وہ امریکی شہری جو 8000 چینی ریستوران میں کھانا کھا چکا ہے
- ژاؤئن فینگ
- بی بی سی نیوز
امریکہ میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنھیں چینی کھانے بہت پسند ہیں لیکن ڈیوڈ آر چان ان میں سب سے الگ ہیں۔
لاس اینجلس میں رہنے والے 72 برس کے چان ایک سابق ٹیکس وکیل ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب تک امریکہ بھر میں تقریباً آٹھ ہزار ریستوران میں کھانا کھا چکے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
انھوں نے گذشتہ چار دہائیوں سے ہر ریستوران کا ریکارڈ ایک سپریڈ شیٹ میں محفوظ رکھا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس ہزاروں ریستوران کے بزنس کارڈ اور مینو بھی موجود ہیں۔
اگر کوئی شخص روزانہ بھی ایک چینی ریستوران میں جاتا ہے تو مسٹر چان کی طرح 7812 ریستوران میں جانے کے لیے اسے 20 برس سے زیادہ کا عرصہ درکار ہو گا۔
اگرچہ ان کا یہ سفر بحیثیت ایک چینی امریکی اپنی شناخت کی تلاش میں شروع ہوا لیکن وہ کہتے ہیں کہ گزرتے برسوں کے ساتھ ان کی کہانی امریکہ میں چینی کھانوں کی پذیرائی اور چینی ثقافت کے بدلتے رنگوں کی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔
مسٹر چان کوئی چینی کھانے کے کوئی روایتی ناقد نہیں اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کھانے پینے کے زیادہ شوقین بھی نہیں۔ انھوں نے کیفین سے پرھیز کے لیے چائے بھی چھوڑ رکھی ہے اور زیادہ تر کم چینی اور کم کولیسٹرول والا کھانا ہی کھاتے ہیں۔
ان ریستوران میں جانے کے علاوہ چینی کھانوں کے شوقین ڈیوڈ چان تقریباً روز ہی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ان کھانوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔
چینی کھانوں کا ایک ’مجموعہ‘
اگرچہ ان کے خاندان نے چین کے گوانگ ڈونگ صوبے سے کیلیفورنیا میں نقل مکانی کی تھی لیکن بچپن میں مسٹر چان کو چینی کھانے بالکل پسند نہیں تھے۔
مسٹر چان یاد کرتے ہیں کہ جب سنہ 1950 میں انھوں نے پہلی بار چینی کھانا کھایا تو ’وہ کوئی اتنا نفیس کھانا نہیں تھا۔ ہم ہوٹل جاتے اور میں چاول پر سویا ساس ڈال کر کھاتا اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔‘
امریکہ میں پہلی بار چینی کھانا چینی تارکین وطن نے بنایا تھا جو انیسویں صدی میں ’کیلیفورنیا گولڈ رش‘ کے دوران دولت کے خواب سجائے یہاں آئے تھے۔ سنہ 1849 میں پہلا چینی ریستوران سان فرانسکو میں کھلا جس کا نام ’کینٹون ریستوران‘ تھا۔
امریکہ آنے والے پہلے پہلے تارکین وطن کا تعلق جنوبی چین کے علاقے توسان سے تھا۔ اس ساحلی برادری میں بیرون ملک جانے کی روایت تو موجود تھی لیکن نسلی خونی تنازعے اور معاشی مشکلات کے باعث امریکہ کی جانب ہجرت کرنے کا رجحان بڑھ گیا۔
جس وقت مسٹر چان نے اپنا پہلا چینی سوپ چکھا تو اس وقت امریکہ میں چینی باشندوں کی تعداد خاصی کم تھی، کل آبادی میں سے صرف 0.08 اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق توسان سے تھا۔
مسٹر چان کہتے ہیں کہ ’یہ ایسا تھا جیسے چین میں تمام امریکی شہری لاس اینجلس سے 100 میل دور کسی چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتے ہوں۔ ان کی بہت کم نمائندگی تھی۔‘
نتیجتاً تمام امریکی چینی کھانے ایک جیسے ہوتے تھے۔ ان کھانوں کو امریکی ذائقے کے مطابق ڈھلنا پڑا اور مقامی اجزا استعمال ہونے لگے لیکن 1960 کی دہائی میں چیزین بدلنا شروع ہو گئیں۔
ایک نئے قانون نے ایشیا سے آنے والے تارکین وطن پر پابندی والے کوٹے کو ختم کر دیا تو امریکہ میں چین، ہانگ کانگ اور تائیوان سے بڑی تعداد میں تارکین وطن امریکہ آنے لگے اور اس کے ساتھ ساتھ ہی چین بھر سے مقامی کھانوں کی بھی آمد ہوئی۔
اسی وقت امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک زورو شور سے جاری تھی جس نے مسٹر چان کو، جو اس وقت کالج میں زیر تعلیم تھے، اپنے چینی امریکی ورثے کو دریافت کرنے کے لیے متاثر کیا۔
سنہ 1960 میں انھوں نے چینی ریستورانوں میں کھانے کھانا شروع کیے۔ مسٹر چان کہتے ہیں کہ شروع میں یہ صرف شناخت کی تلاش تھی۔
’امریکہ میں رہنے والے چینیوں کی تاریخ میں میری دلچسپی مجھے چینی کھانوں کی جانب لے گئی۔‘
اس سے مسٹر چان کو مخلتف چینی کھانوں کے بارے میں پتا چلا اور وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے انھیں نہیں معلوم تھا کہ چینی کھانے کتنے متنوع ہیں۔
کینٹونیز فوڈ، جس میں ڈشز کا سائز ایک نوالے جتنا ہوتا ہے، میں زیادہ تیز مصالحے استعمال نہیں کیے جاتے تاکہ قدرتی اجزا کا ذائقہ برقرار رہے۔ فوجیانی کھانوں میں زیادہ تر شوربے کے ساتھ سی فوڈ (سمندری خوراک) پیش کی جاتی ہے جبکہ سیچوانیز کھانوں میں مرچوں کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔
بحیثیت ٹیکس وکیل اپنے طویل کرئیر میں کاروباری دوروں کے دوران مسٹر چان نے امریکہ کی دور دراز ریاستوں، کینیڈا اور ایشیا میں چینی کھانے کھائے۔
وہ کہتے ہیں کہ مخلتف قسم کے مستند چینی کھانوں کے لیے امریکہ میں بہترین جگہ لاس اینجلس میں سان گبریئیل ویلی ہے لیکن ایک نوالے کے سائز کے چینی کھانوں کے لیے سان فرانسکو بہترین جگہ ہے۔
مسٹر چان کہتے ہیں ایک بار انھیں ’غیر متوقع طور پر اچھا‘ چاؤمین کلارک ڈیل، مسیسیپی میں کھانے کا موقع ملا تاہم شمالی ڈکوٹا میں انھیں چینی کھانا کھا کر خاصی مایوسی ہوئی۔
’فرائی چاول ابلے چاولوں کی طرح تھے اور کسی نے ان پر سویا ساس ڈال تھی۔‘
امریکی چینی کھانوں کا عروج
مسٹر چان کا خیال ہے کہ گذشتہ دہائی میں امریکی یونیورسٹیوں میں بڑی تعداد میں چین سے آنے والے طلبا کی وجہ سے ملک میں چینی کھانا ’جمہوری‘ بن چکا ہے۔
اب جس علاقے میں بھی کالج ہے وہاں چینی کھانوں کا ایک اچھا ریستوران ضرور موجود ہے۔
لیکن امریکہ میں چینی کھانوں کے بڑھتے ہوا حالیہ رجحان سے قبل سنہ 1972 کے صدارتی دورے نے بھی امریکہ میں چینی کھانے کو فروغ بخشا۔
امریکی صدر رچرڈ نکسن کی چین کے وزیراعظم چاؤ این لائی کے ساتھ شاندار ضیافت کو امریکہ بھر میں لائیو دکھایا گیا اور لاکھوں امریکی شہریوں نے اپنے صدر کو چاپ سٹکس کے ساتھ وہ کھانے کھاتے دیکھا جن کے بارے میں بہت کم لوگوں نے سن رکھا تھا۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں تاریخ کے ایک پروفیسر یناگ چین کہتے ہیں کہ ’نکسن کے دورے نے امریکہ کو چینی کھانوں کی ترقی کے ایک اور مرحلے کے لیے تیار کیا۔‘
یہ بھی پڑھیے
نکسن کی ’چاپ سٹک ڈپلومیسی‘ کے پانچ ماہ بعد نیویارک ٹائمز نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا: ’سرد مہری کے خاتمے کے بعد چینی ریستوران کا عروج۔‘
چین امریکہ ریستوران ایسوسی ایشن کے ایک اندازے کے مطابق آج امریکہ بھر میں 45 ہزار سے زیادہ چینی ریستوران موجود ہیں جو میکڈونلڈ، برگر کنگ، کے ایف سی کے کل ریستوران سے بھی زیادہ ہیں۔
چینی ریستوران کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ریستوران چھٹیوں کے موقع، جیسے کرسمس اور تھینکس گیونگ، پر بھی کھلے رہتے ہیں۔
آج کل امریکہ میں چینی کھانے، چکنائی والے چمچوں سے لے کر نفیس مقامات تک موجود ہیں۔ بڑے امریکی شہروں میں، اعلیٰ درجے کے چینی ڈائننگ ریستوران نے بھی دروازے کھول دیے ہیں۔
مسٹر چان کے لیے یہ ٹرینڈ نئے چینی ریستوران میں جانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے ابھی اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ وہ مزید کتنے ریستوران میں جائیں گے لیکن وہ زیادہ سے زیادہ میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے باوجود چان نئے مقامات پر جا کر چینی کھانے کھانا چاہتے ہیں اور فوڈ بلاگ جادی رکھنا چاہتے ہیں۔
لیکن مسٹر چان کے فالوورز میں سے ایک ان کی مہارت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے اور وہ ان کی اہلیہ ہیں جن کا تعلق چین سے ہے اور وہ اس بات پر حیرانی کا اظہار کرتی ہیں کہ لوگ مسٹر چان سے چینی کھانوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
کیونکہ ان کے گھر میں کھانا صرف وہ ہی بناتی ہیں۔
Comments are closed.