نومنتخب وزیرِاعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی حلف برداری کے معاملے پر گورنر پنجاب نے صدر مملکت کو خط لکھ کر حلف نہ لینے سے متعلق آگاہ کردیا۔
گورنر پنجاب کی جانب سے صدر کو لکھا گیا خط 6 صفحات پر مشتمل ہے، خط میں حلف نہ لینے سے متعلق آئینی وجوہات سے آگاہ کردیا گیا۔
گورنر پنجاب نےخط میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے کو متنازع قرار دیا ہے۔
خط کے متن میں کہا گیا کہ نو منتخب وزیرِاعلیٰ کا انتخاب متنازع ہے، اپنی ذمہ داریاں آئین کے مطابق ادا کروں گا اس لیے آپ کو آگاہ کر رہا ہوں، ہائیکورٹ نے مجھے آپ کو تحریری طور پر اپنی وجوہات سے آگاہ کرنے کا حکم دیا تھا، میرے خیال میں یہ حکم دینا درست نہیں۔
متن میں کہا گیا کہ تمام ترحالات آپ کے علم میں لا رہا ہوں تاکہ ضروری کارروائی کی جاسکے، عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کو وزیراعلیٰ کا انتخاب، شفاف اور غیرجانبدار کروانے کی ہدایت کی تھی۔
خط کے متن میں کہا گیا کہ ڈپٹی اسپیکر نے وزیر اعلیٰ کا انتخاب غیر جانبدار ہو کر نہیں کروایا، ڈپٹی اسپیکر نے غیر منصفانہ، غیر شفاف اور جانبدار طریقے سے وزیرِاعلیٰ کا انتخاب کروایا، ڈپٹی اسپیکر کا اقدام عدالت کی ہدایات اور ان کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔
متن میں کہا گیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے اقدام کے باعث وزیرِاعلیٰ کے انتخاب کا عمل آئینی، قانونی حیثیت نہیں رکھتا، موصولہ رپورٹ اور ویڈیوز کے شواہد کی موجودگی میں وزیراعلیٰ کا انتخاب 73 کے آئین کے مطابق نہیں ہے۔
گورنر پنجاب کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 130 کی شق 5 کے تحت وزیراعلیٰ کی حلف برداری کا وقت مقرر نہیں، سیکریٹری اسمبلی کی رپورٹ وزیراعلیٰ کا انتخاب غیر آئینی ہونے کی دلیل ہے۔
خط کے متن میں کہا گیا کہ بطور گورنر ایک انتہائی متنازع وزیر اعلیٰ سے حلف نہیں لے سکتا، وزیر اعلیٰ کا انتخاب آئینی خلاف ورزیوں کا مثالی کیس ہے، آرٹیکل 130 کی شق 8 کے تحت وزیراعلیٰ نے استعفیٰ گورنر کے نام تحریر کرنا تھا، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے وزیراعظم کے نام استعفے پر میری آئینی رہنمائی فرمائی جائے۔
متن میں کہا گیا کہ پنجاب میں وزیرِاعلیٰ کے متنازع الیکشن کے حل کے لیے بھی میری آئینی رہنمائی کی جائے۔
Comments are closed.