیا ٹرینڈ کر رہا ہے۔ تو لہذا میں نے روس حامی ٹویٹس دیکھیں اور انھیں ری ٹویٹ کر دیا۔‘
ان کا ماننا ہے کہ روس نے ماضی میں انڈیا کی مدد کی ہے اور اب انڈینز کو روس کی حمایت کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ نیا ٹوئٹر اکاؤنٹ اس لیے بنایا کیونکہ وہ پہلے اکاؤنٹ کا پاسورڈ بھول گئے تھے۔
ان اکاؤنٹس سے کی جانے والی ٹویٹس پر مغربی ممالک پر تنقید کے ملے جلے تبصرے دیکھے گئے اور نام نہاد برک ممالک کے بلاک جن میں برازیل، انڈیا، روس، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں نے روس کے ساتھ اظہار یکجہتی اور صدر پوتن کی براہ راست حمایت کا اظہار کیا گیا۔
کارل ملر کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ انفارمیشن کی ایسی مہم براہ راست مغرب کو نشانہ بناتی ہیں لیکن ان میں کسی ایک اکاؤنٹ سے بھی نہ براہ راست مغرب کو مخاطب کیا گیا اور نہ ہی ان میں سے کسی اکاؤنٹ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ مغرب سے تعلق رکھتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کی نشاندہی کرنے کے لیے کہ غیر مستند اکاؤنٹس کا گروپ کیا ہو سکتا ہے، محققین نے ان اکاؤنٹس کی تخلیق کی تاریخوں کا جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے ایک ’غیر انسانی‘ ٹویٹ کرنے کے رحجان کو دیکھا (جیسا کہ ایک اکاؤنٹ دن میں 24 گھنٹے ٹویٹ کرتا ہے) اور ٹویٹ کیے گئے موضوعات کا جائزہ لیا گیا۔‘

ملر کا کہنا تھا کہ ’ان میں کوئی اکاؤنٹس بھی مرکزی طور پر کسی ایسے جعلی کارروائی کے شواہد نہیں تھے لیکن اگر ان تمام اکاؤنٹس کی سرگرمیوں کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو آپ کو ایک مشتبہ رحجان کا پتا چلتا ہے۔‘
ان اکاؤنٹس پر اصلی پروفائل تصاویر کی جگہ جعلی تصاویر کا استعمال کرنا بھی اس جانب ایک اشارہ ہے۔
سی اے ایس ایم کپمنی کی جانب سے تجزیہ کیے گئے 100 اکاؤنٹس میں سے بی بی سی کو علم ہوا کہ 41 کی کوئی پروفائل تصاویر نہیں تھی۔ دیگر 30 اکاؤنٹس کی تصاویر میں خاکے یا پوتن یا فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کی تصاویر تھی۔ ان میں سے صرف ایک چوتھائی اکاؤنٹس پر لوگوں کی تصاویر تھیں جن میں سے چند چرائی گئی تھیں۔
ٹوئٹر انفرادی شخصیت، گروہوں اور اداروں کی نقل اختیار کرنے کی ممانعت کرتا ہے تاکہ صارفین کو گمراہ اور دھوکہ نہ دیا جائے۔
ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ جب سے روس یوکرین جنگ کا آغاز ہوا ہے تب سے اس نے ایسے ایک لاکھ اکاونٹس کو ہٹایا ہے اور درجنوں کو معطل کیا ہے جو ’آئی سٹینڈ ود رشیا‘ اور ’آئی سٹینڈ ود پوتن‘ کے پیش ٹیگز استعمال کر رہے تھے۔
ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ اس نے سی اے ایس ایم کی تحقیق کے ذریعے نشاندہی کیے گئے اور بی بی سی کی جانب سے بھیجے گئے سینکڑوں اکاؤنٹس کی چھان بین کر کے انھیں معطل کر دیا ہے۔ جن میں 12 میں سے 11 وہ اکاؤنٹس بھی شامل ہیں جنھیں دوسرے لوگوں کی پروفائل پکچرز استعمال کرنے پر خاص طور پر بند کیا گیا۔
لیکن ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ اسے یوکرین کی جنگ کے دوران جذبات کو مصنوعی طور پر بڑھانے کی کسی مہم کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔
Comments are closed.