بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین کی جنگ: قطر جیسے چھوٹے ملک کے لیے اقتصادی ترقی کے دروازے کھل گئے

یوکرین کی جنگ: قطر جیسے چھوٹے ملک کے لیے اقتصادی ترقی کے دروازے کھل گئے

امیر کویت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تیسں لاکھ سے کم نفوس پر مشتمل آبادی والا خلیجی ملک قطر، روس کی توانائی کی درآمدات کی کمی کو پورا کرنے کے لیے یورپ کے لیے ایک اہم ملک بن گیا ہے۔

آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ، مشرق وسطیٰ کا یہ چھوٹا ملک قطر دنیا میں مائع قدرتی گیس کا سب سے بڑا برآمد (LNG) کنندہ ہے اور اپنی گیس کی ضروریات کا تقریباً 40 فیصد اب تک روس سے گیس درآمد کرنے والے یورپی یونین کے ممالک کے لیے ایک ممکنہ تجارتی اتحادی بن گیا ہے۔

یورپ اور روس کے درمیان توانائی پر انحصار اس وقت تک کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا جب تک کہ کریملن نے فروری میں یوکرین میں فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا، جس سے تجارتی تعلقات تیزی سے غیر مستحکم ہوگئے ہیں۔

یورپ نے پہلے ہی دوسرے ممالک سے گیس کی درآمدات بڑھانے کے لیے طویل المدتی معاہدوں پر دستخط کرنا شروع کر دیے ہیں، لیکن روسی گیس کی درآمدات کے ممکنہ نقصان کو پورا کرنے کے لیے یہ حل کافی نہیں ہے۔

اقتصادی طور پر یورپ کے سب سے مستحکم ملک جرمنی ہی کو لے لیں جہاں ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 55 فیصد گیس روس سے خریدی جاتی ہے۔

تیل کے کنوئیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جرمنی کے وزیر اقتصادیات رابرٹ ہیبیک نے حال ہی میں ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روس پر انحصار کو کم کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ روس گیس اور تیل کی فروخت سے توانائی کی بلیک میلنگ کر رہا ہے۔

دنیا کے دوسرے حصے میں واقع قطر سے گیس کو مائع شکل میں جرمنی پہنچانے کے لیے صرف بحری جہازوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے لیے جرمنی کو اپنی بندرگاہوں میں بہت سی سہولیات بھی فراہم کرنی پڑیں گی جس کی تعمیر میں جرمنی کی حکومتی کے اپنے اندازوں کے مطابق تین سے پانچ سال لگ سکتے ہیں۔

لاجسٹک کی مشکلات کے باوجود اور حالات کی عجلت کے مدنظر ہیبیک نے کہا ہے کہ ‘ہمیں ناقابل عمل کوشش کرنی ہوگی۔’

جرمنی نے ایل این جی کے تیرتے ہوئے ٹرمینل حاصل کرنے کے لیے رقم مختص کرنے کے ساتھ اس کام کو تیز کر دیا ہے تاکہ امریکہ اور قطر سے موصول ہونے والی مایہ گیس کو صارفین تک پہنچایا جا سکے۔

جرمنی کے وزیر اقتصادیات

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جرمن وزیر اقتصادیات رابرٹ ہیبیک گیس کے نئے معاہدوں کے خواہاں ہیں

قطر گیس کی فروخت کے معاہدوں کے لیے ہونے والی سودے بازی میں ایک بہتر پوزیشن میں پہنچا جب اس نے گیس کی پیداوار اوراس کے انفراسٹرکچر میں قابل قدر سرمایہ کاری کر کے اسے بہتر بنا لیا تھا۔

واشنگٹن ڈی سی میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک میں اکنامکس اینڈ انرجی پروگرام کی سینئر محقق اور ڈائریکٹر کیرن ینگ نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ، ’قطر کے لیے یقیناً ایک موقع ہے۔‘

توسیعی منصوبے

قطر نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ملک کی گیس کی برآمدی صلاحیت کو سنہ 2027 تک ساٹھ فیصد تک بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور اب اگر یورپ کو ایل این جی کی فروخت کے سودے موجودہ نرخوں پر طے پاتے ہیں تو یہ قطر کے لیے اقتصادی طور پر بہت فائدہ مند ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی طور پر ایک نیم آئینی بادشاہت ہونے کے ناطے، قطر کو پیچیدہ فیصلہ سازی کے عمل سے گزرنے یا مختلف جماعتوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ملک کے سیاسی نظام کو مغربی تنظیمیں ایک ’آمرانہ طرز حکومت‘ قرار دیتے ہیں لیکن قطر اس کو مسترد کرتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل قطر میں غیر ملکی افرادی قوت کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی مذمت کرتی ہے اوراسے مزدوروں کا ’استحصال اور بدسلوکی‘ سمجھتی ہے۔

قطر کے عزائم

ایل این جی ریفریجریٹڈ گیس کی ایک شکل ہے جس کی قیمت قدرتی گیس سے زیادہ ہے، لیکن اس کا ایک بڑا فائدہ اس کی نقل و حمل کی آسانی ہے۔ اسے بحری جہازوں پر لوڈ کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے لاکھوں کی طویل المدتی سرمایہ کاری کے ساتھ بڑی گیس پائپ لائنوں کی تعمیر کی ضرورت نہیں ہے۔

اپنے کاروبار کو بڑھانے کے عزائم کے ساتھ، 2019 میں قطر نے 2027 تک اپنی LNG برآمدات میں 64% اضافہ کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔

یورپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یورپی ممالک کی اس نئی ضرورت کی وجہ سے ایل این جی گیس کی کھپت کئی سالوں تک بڑھ سکتی ہے۔

اس منصوبے کے تحت، سرکاری کمپنی قطرگاس نے نارتھ فیلڈ ریزرو کو وسعت دینے کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے، جو سمندر میں ایک بہت وسیع و عریض منصوبہ ہے جو ایرانی پانیوں تک پھیلا ہوا ہے اور دنیا کے سب سے بڑے قدرتی گیس کے ذخائر میں سے ایک ہے۔

اس توسیع سے ملک کو 2025 تک ایل این جی کی پیداواری صلاحیت 77 ملین سے 110 ملین ٹن تک بڑھانے کا موقع ملے گا، جس طرح مصنوعات کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اضافی ایل این جی کی درآمدات کی فروخت کے لیے نہ صرف جرمنی قطر کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے بلکہ اس کے کئی پڑوسی ممالک بھی مذاکرات کر رہے ہیں۔

روس کی طرف سے جنگی جارحیت کے دوران پولینڈ اور بلغاریہ کو سپلائی منقطع کرنے کے بعد حالیہ ہفتوں میں توانائی کے نئے ذرائع حاصل کرنے کی عجلت مزید شدید ہو گئی ہے۔

ایک امیر ملک امیر تر ہوتا جا رہا ہے

سوئٹزرلینڈ یا امریکہ سے زیادہ فی کس دولت کے ساتھ ، ایسا لگتا ہے کہ قطر مزید امیر بننے کے بہترین راستے پر گامزن ہے۔

یورپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یورپی ممالک کی اس نئی ضرورت کی وجہ سے ایل این جی گیس کی کھپت کئی سالوں تک بڑھ سکتی ہے۔

اس وقت، قطر کی تقریباً 80 فیصد ایل این جی برآمدات ایشیا کو جاتی ہیں، جن میں جنوبی کوریا، بھارت، چین اور جاپان اہم خریدار ہیں۔

اور مارکیٹ کے حجم کے لحاظ سے، چین 15 سال کی مدت کے لیے قطر کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد دنیا میں ایل این جی کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بن گیا۔

ایشیائی اور یورپی منڈیوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ قطر کے پاس منافع بخش معاہدے جیتنے کے لیے تمام شرائط موجود ہیں۔

اگرچہ سب کچھ فوری نہیں ہوگا۔ ریاستی دیو قطر کی توانائی پوری صلاحیت کے ساتھ پمپ کر رہی ہے اور زیادہ تر کھیپیں کثیر سالہ معاہدوں کے تحت فروخت کی جا رہی ہیں جو دوحہ کا کہنا ہے کہ وہ یورپ کی طرف سپلائی کو موڑنے کے لیے منسوخ نہیں کرے گا۔

یورپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پھر بھی، مورگن اسٹینلے جیسی کچھ فرمیں توقع کرتی ہیں کہ یورپ کے دیگر ممالک سے گیس درآمد کرنے کے فیصلے سے 2030 تک عالمی ایل این جی کی کھپت میں 60 فیصد اضافہ ہوگا۔

سٹی گروپ کے مطابق، جب تک یہ منظر نامہ جاری رہے گا، قطر کی معیشت اس سال 4 فیصد سے زیادہ بڑھے گی۔

یہ 2015 کے بعد سب سے بڑی چھلانگ ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.