9/11 حملے کے متاثرہ خاندانوں کا جو بائیڈن کو خط: ’سعودیوں کا کردار سامنے لائیں ورنہ میموریل میں شرکت نہ کریں‘
امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین نے صدر جو بائیڈن سے ان حملوں میں ملوث سعودیوں کے کردار کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں انھیں میموریل سروس (یعنی ہلاک ہونے والوں خراجِ تحسین) میں شرکت نہ کرنے کا کہا گیا ہے۔
تقریباً 1800 افراد نے ایک خط پر دستخط کیے ہیں جس میں صدر جو بائیڈن سے وہ دستاویزات جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ سعودی عرب کے حکام کو اس سازش میں ملوث کرتی ہیں۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اس صورت میں انھیں اگلے ماہ 20 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔
نائن الیون حملوں میں تقریباً تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حملے القاعدہ دہشت گرد گروہ نے کیے تھے اور افغانستان پر امریکی حملے کا باعث بنے تھے۔ ان حملوں میں ملوث 19 ہائی جیکروں میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔
خاندان کے ارکان، سب سے پہلے حادثے پر مدد کے لیے پہنچنے والے اور زندہ بچ جانے والوں کے خط میں کہا گیا ہے کہ ’ہم ہلاک ہونے والوں، بیمار اور زخمیوں کے ساتھ نیک نیتی رکھتے ہوئے تب تک صدر کو خوش آمدید نہیں کہہ سکتے جب تک اپنا عہد پورا نہیں کر دیتے۔‘
انھوں نے صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان تین مقامات نیویارک، ورجینیا اور پنسلوانیا سے دور رہیں جہاں حملے ہوئے تھے۔
یہ لواحقین کافی عرصے سے کہتے آ رہے ہیں کہ سعودی حکام کو ان حملوں کا پہلے سے علم تھا اور اس نے انھیں روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ انھوں نے سعودی عرب کی حکومت پر مقدمہ بھی دائر کیا ہے لیکن سعودی عرب ان حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کرتا ہے۔
گذشتہ مہینے اس مقدمے میں کئی اعلی سعودی حکام سے حلف کے تحت پوچھ گچھ کی گئی۔ ان کے بیانات سربہ مہر رہے جس سے خاندانوں کو مزید پریشانی ہے۔
لواحقین کا کہنا ہے ’سنہ 2004 میں نائن الیون کمیشن کے اختتام کے بعد سے سعودی حکومت کے اہلکاروں کو ان حملوں میں ملوث کرنے والے بہت سے تحقیقاتی شواہد سامنے آئے ہیں۔‘
’امریکہ میں آنے والی متعدد انتظامیہ، محکمہ انصاف اور ایف بی آئی نے ان معلومات کو خفیہ رکھنے اور امریکی عوام کو 9/11 حملوں کے بارے میں مکمل سچائی سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
جارج ڈبلیو بش، باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بھی قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے دستاویزات کو ظاہر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
گروپ نے مزید لکھا ہے ’قومی سلامتی کے غیرمعمولی دعوے یا دوسری صورت میں بیس سال بعد بھی اس معلومات کو خفیہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔۔۔‘
’لیکن اگر صدر بائیڈن اپنے عہد سے انحراف کرتے ہوئے سعودی حکومت کا ساتھ دیتے ہیں تو ہم نائن الیون کی یادگار تقریب میں ان کی انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی شرکت پر اعتراض کرنے پر مجبور ہوں گے۔‘
یاد رہے کہ 2002 کی کانگریس کی رپورٹ کے 28 صفحات کو شائع نہیں کیا گیا تھا جس کے باعث یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان صفحات میں درج تھا کہ 11 ستمبر کے حملوں میں سعودی عرب کی معاونت شامل تھی۔
انھی صفحوں کی بنیاد پر یہ تنازع بھی پیدا ہوا تھا کہ آیا 11 ستمبر کے حملوں میں لواحقین سعودی عرب پر مقدمہ دائر کر سکتے ہیں یا نہیں۔
جس سینیٹ کمیٹی نے 2002 میں یہ رپورٹ مرتب کی اس کے سربراہ سابق سینیٹر باب گریم تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ہائی جیکروں کی معاونت کی تھی۔
تاہم اس وقت سی آئی اے کے سربراہ جان برینن کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ انھوں نے سعودی ٹی وی چینل عربیہ ٹی وی کو انٹرویو میں کہا: ‘مجھے لگتا ہے کہ یہ 28 صفحات جلد عام کر دیے جائیں گے اور میرے خیال میں اچھا ہے کہ ایسا ہو۔ لوگوں کو ان صفحات کو سعودی عرب کے ملوث ہونے کے شواہد کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔’
جان برینن نے مزید کہا تھا کہ 2002 میں تیار کیے جانے والے یہ 28 صفحات محض ‘ابتدائی ریویو’ تھا۔
لینگلے، ورجنیا میں سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر کا ایک اور منظر
ان کا مزید کہنا تھا: ‘9/11 کمیشن نے تفصیل میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کے الزامات کا جائزہ لیا۔۔۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سعودی عرب کے ادارے یا ان کے سینیئر اہلکاروں کے ان حملوں میں ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔’
یاد رہے کہ امریکی سینیٹ میں اس بل نے بڑی رکاوٹ عبور کر لی تھی جس کے تحت 11 ستمبر میں امریکہ پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سعودی عرب کی حکومت پر مقدمہ کر سکیں گے۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ وہ اس بل کو ویٹو کر دیں گے، لیکن ڈیموکریٹک جماعت کے سینیٹروں کا کہنا ہے کہ وہ پراعتماد ہیں کہ صدر اوباما کا ویٹو نہیں مانا جائے گا۔
دوسری جانب سعودی عرب نے اوباما انتظامیہ اور امریکی کانگریس کے ارکان کو خبردار کیا تھا کہ اگر انھوں نے کوئی ایسا قانون یا بِل منظور کیا جس کے تحت کوئی امریکی عدالت سعودی عرب کو 11 ستمبر کے حملوں کا ذمہ دار قرار دے سکتی ہے، تو سعودی عرب امریکہ میں موجود اپنے اربوں ڈالر کے اثاثے فروخت کر دے گا۔
Comments are closed.