جو لیگن: امریکہ میں ’سب سے طویل عرصے تک قید رہنے والا شخص‘ 68 سال بعد جیل سے رہا
- سوامناتھن ناٹاراجن اور لورن پوٹس
- بی بی سی ورلڈ سروس
جو لیگن جب جیل پہنچے تو وہ 15 سال کے تھے اور رہائی پر ان کی عمر 83 سال ہے
امریکہ میں ’سب سے طویل عرصے تک جیل میں سزا کاٹنے والے شخص‘ کو حال ہی میں جیل سے رہا کیا گیا ہے اور وہ اب وہ آزاد ہیں۔
جو لیگن نے بی بی سی ورلڈ سروس سے بات کی کہ آخر کس طرح انھوں نے تقریباً سات دہائیاں جیل میں گزاریں اور انھیں آزاد ہونے کے لیے اتنا لمبا انتظار کیوں کرنا پڑا اور وہ اب اپنے باقی دن کیسے گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں کبھی تنہا نہیں رہا لیکن میں تنہائی پسند ہوں۔ میں جتنا ممکن ہو اکیلے رہنا پسند کرتا ہوں۔ جیل میں اپنی گرفتاری کے وقت سے رہا ہونے تک میں ایک ہی سیل میں رہا۔ یعنی گرفتاری سے رہائی تک تنہا۔‘
‘اس سے مجھ جیسے لوگوں کو جو تنہا رہنا چاہتے ہیں مدد ملتی ہے۔ میں اس قسم کا شخص ہوں جس نے ایک بار اگر سیل میں جا کر دروازہ بند کر لیا تو پھر باہر کیا ہو رہا ہے اسے نہ دیکھا اور نہ سُنا۔ جب ہمیں ریڈیو اور ٹی وی رکھنے کی اجازت دی گئی تو وہی میرا ساتھی تھا۔‘
Joe Ligon went to prison at 15 and was finally released aged 83
یہ کہنا شاید مناسب ہے کہ جیل کی زندگی جو لیگن کے لیے ایک حد تک موزوں تھی۔ اس نے اسے اپنا سر نیچے رکھنے، منھ بند رکھنے اور پریشانیوں سے بچنے کے لیے راہ ہموار کی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ہر سبق سلاخوں کے پیچھے اپنی 68 سالہ قید میں سیکھا ہے۔
اور جب سزا کے اختتام پر اپنے سیل کو چھوڑنے کا وقت آیا تو اس بات سے انھیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی کیونکہ وہاں کوئی دوسرا نہیں تھا جسے ان سے بچھڑنا تھا۔ درحقیقت خود کو ہی اپنا ساتھی بنانا ان کا اپنا سوچا سمجھا انتخاب تھا۔
انھوں نے بتایا: ‘اندر میرا کوئی دوست نہیں تھا اور نہ باہر ہی کوئی دوست تھا۔ لیکن زیادہ تر لوگ سے میں ملا۔۔۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جیسے وہ میرے دوست ہیں۔ ہم کول تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ ٹھیک تھے۔‘
یہ بھی پڑھیے
’لیکن میں نے لفظ دوست کا استعمال نہیں کیا، میں نے یہ سیکھا کہ اس لفظ کا انتخاب میرے جیسے شخص کے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔ اور بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ [اگر آپ دوست ہیں] تو آپ بہت بڑی غلطی پر ہو سکتے ہیں۔‘
سنہ 1950 کے فلاڈیلفیا کا ایک منظر
لیگن اپنی غلطیوں کے سبب ہمیشہ تنہا رہے۔ لیگن الاباما کے برمنگھم میں اپنے ماموں نانا کے پاس پروان چڑھے۔ ان کے بہت سے دوست نہیں تھے لیکن انھیں اپنے کنبہ کے ساتھ خوشگوار وقت یاد ہیں، جیسے اتوار کے روز اپنے رشتے کے دادا کو ایک مقامی چرچ میں تبلیغ کرتے ہوئے دیکھنا۔
وہ جب 13 سال کے ہوئے تو انتہائی جنوب میں فلاڈیلفیا کے مزدوروں کی کالونی کے پڑوس میں اپنی نرس ماں، مکینک والد اور چھوٹے بھائی اور بہن کے ساتھ منتقل ہو گئے۔ وہ سکول میں جدوجہد کرتے رہے مگر انھیں نہ تو پڑھنا آیا اور نہ ہی لکھنا۔ وہ کھیلتے بھی نہیں تھے اور اگر دوستوں کی بات کی جائے تو کسی دوست کا ہونا ان کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتا تھا۔
‘میں نے بہت زیادہ باہر دوستوں کے ساتھ وقت نہیں گزارا۔ میں اس قسم کا شخص تھا جس کے ایک یا دو دوست تھے، اور وہ کافی تھے، مجھے بھیڑ کی ضرورت نہیں تھی۔‘
،تصویر کا ذریعہBradley S Bridge/Joe Ligon
لیگن کے والد ایک مکینک اور والدہ نرس تھیں
جب لیگن اس جمعے کی شام 1953 میں ‘مسئلے میں پڑے‘، انھیں اس وقت بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کن لوگوں کے ساتھ ہیں۔ وہ ابھی ان لوگوں سے ملے تھے جن سے ان کا غیر رسمی طور پر تھوڑا تعارف تو تھا اور وہ اکھٹے محلے میں واک کر رہے تھے اور کچھ ساتھیوں سے ملے جو شراب پی رہے تھے۔
‘ہم نے چلتے پھرتے لوگوں سے پیسے مانگنے شروع کر دیے تاکہ اور شراب لے سکیں اور بات بہت آگے نکل گئی۔‘
اس کے بعد باتوں کی کڑیاں گم جاتی ہیں۔ مگر ایک بات تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس رات کا اختتام ایسے پرتشدد واقعات کے ساتھ ہوا جن میں لوگوں کو چھریاں ماری گئی اور ان میں لیگن بھی ملوث تھے۔ اس رات دو لوگ مارے گئے اور چھ زخمی ہوئے۔
لیگن کو سب سے پہلے گرفتار کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ تھانے میں وہ پولیس اہلکاروں کو یہ ہی بتا نہیں پا رہے تھے کہ ان کے ساتھ اس رات کون تھا۔ ‘مجھے جن دو لوگوں کا پتا تھا، ان کے بھی میں اصل نام نہیں جانتا تھا بلکہ صرف عرفیت سے جانتا تھا۔‘
لیگن کا کہنا ہے کہ انھیں ان کے گھر سے دور تھانے روڈمین سٹریٹ میں لے جایا گیا اور انھیں پانچ روز تک بغیر کسی قانونی امداد کے رکھا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں بہت عرصے تک اس بات پر غصہ رہا کہ جب ان کے والدین ان سے ملنے آئے تو انھیں ملنے نہیں دیا گیا۔
اسے ہفتے پندرہ سال کی عمر میں لیگن پر قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا۔ اس الزام کی ہمیشہ سے انھوں نے تردید کی تاہم بعد میں امریکی خبر رساں ادارے پی بی ایس کو دیے ایک انٹرویو میں انھوں نے اعتراف کیا کہ انھوں نے دو لوگوں کو چاقو مارا تھا اور وہ بچ گئے تھے۔ لیگن نے اس پر ندامت بھی ظاہر کی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘پولیس نے مجھے بیانات دیے، دستخط کرنے کے لیے۔ ان میں لکھا تھا کہ میں قتل میں ملوث تھا۔‘
پینسلوینا ان چھ امریکی ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں عمر قید میں پیرول کا امکان نہیں ہوتا۔ لیگن کے خلاف مقدمہ ہوا اور ایک جج نے انھیں دو افراد کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا۔
جب عدالت نے انھیں عمر قید کی سزا سنائی تو اس وقت وہ عدالت میں موجود نہیں تھے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی کیونکہ اس وقت یہ سزا تو سب کو واضح نظر آ رہی تھی۔ مگر اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ جب جیل گئے تو انھیں اپنی سزا کی مکمل شرائط کا معلوم ہی نہیں تھا اور انھیں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ وہ کسی سے پوچھ لیں۔
لیگن کہتے ہیں ‘مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میں کیا پوچھوں۔ میں جانتا تو ہوں کہ یہ ماننا مشکل ہے مگر یہی حقیقت تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے سزا کاٹنی ہے مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میں ساری زندگی جیل میں گزار دوں گا۔ میں نے تو کبھی یہ الفاظ سُنے نہیں تھے کہ پیرول کے ساتھ عمر قید۔‘
‘میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں بچپن میں کن مسائل میں تھا۔ میں پڑھ لکھ نہیں سکتا تھا، میں اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتا۔‘
،تصویر کا ذریعہBradley S Bridge
لیگن کی جوانی کی تصویر
لیگن کا کہنا ہے کہ جب وہ جیل گئے تو وہ خوفزدہ ہونے سے زیادہ معاملات کے حوالے سے ابہام کا شکار تھے۔ ‘میرے ذہن میں مرکزی خیال فیملی کا تھا، کہ ان سے دور لے جایا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ اصل سوچنے کی بات ہے۔‘
بطور قیدی اے ای 4126 لیگن نے بظاہر کبھی یہ سوال نہیں پوچھا کہ ان کی رہائی میں کتنا وقت رہتا ہے۔ 68 سالوں میں وہ چھ جیلوں میں رہے اور ہر مرتبہ انھیں جیل کی زندگی کے ساتھ خود کو ڈھالنا پڑا۔
‘وہ آپ کو چھ بجے بڑے سے ہارن سے اٹھاتے ہیں، پھر آواز آتی ہے کہ گنتی کا وقت ہے، سات بجے کھانا، آٹھ بجے کام کا وقت۔‘
لیگن نے کبھی کچن میں کام کیا تو کبھی لانڈری میں مگر زیادہ وقت انھوں نے صفائی کرنے والے کے طور پر گزارا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی پر چلے جاتے، شام کو پھر گنتی ہوتی تھی اور پھر رات کا کھانا۔ جیل کے اندر زندگی بالکل ایک طرح کی تھی جبکہ باہر کی دنیا تیزی سے بدل رہی تھی۔
وہ کہتے ہیں ‘میں نے جیل میں منشیات استعمال نہیں کیں، شراب نہیں پی، میں نے کوئی انہونا کام نہیں کیا، ایسا کوئی کام نہیں کیا جس کی وجہ سے لوگ مارے جاتے ہیں، میں نے بھاگنے کی کوشش نہیں کی، اور نہ ہی کسی سے کوئی لڑائی کی۔‘
میں جتنا عاجز ہو سکتا تھا، رہا۔ میں نے جیل میں سیکھا کہ اپنے کام سے مطلب رکھیں، ہمیشہ جائز کام کرنے کی کوشش کریں، اور اگر ممکن ہو تو مسائل سے دور رہیں۔‘
53 سال کی سزا کاٹنے کے بعد ایک دن لیگن کو بتایا گیا کہ ایک وکیل ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ سنہ 2005 میں سپریم کورٹ کا حکم تھا کہ نابالغ نوجوانوں کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی جس کی وجہ سے وکیل بریڈلی بریج نے لیگن کے کیس میں دلچسپی لی۔ بریڈلی کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جو بڑا معاملہ اب سامنے آنا تھا وہ یہ تھا کہ پیرول کے بغیر جن نابالغوں کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی، ان کا کیا بنا۔
اس وقت پینسلوینا میں 525 ایسے مجرم تھے۔ ان میں سے فلاڈلیفیا میں ہی 325 تھے اور لیگن سب سے زیادہ پرانے تھے۔ اسی لیے نائب سرکاری وکیلِ دفاع نے ان سے ملاقات طے کی۔
بریج کہتے ہیں کہ ‘لیگن کو سزا کے بارے میں معلوم ہی نہیں تھا۔ جب تک میری اس سے ملاقات نہیں ہوئی، اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے کبھی امید نہیں چھوڑی۔ اسے پتا ہے کہ ہونا ہے۔‘
‘مجھے یہ واضح نہیں ہے کہ ان کے خیال میں یہ کیسے ہونا تھا یعنی سزا پر عملدرآمد۔ میرا نہیں خیال یہ ان کی سوچ کا حصہ تھا۔ مگر بس انھوں نے اس بات پر یقین رکھا کہ کسی طرح یہ ہو جائے گا۔ وہ بیٹھ کر انتظار کرنے پر راضی تھے۔‘
لیگن کے لیے یہ ملاقات بہت معلوماتی تھی۔ جب بریج نے انھیں سزا کے خلاف اپیل کی کاپی دکھائی تو پہلی مرتبہ لیگن کو پتا چلا کہ ان کی سزا کی شرائط کیا تھیں۔
لیگن کہتے ہیں کہ ‘مجھے معلوم ہوا کہ میرے ساتھ تو گرفتاری کے وقت سے غلط سلوک روا رکھا گیا تھا۔ اور پھر مجھے سکھایا گیا کہ یہ غیر آئینی ہے کہ کسی نابالغ کو بغیر پیرول کے عمر قید دی جائے۔‘
پھر لیگن کو پہلی مرتبہ امید ہوئی کہ وہ حقیقی طور پر جیل سے رہائی پا سکیں گے، مگر آئندہ 15 سالوں میں انھوں نے کچھ ایسے فیصلے لیے جو شاید عام لوگوں کو سمجھنے میں مشکل ہو: انھوں نے متعدد بار رہائی کی مواقع مسترد کر دیے کیونکہ رہائی کے ساتھ بہت سی شرائط تھیں۔
‘پیرول بورڈ سے میری دو مرتبہ ملاقات ہوئی۔ پیرول لے لینا تو کئی سال پہلے آسان اور جلد ممکن تھا۔ مگر اس میں میں ساری عمر کے لیے پروبیشن پر ہوتا۔ میرے کیس میں زندگی بھر کی پیرول کا فیصلہ نہیں دیا گیا تھا۔ اسی لیے میں نے وہ تسلیم نہیں کیا۔‘
سنہ 2016 میں امریکی سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ تمام نابالغوں کی دوبارہ سزائیں وضع کی جائیں۔ لیگن کو اس مرتبہ 35 سال قید کی سزا سنائی گئی جس کا مطلب یہ تھا کہ کاٹی گئی سزا کی بنیاد پر وہ پیرول کے لیے کوشش کر سکتے تھے۔ بریج نے انھیں کہا بھی کہ پیرول کی درخواست دے دیں مگر انھوں نے صاف انکار کر دیا۔
لیگن کا موقف تھا کہ اگر انھوں نے پیرول تسلیم کر لی تو وہ پھر بھی غلط رویہ برداشت کر رہے ہوں گے۔
بریج کو آخرکار 2017 میں ان کی سزا کے خلاف اپیل کرنا ہی پڑی اور نومبر 2020 میں وہ اسے وفاقی عدالت میں لے گئے اور جج نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ جب 11 فروری کو بریج مونٹگمری کاؤنٹی گئے لیگن کو لینے تو انھوں نے لیگن کو انتہائی پرسکون پایا۔
بریج کہتے ہیں کہ ‘میں توقع کر رہا تھا کہ کچھ زیادہ حیرانی والا ردعمل آئے گا مگر انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ کوئی سنسنی نہیں۔‘
لیگن شاید وہی کر رہے تھے جو انھوں نے کئی دہائیوں سے کیا ہے، یعنی اپنے خیالات کو اپنے تک رکھنا۔ اپنی رہائی کے ایک ماہ کے بعد وہ اپنے آخری دن کے بارے میں کہتے ہیں کہ ‘یہ ایسے ہے کہ جیسے دوبارہ پیدا ہونا۔ میرے لیے ہر چیز نئی ہے۔‘
‘میں ان نئی کاروں کو دیکھتا ہوں تو ان کی شکل ویسی نہیں جیسی کاریں میرے ذہن میں تھیں۔ میں ان اونچی عمارتوں کو دیکھتا ہوں، پہلے ایسی عمارتیں نہیں تھیں۔ میرے لیے یہ سب نیا ہے۔‘
مگر وہ کہتے ہیں ‘میں وہی کروں گا جو میں ساری زندگی کرتا رہا ہوں، میں کہیں صفائی والے کی نوکری لوں گا۔‘
Comments are closed.